مذہب اور ریاست
آج مسلم سماج کا سب سے بڑا مسئلہ مذہب اور سیاست کا باہمی تعلق ہے
ISLAMABAD:
آج مسلم سماج کا سب سے بڑا مسئلہ مذہب اور سیاست کا باہمی تعلق ہے'پاکستان کے سماج میں بھی اس مسئلہ کو خصوصیت سے اہمیت حاصل ہے 'بعض پارٹیاں 1973کے آئین کو اسلامی بھی تسلیم کرتی ہیں' اس نظام میں حکومتوں کے مزے بھی لوٹتی ہیں اور ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کا نعرہ بھی لگاتی ہیں' مندرجہ ذیل کالم سماج کے اندر مذہبی پارٹیوں کی دو عملی کا ایک خوبصورت جواب ہے۔
مشرق وسطی اور خاص کر تیونس کی مضبوط اسلامی تحریک''النہضہ'' نے غور و فکر کیا'اپنا احتساب کیا اور برسوں کی ریاضت کے بعد اپنے طرز عمل ہی کو نہیں بلکہ فکر کو بھی تبدیل کیا' اس وقت شاید تیونس' مشرق وسطی کا واحد ملک ہے' جو کسی سیاسی ومعاشی اضطراب کے بغیر ایک نئی راہ پر چل نکلا ہے اور یہ معاشرہ بڑی حد تک اس فساد سے محفوظ ہے' جو پورے خطے میں برپا ہے' حالانکہ 'عرب اسپرنگ' کے انقلابات کی شروعات یہاں سے ہوئی تھیں'اس صورت حال کا کریڈٹ ''اسلامی انقلاب ''کی علمبردار پارٹی النہضہ کو جاتا ہے 'اس تنظیم نے انتہا پسندی کے بجائے بنیادی امور پر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور ملک اور عوام کے جان و مال کو بھی محفوظ بنایا۔
موجودہ دور میں سیاست میں مذہب کے کردار کے مسئلے پر 'تیونس کی اسلامی تحریک 'النہضہ '(Ennahda)کے فکری قائد محتر م راشد غنوشی 'کا ایک مضمون عالمی سطح پر مشہور ''رسالے فارن افیئرز '' کے شمارے (ستمبر اکتوبر 2016)میں شایع ہوا ہے'1970میں برپا ہونے والی یہ تحریک اس فکر کی نمائندہ تھی جس کو ''سیاسی اسلام ''کہا جاتا ہے۔
مئی 2016کے سالانہ اجتماع میں 'اس تحریک نے نئے دور کا آغاز کیا 'اس پارٹی نے سیاسی اسلام سے کنارہ کشی اختیار کی 'اس مضمون میں انھوں نے اس فیصلے کا پس منظر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس تشکیل نو کی نوعیت کیا ہے؟ النہضہ 'تیونس کی جمہوری ابھار کی مضبوط طاقت اور عرب دنیا کی ایک مضبوط اور با اثر سیاسی پارٹی کے اس تاریخی اعلان نے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لیے فکر و عمل کی نئی راہیں کھول دی ہیں' اس پارٹی نے اپنی اسلامی پارٹی کی شناخت ترک کردی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم ڈیموکریٹس کی پارٹی ہے۔
راشد غنوشی کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی جس کی بنیاد میں نے 1980میں رکھی تھی 'اب کوئی'مذہبی اور سماجی تحریک نہیں ہے 'اسش پارٹی نے اپنی تمام ثقافتی اور مذہبی سرگرمیاں ختم کردی ہیں اور اب یہ اپنی تمام توجہ صرف سیاست پر دے گی ۔محترم راشد غنوشی کے اہم مضمون کا ترجمہ پیش ہے 'کسی غلطی کی پیشگی معافی۔وہ لکھتے ہیں کہ !
''النہضہ پارٹی کا ارتقاء 'تیونس کی وسیع سماجی اور سیاسی داخلی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے 'جب سیکولر آمر نے معاشرے میں جبر کی انتہا کردی 'مذہبی و انسانی آزادیوں اور تنظیموں کے قیام پر پابندیاں لگا دیں 'اس آمرانہ حکومت کے خلاف النہضہ پارٹی ایک اسلامی تحریک کی شکل میں ابھری 'کئی دہائیوں تک تیونس کے آمروں نے ملک میںسیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائیں'ان پابندیوں کی وجہ سے سیاسی عزائم رکھنے والی تنظیمیں بھی مجبور تھیں کہ' وہ ثقافتی اور سماجی تنظیموں کے طور پر کام کریں' 2010/11 کے انقلاب نے آمروں کا تختہ الٹا اور کھلی'آزادانہ اور شفاف سیاسی مقابلے کے لیے راہ ہموار کردی۔
تیونس کے نئے آئین کی تدوین میں النہضہ پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ نے سرگرمی سے حصہ لیا اوریہ آئین 2014میں روبہ عمل آیا 'اس آئین میں جمہوریت' سیاسی اور مذہبی آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے' نئے آئین کے تحت تیونس کے عوام کو عبادت اور عقیدے کے اظہار کی آزادی کے ساتھ' ایک عرب مسلمان کی شناخت کی گارنٹی دی گئی ہے۔
لہذا اب النہضہ کو ان مسائل کے لیے جدوجہد کرنے میں وقت ضایع کرنے کی ضرورت نہیں ہے' اب ہماری پارٹی اسلام ازم کی شناخت کی محتاج نہیں ہے' یہ اصطلاح حالیہ برسوں میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں بدنام ہوگئی ہے 'تیونس کی جمہوری تاریخ کے اس نئے دور میں' یہ سوال اہم نہیں ہے کہ مذہبی ریاست کے مقابلے میں سیکولرازم۔ اب جب کہ ریاست سیکولر نظریات کو زبردستی نافذ نہیں کرنا چاہتی 'اس لیے النہضہ یا کسی اور تحریک کو'اپنی سیاست کے بنیادی عنصر کے طور پر مذہب کی حفاظت کا نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے 'ہم زندگی گزارنے کے لیے اسلام کی تعلیمات سے ہدایات لیتے ہیں لیکن ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ' سوسائٹی سیکولر ہو یا مذہبی' جیسی بحث موجودہ حالات میں ضروری نہیں' بلکہ غیر متعلق بھیہے۔آج کے تیونس کے عوام مذہب کے کردار کے بارے میں اتنے فکرمند نہیں ہیں' بلکہ ان کو فکر ہے کہ ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے' جو جمہوری بھی ہو 'عوام کی مرضی سے ہو اور جو عوام کے بہتر زندگی کے احساسات کا ترجمان بھی ہو'النہضہ 'اتحادی حکومت میں ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے 'ملک کے تمام عوام کے مسائل کا حل چاہتی ہے۔
النہضہ کے نظریات میں بتدریج تبدیلی اورارتقاء پچھلے 35سال کے تجربات اور ان کے نتائج کا جائزہ لینے اور پچھلے دوسال کی 'نچلی سطح تک سخت بحث مباحثے کے نتیجے میں ہوئی ہے۔مئی2016 میں ہونے والی النہضہ پارٹی کی کانگریس میں'80فی صد سے زیادہ مندوبین نے اس رسمی تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا'یہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے بلکہ پرانے نظریات کی تائید ہے۔
ہماری اقدار پہلے بھی جمہوری اصولوں پر استوار تھیں اور ہمارا بنیادی عقیدہ بھی تبدیل نہیں ہوا' تبدیلی اصل میں ہمارے عقائد اور اقدار میں نہیں آئی بلکہ جن حالات میں ہم سیاست کر رہے ہیں' ان میں بنیادی تبدیلی آئی ہے 'اب تیونس آمرانہ طرز حکومت کے بجائے ایک جمہوریہ ہے 'اب النہضہ ایک ایسی سماجی تحریک نہیں رہی جو ظلم اور آمریت کے خلاف لڑ رہی ہو'بلکہ اب وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے جو اپنے عملی ایجنڈے 'اقتصادی نظریات اور سماجی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر سکتی ہے۔
اس وقت جب کہ پورا مشرق وسطی 'تشدد اور عدم استحکام کا شکار ہے 'ان حالات میں مذہب اور سیاست کے تعلق کے بارے میں صحیح اقدامات نہ لینے کی وجہ سے بھی ان حالات میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں'النہضہ کی ارتقائی تبدیلی 'ایک ثبوت پیش کرے کہ 'اسلام بھی جمہوری میدان میںمقابلہ کرسکتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اسلامی تحریکیں بھی جمہوری تبدیلی کے ارتقاء اور استحکام میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔
مسجد اور ریاست کی علیحدگی۔
مئی میں دسویں کانگریس کے دوران پارٹی نے اپنے پروگرام میں تبدیلیوں کا اعلان کیا ' پارٹی کی رائے میں سماجی'تعلیمی'ثقافتی اور مذہبی سرگرمیاں اور ان مقاصد کا حصول کسی آزاد' سول سوسائٹی تنظیم کے ہونے چاہییے 'ان مقاصد کے ساتھ سیاسی پارٹی 'یا اس سے ملحقہ کسی بھی تنظیم کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے' اس رائے کے نتیجے میں پارٹی نے ان مقاصد کو ترک کرکے صرف سیاسی سرگرمیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس قانون کی منظوری کا مطلب یہ ہے کہ اب پارٹی کا کوئی کارکن 'مسجد کے اندر سیاسی تقریر نہیں کر سکتا 'اور نہ سول سوسائٹی 'مذہبی یا خیراتی ادارے میں کوئی عہدہ لے سکتا ہے۔ہمارا مقصد سیاسی اور مذہبی میدانوں کو الگ کرنا ہے 'ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذہب کا ترجمان بننے کا دعوے کرے' آزاد اور غیر جانبدار اداروں کا کام ہے کہ وہ مذہب اور مذہبی اداروں کو منظم کرے۔
آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مذہب کو سیاسی اور دنیاوی معاملات میں غیر جانبدار ہونا چاہییے' ہم چاہتے ہیں کہ مسجد لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد کرنے کا مقام ہو۔ امام حضرات کو کسی بھی پارٹی میں عہدہ حاصل نہیں کرنا چاہییے' ان کو مذہبی معاملات میں اتنی ٹریننگ حاصل کرنی چاہیے' تاکہ وہ عوام کے اندر ایک قابل اعتماد مذہبی لیڈر بن جائیں'تیونس میں موجودہ وقت میں صرف سات ایسے امام ہیں جنھوں نے مذکورہ ٹریننگ حاصل کی ہے۔
آج مسلم سماج کا سب سے بڑا مسئلہ مذہب اور سیاست کا باہمی تعلق ہے'پاکستان کے سماج میں بھی اس مسئلہ کو خصوصیت سے اہمیت حاصل ہے 'بعض پارٹیاں 1973کے آئین کو اسلامی بھی تسلیم کرتی ہیں' اس نظام میں حکومتوں کے مزے بھی لوٹتی ہیں اور ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کا نعرہ بھی لگاتی ہیں' مندرجہ ذیل کالم سماج کے اندر مذہبی پارٹیوں کی دو عملی کا ایک خوبصورت جواب ہے۔
مشرق وسطی اور خاص کر تیونس کی مضبوط اسلامی تحریک''النہضہ'' نے غور و فکر کیا'اپنا احتساب کیا اور برسوں کی ریاضت کے بعد اپنے طرز عمل ہی کو نہیں بلکہ فکر کو بھی تبدیل کیا' اس وقت شاید تیونس' مشرق وسطی کا واحد ملک ہے' جو کسی سیاسی ومعاشی اضطراب کے بغیر ایک نئی راہ پر چل نکلا ہے اور یہ معاشرہ بڑی حد تک اس فساد سے محفوظ ہے' جو پورے خطے میں برپا ہے' حالانکہ 'عرب اسپرنگ' کے انقلابات کی شروعات یہاں سے ہوئی تھیں'اس صورت حال کا کریڈٹ ''اسلامی انقلاب ''کی علمبردار پارٹی النہضہ کو جاتا ہے 'اس تنظیم نے انتہا پسندی کے بجائے بنیادی امور پر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور ملک اور عوام کے جان و مال کو بھی محفوظ بنایا۔
موجودہ دور میں سیاست میں مذہب کے کردار کے مسئلے پر 'تیونس کی اسلامی تحریک 'النہضہ '(Ennahda)کے فکری قائد محتر م راشد غنوشی 'کا ایک مضمون عالمی سطح پر مشہور ''رسالے فارن افیئرز '' کے شمارے (ستمبر اکتوبر 2016)میں شایع ہوا ہے'1970میں برپا ہونے والی یہ تحریک اس فکر کی نمائندہ تھی جس کو ''سیاسی اسلام ''کہا جاتا ہے۔
مئی 2016کے سالانہ اجتماع میں 'اس تحریک نے نئے دور کا آغاز کیا 'اس پارٹی نے سیاسی اسلام سے کنارہ کشی اختیار کی 'اس مضمون میں انھوں نے اس فیصلے کا پس منظر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس تشکیل نو کی نوعیت کیا ہے؟ النہضہ 'تیونس کی جمہوری ابھار کی مضبوط طاقت اور عرب دنیا کی ایک مضبوط اور با اثر سیاسی پارٹی کے اس تاریخی اعلان نے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لیے فکر و عمل کی نئی راہیں کھول دی ہیں' اس پارٹی نے اپنی اسلامی پارٹی کی شناخت ترک کردی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم ڈیموکریٹس کی پارٹی ہے۔
راشد غنوشی کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی جس کی بنیاد میں نے 1980میں رکھی تھی 'اب کوئی'مذہبی اور سماجی تحریک نہیں ہے 'اسش پارٹی نے اپنی تمام ثقافتی اور مذہبی سرگرمیاں ختم کردی ہیں اور اب یہ اپنی تمام توجہ صرف سیاست پر دے گی ۔محترم راشد غنوشی کے اہم مضمون کا ترجمہ پیش ہے 'کسی غلطی کی پیشگی معافی۔وہ لکھتے ہیں کہ !
''النہضہ پارٹی کا ارتقاء 'تیونس کی وسیع سماجی اور سیاسی داخلی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے 'جب سیکولر آمر نے معاشرے میں جبر کی انتہا کردی 'مذہبی و انسانی آزادیوں اور تنظیموں کے قیام پر پابندیاں لگا دیں 'اس آمرانہ حکومت کے خلاف النہضہ پارٹی ایک اسلامی تحریک کی شکل میں ابھری 'کئی دہائیوں تک تیونس کے آمروں نے ملک میںسیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائیں'ان پابندیوں کی وجہ سے سیاسی عزائم رکھنے والی تنظیمیں بھی مجبور تھیں کہ' وہ ثقافتی اور سماجی تنظیموں کے طور پر کام کریں' 2010/11 کے انقلاب نے آمروں کا تختہ الٹا اور کھلی'آزادانہ اور شفاف سیاسی مقابلے کے لیے راہ ہموار کردی۔
تیونس کے نئے آئین کی تدوین میں النہضہ پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ نے سرگرمی سے حصہ لیا اوریہ آئین 2014میں روبہ عمل آیا 'اس آئین میں جمہوریت' سیاسی اور مذہبی آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے' نئے آئین کے تحت تیونس کے عوام کو عبادت اور عقیدے کے اظہار کی آزادی کے ساتھ' ایک عرب مسلمان کی شناخت کی گارنٹی دی گئی ہے۔
لہذا اب النہضہ کو ان مسائل کے لیے جدوجہد کرنے میں وقت ضایع کرنے کی ضرورت نہیں ہے' اب ہماری پارٹی اسلام ازم کی شناخت کی محتاج نہیں ہے' یہ اصطلاح حالیہ برسوں میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں بدنام ہوگئی ہے 'تیونس کی جمہوری تاریخ کے اس نئے دور میں' یہ سوال اہم نہیں ہے کہ مذہبی ریاست کے مقابلے میں سیکولرازم۔ اب جب کہ ریاست سیکولر نظریات کو زبردستی نافذ نہیں کرنا چاہتی 'اس لیے النہضہ یا کسی اور تحریک کو'اپنی سیاست کے بنیادی عنصر کے طور پر مذہب کی حفاظت کا نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے 'ہم زندگی گزارنے کے لیے اسلام کی تعلیمات سے ہدایات لیتے ہیں لیکن ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ' سوسائٹی سیکولر ہو یا مذہبی' جیسی بحث موجودہ حالات میں ضروری نہیں' بلکہ غیر متعلق بھیہے۔آج کے تیونس کے عوام مذہب کے کردار کے بارے میں اتنے فکرمند نہیں ہیں' بلکہ ان کو فکر ہے کہ ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے' جو جمہوری بھی ہو 'عوام کی مرضی سے ہو اور جو عوام کے بہتر زندگی کے احساسات کا ترجمان بھی ہو'النہضہ 'اتحادی حکومت میں ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے 'ملک کے تمام عوام کے مسائل کا حل چاہتی ہے۔
النہضہ کے نظریات میں بتدریج تبدیلی اورارتقاء پچھلے 35سال کے تجربات اور ان کے نتائج کا جائزہ لینے اور پچھلے دوسال کی 'نچلی سطح تک سخت بحث مباحثے کے نتیجے میں ہوئی ہے۔مئی2016 میں ہونے والی النہضہ پارٹی کی کانگریس میں'80فی صد سے زیادہ مندوبین نے اس رسمی تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا'یہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے بلکہ پرانے نظریات کی تائید ہے۔
ہماری اقدار پہلے بھی جمہوری اصولوں پر استوار تھیں اور ہمارا بنیادی عقیدہ بھی تبدیل نہیں ہوا' تبدیلی اصل میں ہمارے عقائد اور اقدار میں نہیں آئی بلکہ جن حالات میں ہم سیاست کر رہے ہیں' ان میں بنیادی تبدیلی آئی ہے 'اب تیونس آمرانہ طرز حکومت کے بجائے ایک جمہوریہ ہے 'اب النہضہ ایک ایسی سماجی تحریک نہیں رہی جو ظلم اور آمریت کے خلاف لڑ رہی ہو'بلکہ اب وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے جو اپنے عملی ایجنڈے 'اقتصادی نظریات اور سماجی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر سکتی ہے۔
اس وقت جب کہ پورا مشرق وسطی 'تشدد اور عدم استحکام کا شکار ہے 'ان حالات میں مذہب اور سیاست کے تعلق کے بارے میں صحیح اقدامات نہ لینے کی وجہ سے بھی ان حالات میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں'النہضہ کی ارتقائی تبدیلی 'ایک ثبوت پیش کرے کہ 'اسلام بھی جمہوری میدان میںمقابلہ کرسکتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اسلامی تحریکیں بھی جمہوری تبدیلی کے ارتقاء اور استحکام میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔
مسجد اور ریاست کی علیحدگی۔
مئی میں دسویں کانگریس کے دوران پارٹی نے اپنے پروگرام میں تبدیلیوں کا اعلان کیا ' پارٹی کی رائے میں سماجی'تعلیمی'ثقافتی اور مذہبی سرگرمیاں اور ان مقاصد کا حصول کسی آزاد' سول سوسائٹی تنظیم کے ہونے چاہییے 'ان مقاصد کے ساتھ سیاسی پارٹی 'یا اس سے ملحقہ کسی بھی تنظیم کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے' اس رائے کے نتیجے میں پارٹی نے ان مقاصد کو ترک کرکے صرف سیاسی سرگرمیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس قانون کی منظوری کا مطلب یہ ہے کہ اب پارٹی کا کوئی کارکن 'مسجد کے اندر سیاسی تقریر نہیں کر سکتا 'اور نہ سول سوسائٹی 'مذہبی یا خیراتی ادارے میں کوئی عہدہ لے سکتا ہے۔ہمارا مقصد سیاسی اور مذہبی میدانوں کو الگ کرنا ہے 'ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذہب کا ترجمان بننے کا دعوے کرے' آزاد اور غیر جانبدار اداروں کا کام ہے کہ وہ مذہب اور مذہبی اداروں کو منظم کرے۔
آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مذہب کو سیاسی اور دنیاوی معاملات میں غیر جانبدار ہونا چاہییے' ہم چاہتے ہیں کہ مسجد لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد کرنے کا مقام ہو۔ امام حضرات کو کسی بھی پارٹی میں عہدہ حاصل نہیں کرنا چاہییے' ان کو مذہبی معاملات میں اتنی ٹریننگ حاصل کرنی چاہیے' تاکہ وہ عوام کے اندر ایک قابل اعتماد مذہبی لیڈر بن جائیں'تیونس میں موجودہ وقت میں صرف سات ایسے امام ہیں جنھوں نے مذکورہ ٹریننگ حاصل کی ہے۔