ہدایت کار قمر زیدی کی کچھ یادیں

وحید مراد سے اور ان کے والد نثار مراد سے ان کی خاص بے تکلفی تھی


یونس ہمدم October 22, 2016
[email protected]

لاہور: اس سے پہلے کہ میں ہدایت کار قمر زیدی کی طرف آؤں میں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم سابقہ مشرقی پاکستان میں ہدایت کار ظہیر ریحان نے بنائی تھی، فلم کا نام ''سنگم'' تھا اور اس فلم کے بعد دوسری رنگین فلم مغربی پاکستان میں بنائی گئی تھی، جو پنجابی زبان کی فلم تھی جو ''پنج دریا'' کے نام سے بنائی گئی تھی اور پہلی اردو رنگین فلم فلمساز آغا جی اے کی فلم ''نائلہ'' تھی، جس کے ہدایت کار شریف نئیر تھے۔

اور اب میں آتا ہوں اس فلم کی طرف جس کی پہلی بار آؤٹ ڈور شوٹنگ لندن اور یورپ میں کی گئی تھی، ورنہ اس سے پہلے اس فلم کو مہنگی بجٹ کی فلم کہا جاتا تھا جس کی شوٹنگ مری، نتھیا گلی کی حسین وادیوں یا پھر کالام میں کی جاتی تھی۔ اس اعتبار سے فلم ''رشتہ ہے پیار کا'' وہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کی شوٹنگ بیرون ممالک لندن وغیرہ میں کی گئی اور اس فلم کے ہدایت کار قمر زیدی اور وحید مراد ہیرو کے ساتھ فلمساز بھی تھے۔

مذکورہ فلم میں وحید مراد کے ساتھ زیبا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں مشہور ہدایت کار اقبال یوسف نے بھی ایک نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ہدایت کار قمر زیدی جب ''رشتہ ہے پیار کا'' کی شوٹنگ مکمل کرکے کراچی آئے تو انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں اپنی فلم کی شوٹنگ کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔

ان دنوں میں کسی اخبار سے وابستہ نہیں تھا بلکہ فری لانس فلمی صحافی تھا اور میں نے قمر زیدی سے ایک تفصیلی انٹرویو کرکے نگار ویکلی کو دیا تھا۔ میری پہلی ملاقات ہدایت کار قمر زیدی سے اس پریس کانفرنس میں ہوئی تھی، پھر اکثر و بیشتر ملاقاتیں ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہوتی رہیں۔ میرے اس مذکورہ انٹرویو کا عنوان تھا ''بیرون ملک شوٹنگ کا دروازہ جو قمر زیدی نے کھولا''۔

''رشتہ ہے پیار کا'' اس دور کی ایک کامیاب فلم تھی اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے فلمسازوں نے بھی فیصلہ کیا اور پھر پاکستانی فلموں کے یونٹ بیرون ملک شوٹنگ کی غرض سے جانے لگا۔ 'رشتہ ہے پیار کا' 1967 میں ریلیز ہوئی تھی، اس فلم کے یوں تو تمام گانے بڑے خوبصورت قلمبند ہوئے تھے، مگر احمد رشدی اور رونا لیلیٰ کے گائے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:

معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے
نظروں سے ملیں نظریں کیا ہوگا خدا جانے

فلم کے موسیقار ناشاد تھے، فلمساز و اداکار وحید مراد نے ہیرا اور پتھر، ارمان، دوراہا، کے بعد 'رشتہ ہے پیار کا' ایک اور بڑی کامیاب فلم دی تھی۔ 'رشتہ ہے پیار کا' کے بعد جو دوسری کامیاب فلم قمر زیدی کے کریڈٹ پر آئی، وہ تھی ''سالگرہ'' جو 1969 میں ریلیز ہوئی، اس کی فلمساز بیگم نجمہ حسن تھیں۔ فلم سالگرہ میں وحید مراد کے ساتھ شمیم آرا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی بھی ناشاد نے دی تھی۔ اس فلم کے گیتوں کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، خاص طور پر میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے دو گیتوں نے بڑی دھوم مچائی تھی، جو شاعر شیون رضوی نے لکھے تھے، جن میں سے ایک کے بول تھے:

لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

اور دوسرے گیت کا مکھڑا تھا:

میری زندگی ہے نغمہ مری زندگی ترانہ
میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ

فلم سالگرہ کی کامیابی میں فلم کی کہانی، شمیم آرا کی اداکاری، شیون رضوی کی شاعری، ناشاد کی موسیقی اور نورجہاں کی سریلی آواز کا بڑا دخل تھا۔ اس فلم کی ایک اور خصوصیت بھی تھی جو فلم بنانے کے دوران تو اتنی اہم نہیں تھی مگر بعد میں ایک چائلڈ اسٹار کی شوٹنگ تاریخ کا ایک حصہ بن گئی تھی، کیوںکہ فلم سالگرہ میں وحید مراد کے بچپن کا کردار بھی چائلڈ اسٹار نے کیا تھا۔ وہ بچہ بڑا ہوکر آصف علی زرداری بن کر منظر عام پر آیا۔ جی ہاں وہی بچہ اداکار بڑا ہوکر ایک عظیم سیاست دان بن گیا۔

یہ کردار آصف علی زرداری کو اس لیے ملا تھا کہ ان دنوں آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری فلموں کے بزنس سے بھی وابستہ تھے اور ان کے کراچی میں دو سینما ''لیرک'' اور ''رینو'' بھی تھے۔ ہدایت کار قمر زیدی کو فلم سالگرہ میں وحید مراد کے بچپن کے لیے ایک بچے کی تلاش تھی، حاکم علی زرداری کبھی کبھی فلموں کی شوٹنگ بھی دیکھنے چلے جایا کرتے تھے۔

