ڈاکٹر لدمیلا اور فیض احمد فیض

فیض احمد فیض پر لکھی گئی کتاب کچھ زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے


Naseem Anjum October 23, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: جب میں نے ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا کی ادبی خدمات پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو میرے سامنے دوسرے مفکرین کی کتابیں اور مختلف تحریریں فیض احمد فیض کے حوالے سے آکر ٹھہر گئیں، جس طرح ڈاکٹر لدمیلا کے ادبی کارنامے میرے لیے حیرت و استعجاب کے در وا کرتے ہیں کہ انھوں نے اردو کے شعرا کے کلام کو روسی زبان میں ترجمہ کیا اور پھر یہ تراجم کتابی شکل میں منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئے، بالکل اسی طرح فیض احمد فیض کی نظمیں غور و فکر کی نہ صرف دعوت دیتی ہیں بلکہ حیرانی کے طلسم کدہ کی بھی سیر کراتی ہیں کہ کس طرح جیل میں رہتے ہوئے انھوں نے تلخ حقائق کو شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے۔

گوئٹے انسٹیٹیوٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ادارے نے ''جب تیری سمندر آنکھوں میں'' کے عنوان سے اس وقت کتاب شایع کی، جب حکومت پاکستان نے 2011 کو فیض احمد فیض کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیض احمد فیض کی تاریخ پیدائش 1911 ہے، تاکہ اس عظیم شاعر کی صد سالہ تقریبات شایان شان طریقے سے منائی جائیں، لہٰذا فیض صاحب کا جشن ولادت پوری دنیا کے اہل ادب نے پروقار طریقے سے منایا۔

گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں فیض صاحب کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کی مہمان خصوصی فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی تھیں۔ اس موقع پر انھوں نے تحفتاً کتابیں تقریبات کے شرکا کو پیش کیں، ایک کتاب میرے نام بھی ان کے دستخط کے ساتھ میرے سامنے موجود ہے اور گزرے برسوں کی یاد دلا رہی ہے۔ ف

یض صاحب کی یادوں کو تازہ ڈاکٹر لدمیلا کی تحریروں نے کیا ہے، بڑی ہی خوشی اور حیرانی کی بات ہے کہ روسی اسکالر ڈاکٹر لدمیلا نے اردو زبان کے حوالے سے بہت کام کیا ہے اور اردو زبان میں ہی 1987 میں خواجہ الطاف حسین پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ان کے علمی و ادبی کاموں پر اگر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ بہت اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر لدمیلا کو اردو زبان اور خصوصاً شعر و سخن سے قلبی عشق ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال پر بھی اردو زبان میں قابل ذکر کام کیا اور غالب کی شاعری کا ترجمہ روسی زبان میں فنی مہارت کے ساتھ کیا ہے۔

فیض احمد فیض کی تحریروں کی وہ مترجم ہیں اور ترجمے کا کام 1967 سے 1984 تک لگن اور عقیدت و خلوص کے ساتھ اس قدر تواتر سے کیا کہ فیض صاحب کی شخصی و معاشرتی زندگی کے حوالے سے ایک کتاب مرتب ہو کر اشاعت کے مرحلے سے گزر گئی۔ بعنوان ''پرورش لوح و قلم، فیض احمد فیض حیات اور تخلیقات'' مذکورہ کتاب 2006 میں شایع ہوئی۔ فیض کی شاعری کے ارتقائی سفر کو جاننے کے لیے انھوں نے تحقیقی مشن کو جاری رکھا۔

فیض احمد فیض جب بھی روس جاتے ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا کو قریب سے دیکھنے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جانچنے کا موقع میسر آجاتا، اسی قدر دانی کے نتیجے میں انھوں نے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب و شاعر پر ایک خوبصورت اور یادگار تحریر لکھ ڈالی۔ چونکہ یہ روسی زبان میں لکھی گئی تھی اسی لیے اس کا ترجمہ اسامہ فاروقی نے کرنا شروع کردیا لیکن چند ابواب ہی مکمل ہوئے تھے کہ اسامہ فاروقی اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے اس کام کو آگے بڑھایا اور ترجمے کا فریضہ انجام دے ڈالا۔

