کرپشن اپوزیشن کمیٹی میں شامل ہو پیپلز پارٹی یہ حکومت کا گھریلو معاملہ ہے ن لیگ
اکاؤنٹس کمیٹی اور رجسٹرار سپریم و ہائیکورٹس کو بھی بلایا جائیگا، خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں یومیہ اربوں روپے کی کرپشن کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔
حکومت نے کابینہ کی جانب سے قائم جائزہ کمیٹی میں اپوزیشن کوشرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ سب کو طلب کرکے باز پرس کی جائیگی کہ آخر یہ کرپشن کیسے اور کیوں ہو رہی ہے، اپوزیشن نے حکومت کی دعوت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کا اپنا گھریلو معاملہ ہے ، ایوان کو بیچ میں نہ لایا جائے۔ جمعرات کو(ن)لیگ کے خواجہ آصف نے نکتہ اعتراض پر بتایاکہ 7 ارب کی یومیہ کرپشن کی بات چیئرمین نیب نے کی ہے، نیب حکومتی ادارہ ہے اوراس کے چیئرمین کو حکومت نے خود تعینات کیا ہے، اس میں ایوان کا کوئی عمل دخل نہیں، بہتر ہے حکومت کمیٹیاں بنانے کے بجائے فصیح بخاری سے خود معاملہ طے کرلے۔
اس پر وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے پورے پاکستان کی بات کی ہے، ابھی تک مفروضوں پر بات ہورہی ہے جس سے ملک بدنام ہورہا ہے، کابینہ نے کرپشن کے الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی کمیٹی قائم کی ہے ، پیر سے چیئرمین نیب ، چیئرمین پی اے سی، اینٹی کرپشن افسران اور سپریم کورٹ وہائیکورٹس کے رجسٹرار کو بھی بلایا جائیگا، اگر اپوزیشن ہماری رہنمائی کیلیے کمیٹی میں آنا چاہے تو خیر مقدم کرینگے، ہم سب کو مل کر کرپشن کیخلاف جہاد کرنا ہو گا۔
اس پر خواجہ آصف نے کمیٹی میں شمولیت سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ صرف 3 ماہ رہ گئے ہیں، اس مدت میں کیا ہوگا، 5 سال گزرنے کے بعد حکومت کو کرپشن کی روک تھام کیسے یاد آئی، یوسف رضا گیلانی کی کرپشن کی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں ، حکومت نے خود ہی ان کے پیچھے ایف آئی اے کو لگایا ہوا ہے، سید خورشید شاہ نے کہا کہ 4 دن ہوئے یہ ایشو سامنے آیا ہے، چیئرمین نیب کو طلب کرکے پوچھنا تو چاہیے کہ ثبوت لائیں کہ کرپشن کہاں ہو رہی ہے، ہم آج جو قدم اٹھا رہے ہیں، وہ آئندہ آنیوالوں کے کام آئیگا، آئندہ کس نے آنا ہے، اس کا فیصلہ قوم کرے گی ، پتہ نہیں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کیا ہے، لوگوں نے اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں، حامد کاظمی پر کرپشن کا الزام لگا مگر آج تک ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔
رانا تنویر نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جتنی کرپشن کی بات کی گئی ہے ، اتنا تو ہمارا بجٹ بھی نہیں ہے لیکن کرپشن ہمیشہ بجٹ سے ہٹ کر دیگر معاملات میں ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رکن جمشید دستی نے کہا کہ مشیر پٹرولیم دہری شہریت کے حامل ہیں جو حکومت ختم ہوتے ہی باہر چلے جائیں گے، وہ کرپشن روکنے میں ناکام رہے، جب مشیر خود کرپٹ ہو تو سی این جی کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے کراسکتے ہیں، پارلیمنٹ خود کارروائی کرے، گیس کے سارے منصوبے صرف وزیراعظم کے حلقے میں ہورہے ہیں، اس پر ڈپٹی اسپیکر فیصل کنڈی نے جمشید دستی کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم کو ان کی جماعت نے مشیر پٹرولیم بنایا ہے، کوئی مسئلہ ہے تو پارٹی میں اٹھائیں۔
ن لیگ کے مرتضٰی جاوید عباسی نے بتایا کہ پی ٹی ڈی سی میں 300 افراد کو رشوت لے کر بھرتی کیا گیا ہے، پرانے ملازمین کو 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں، ڈپٹی سپیکر نے معاملہ متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا، اے این پی کی بشریٰ گوہر نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے بیگم خاور کو نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کمیٹی کی چیئرپرسن منتخب کیا ہے، ہمیں دیگر امور میں بھی شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دریں اثناء قومی اسمبلی میں 21 ویں ترمیمی بل پر قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کی رپورٹ پیش کردی گئی، کمیٹی کی چیئرپرسن بیگم نسیم اختر چودھری نے رپورٹ پیش کی ، عمر کوٹ میں اقلیتوں کیخلاف مقدمات کے اندراج کا معاملہ انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے رپورٹ طلب کرلی گئی جبکہ گومل یونیورسٹی میں سرائیکی کا شعبہ قائم نہ کرنے سے متعلق توجہ دلائو نوٹس موخر کر دیا گیا۔
حکومت نے کابینہ کی جانب سے قائم جائزہ کمیٹی میں اپوزیشن کوشرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ سب کو طلب کرکے باز پرس کی جائیگی کہ آخر یہ کرپشن کیسے اور کیوں ہو رہی ہے، اپوزیشن نے حکومت کی دعوت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کا اپنا گھریلو معاملہ ہے ، ایوان کو بیچ میں نہ لایا جائے۔ جمعرات کو(ن)لیگ کے خواجہ آصف نے نکتہ اعتراض پر بتایاکہ 7 ارب کی یومیہ کرپشن کی بات چیئرمین نیب نے کی ہے، نیب حکومتی ادارہ ہے اوراس کے چیئرمین کو حکومت نے خود تعینات کیا ہے، اس میں ایوان کا کوئی عمل دخل نہیں، بہتر ہے حکومت کمیٹیاں بنانے کے بجائے فصیح بخاری سے خود معاملہ طے کرلے۔
اس پر وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے پورے پاکستان کی بات کی ہے، ابھی تک مفروضوں پر بات ہورہی ہے جس سے ملک بدنام ہورہا ہے، کابینہ نے کرپشن کے الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی کمیٹی قائم کی ہے ، پیر سے چیئرمین نیب ، چیئرمین پی اے سی، اینٹی کرپشن افسران اور سپریم کورٹ وہائیکورٹس کے رجسٹرار کو بھی بلایا جائیگا، اگر اپوزیشن ہماری رہنمائی کیلیے کمیٹی میں آنا چاہے تو خیر مقدم کرینگے، ہم سب کو مل کر کرپشن کیخلاف جہاد کرنا ہو گا۔
اس پر خواجہ آصف نے کمیٹی میں شمولیت سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ صرف 3 ماہ رہ گئے ہیں، اس مدت میں کیا ہوگا، 5 سال گزرنے کے بعد حکومت کو کرپشن کی روک تھام کیسے یاد آئی، یوسف رضا گیلانی کی کرپشن کی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں ، حکومت نے خود ہی ان کے پیچھے ایف آئی اے کو لگایا ہوا ہے، سید خورشید شاہ نے کہا کہ 4 دن ہوئے یہ ایشو سامنے آیا ہے، چیئرمین نیب کو طلب کرکے پوچھنا تو چاہیے کہ ثبوت لائیں کہ کرپشن کہاں ہو رہی ہے، ہم آج جو قدم اٹھا رہے ہیں، وہ آئندہ آنیوالوں کے کام آئیگا، آئندہ کس نے آنا ہے، اس کا فیصلہ قوم کرے گی ، پتہ نہیں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کیا ہے، لوگوں نے اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں، حامد کاظمی پر کرپشن کا الزام لگا مگر آج تک ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔
رانا تنویر نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جتنی کرپشن کی بات کی گئی ہے ، اتنا تو ہمارا بجٹ بھی نہیں ہے لیکن کرپشن ہمیشہ بجٹ سے ہٹ کر دیگر معاملات میں ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رکن جمشید دستی نے کہا کہ مشیر پٹرولیم دہری شہریت کے حامل ہیں جو حکومت ختم ہوتے ہی باہر چلے جائیں گے، وہ کرپشن روکنے میں ناکام رہے، جب مشیر خود کرپٹ ہو تو سی این جی کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے کراسکتے ہیں، پارلیمنٹ خود کارروائی کرے، گیس کے سارے منصوبے صرف وزیراعظم کے حلقے میں ہورہے ہیں، اس پر ڈپٹی اسپیکر فیصل کنڈی نے جمشید دستی کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم کو ان کی جماعت نے مشیر پٹرولیم بنایا ہے، کوئی مسئلہ ہے تو پارٹی میں اٹھائیں۔
ن لیگ کے مرتضٰی جاوید عباسی نے بتایا کہ پی ٹی ڈی سی میں 300 افراد کو رشوت لے کر بھرتی کیا گیا ہے، پرانے ملازمین کو 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں، ڈپٹی سپیکر نے معاملہ متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا، اے این پی کی بشریٰ گوہر نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے بیگم خاور کو نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کمیٹی کی چیئرپرسن منتخب کیا ہے، ہمیں دیگر امور میں بھی شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دریں اثناء قومی اسمبلی میں 21 ویں ترمیمی بل پر قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کی رپورٹ پیش کردی گئی، کمیٹی کی چیئرپرسن بیگم نسیم اختر چودھری نے رپورٹ پیش کی ، عمر کوٹ میں اقلیتوں کیخلاف مقدمات کے اندراج کا معاملہ انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے رپورٹ طلب کرلی گئی جبکہ گومل یونیورسٹی میں سرائیکی کا شعبہ قائم نہ کرنے سے متعلق توجہ دلائو نوٹس موخر کر دیا گیا۔