وحید مراد سے اور ان کے والد نثار مراد سے ان کی خاص بے تکلفی تھی۔ جب قمر زیدی نے حاکم علی زرداری کے کمسن بیٹے آصف کو دیکھا تو چائلڈ اسٹار کی آفر کردی، جسے حاکم علی زرداری نے قبول کرتے ہوئے بیٹے کو فلم میں وحید مراد کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی اجازت دے دی۔ وحید مراد کے بچپن کا کردار کرنے والا بچہ بڑا ہوکر آصف علی زرداری بن گیا۔ مگر آصف علی زرداری کی زندگی کی ہیروئن پاکستان کے عظیم اور تاریخ ساز سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست دان بیٹی بے نظیر بھٹو بن گئی اور اس سیاسی جوڑے نے پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل مچادی تھی۔

کل کا چائلڈ اسٹار پھر اس طرح سیاست کے آسمان کا سپر اسٹار بناکہ پاکستان کے صدر کے عہدے تک پہنچ گیا اور آج بھی آصف علی زرداری کی سیاست عروج پر ہے۔ میری بھی آصف علی زرداری سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا دور تھا، محترمہ پاکستان کی وزیراعظم تھیں اور آصف علی زرداری ماحولیات کے وفاقی وزیر تھے۔

ان دنوں پاکستان کے پہلے انگلش کمنٹیٹر کرکٹ عمر قریشی کی ایک مشہور ایڈورٹائزنگ کمپنی انٹر گلوب کے نام سے کراچی میں تھی اور ماحولیات کی بہت سی فلمیں ان کی کمپنی نے بنائی تھیں۔ میں نے بھی ان کے ادارے کے ساتھ کام کیا تھا اور ماحولیات پر کئی کیمپین لکھی تھیں۔ انھی دنوں مری کی مارگلہ پہاڑی پر شجرکاری کی ایک بڑی مہم کا افتتاح آصف علی زرداری نے پودے لگاکر کیا تھا۔

وہاں ماحولیات کے موضوع پر بنائی گئی میری لکھی ہوئی دو فلمیں بھی چلائی گئی تھیں، ایک کا عنوان تھا 'دریا کی فریاد'۔ یہ گیت سلیم شہزاد نے گایا تھا اور موسیقی محبوب اشرف نے دی تھی اور دوسری فلم کا میرا لکھا ہوا ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا۔ گیت مہناز نے گایا تھا جس کی موسیقی نثار بزمی نے مرتب کی تھی اور بول تھے۔

یہ احساس قوم کو دلائیں، آلودگی سے ملک کو بچائیں

نئے نئے پودے لگائیں

عمر قریشی اپنی فلموں کے یونٹ کو مری لے کر گئے تھے اور ان فلموں کے افتتاح پر مجھ سمیت یونٹ کے تمام افراد کا زرداری صاحب سے تعارف کرایا تھا۔ یہ تھی میری آصف علی زرداری سے ایک مختصر سی ملاقات۔ یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی تھی۔ اب میں پھر ہدایت کار قمر زیدی کی طرف آتا ہوں۔ یہ 1970 کا زمانہ تھا، میں ابھی لاہور نہیں گیا تھا۔

وحید مراد نے شبنم کو ہیروئن لے کر کراچی میں ایک اور فلم ''نصیب اپنا اپنا'' کا آغاز کیا۔ اس فلم میں وحید مراد نے مسرور انور سے گیت لکھوائے اور پھر ایک بار اپنا موسیقار بدل دیا۔ اس بار وحید مراد نے موسیقار لال محمد اقبال کی جوڑی کو لیا تھا، جس نے بہت اچھی موسیقی دی تھی اور ایک گیت تو اتنا مقبول ہوا کہ وہ تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے بارش کی طرح برستا تھا، احمد رشدی نے بھی بڑے موڈ میں گایا تھا۔ گیت کے بول تھے:

اے ابر کرم آج اتنا برس
اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں

اس فلم کی کامیابی کے بعد ہدایت کار قمر زیدی کا ایک اور فلم ''رم جھم'' کا ذکر بھی ضروری ہے، جس میں ہدایت کار نے وحید مراد کے ساتھ روزینہ کو ہیروئن لیا تھا، جس کا اسکرپٹ ریڈیو پاکستان کراچی کے مشہور رائٹر ریاض فرشوری نے لکھا تھا اور دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ روزینہ جیسی منچلی اور نٹ کھٹ لڑکی پر پہلی بار ایک المیہ گیت عکس بند کیا گیا تھا، جو نور جہاں نے گایا تھا، موسیقار ناشاد تھے اور گیت کے بول تھے:

میں نے اک آشیاں بنایا تھا، اب بھی شاید وہ جل رہا ہوگا
تنکے سب خاک ہوگئے ہوںگے، اک دھواں سا نکل رہا ہوگا

یہ گیت بھی شیون رضوی نے لکھا تھا اور روزینہ نے اس گیت کے دوران بڑی جان دار المیہ اداکاری کی تھی۔ ہدایت کار قمر زیدی کی ایک قابل ذکر فلم فلمساز مولانا ہپی کی ''دھماکا'' بھی تھی، جس میں پہلی بار آج کے نامور فلمساز، ہدایت کار و اداکار جاوید شیخ نے ڈیبوکیا تھا۔ انور اقبال نے بھی اس فلم میں ایک کردار ادا کیا۔

شبنم رحمان کا مرکزی کردار تھا اور فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس فلم کے مصنف نوجوان نسل کے مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی تھے۔ ہدایت کار قمر زیدی کے ساتھ ان کی زندگی نے زیادہ وفا نہیں کی اور وہ بھی جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قمر زیدی ایک سیدھے سادے اور نفیس انسان تھے، اﷲ ان کی مغفرت کرے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