فیض احمد فیض پر لکھی گئی کتاب کچھ زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے، اس کی وجہ لدمیلا نے فیض صاحب کی شخصیت کے تمام گوشوں پر خامہ فرسائی کی ہے۔ قاری کو تشنگی کا احساس بالکل نہیں ہوتا ہے، پڑھنے کے بعد اسے اطمینان ہوجاتا ہے کہ جیسے اس نے فیض احمد فیض کے ساتھ عمر بسر کی ہے اور قدم سے قدم ملاکر چلا ہے اور یہی کامیاب تحریر کی دلیل ہے۔ ان کا اخلاق، نرم مزاجی، وطن پرستی، اپنوں سے چاہت، غرض ہر گوشے سے پردہ اٹھایا ہے، ڈاکٹر صاحبہ نے بے حد علمیت اور بصیرت کا مظاہرہ نفاست اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا ہے اور اپنے ممدوح کی تمام خوبیوں اور ان کے اصناف سخن کے جواہر پاروں کو عیاں کردیا ہے۔

جرمنی میں بسنے والے ڈاکٹر حیدر قریشی اپنے ایک مضمون میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ڈاکٹر لدمیلا کی تحریر چیلنج بن کر سامنے آئی ہے، ان کی علمی و ادبی کام کی اہمیت کا ایک زمانہ معترف ہے، ان کی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر لدمیلا کی دو کتابوں کا تعارف بھی کرایا ہے۔ پہلی کتاب کا تعلق اردو غزل کے ابتدائی دور سے ہے اور یہ 382 صفحات پر مشتمل ہے۔ The Formation of Urdu Ghazal The Origins of the genre

عامر سہیل نے اس کا ترجمہ کیا ہے، اردو غزل کے ابتدائی دور کے تجزیے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس صنف نے ایرانی ادبی نمونوں اور ہندوستان کی ادبی ثقافتی روایات سے اپنا رابطہ قائم رکھا ہے۔ کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، مذکورہ کتاب میں غزلوں کا ایک وسیع انتخاب ترتیب و تراجم اور تشریحات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، دوسری کتاب بھی شاعری اور مشاعروں کے حوالے سے ہے۔ لدمیلا وسیلیوا 23 مئی 1942 کو روس میں پیدا ہوئیں وہ استاد کی حیثیت سے انسٹیٹیوٹ آف دی رشین اکیڈمی آف سائنس (ماسکو) میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

شمیم حنفی نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر لدمیلا اردو زبان کے محاسن اور اسالیب پر گہری نگاہ رکھتی ہیں، انھوں نے حالی اور فیض پر بہت وقیع کام کیا ہے، انھیں ان کی علمی و ادبی کاوشوں اور قابل قدر کاموں پر ہند و پاک اور دوسرے کئی ممالک سے کئی ادبی ایوارڈ ملے۔ صدر پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔

فیض احمد فیض کے حوالے سے جو انھوں نے کتاب لکھی ہے ڈاکٹر لدمیلا نے فیض صاحب کے متعلقین کا ذکر بھی بے حد اچھوتے انداز میں کیا ہے۔ فیض کے والد صاحب جناب سلطان محمد خان اور ان کی منکوحہ ایلس فیض کی نجی زندگی خصوصاً فیض صاحب کے حوالے سے دل نشیں انداز میں جائزہ لیا ہے۔ قارئین کے لیے دلچسپی اور معلومات کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔

ڈاکٹر لدمیلا نے فیض جیسی ہمہ جہت شخصیت کا انتخاب کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بہت سی صلاحیتوں کی مالک اور دانشور ہیں۔ وہ ایک ایسی جوہری ہیں جن کی نگاہ ہیرے کی روشنی سے خیرہ ہوجاتی ہے، بے شک فیض بڑے شاعر تھے ان کی تخلیق کردہ نظمیں آج زبان زد خاص و عام ہیں۔

فیض احمد فیض آٹھ شعری مجموعوں کے خالق تھے۔ آٹھ مجموعوں پر مشتمل کلیات ''نسخہ ہائے وفا'' شایع ہوچکی ہے۔ فیض احمد فیض کا پہلا مجموعہ ''نقش فریادی'' تھا۔ ''ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے'' فیض کی پسندیدہ نظم تھی جو انھوں نے 1953 میں امریکی جوڑے ایتھل اور جولیس روزن برگ کی موت پر لکھی ۔ انھیں امریکا کی سب سے بڑی عدالت نے سائنسی راز افشا ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔ دو شعر اسی نظم سے:

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پر وارے گئے

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں