امریکی معاشرے کا ایک باغی فن کار ’باب ڈیلن‘

اسے بار بار نام زدگی کے بعد اب جاکے نوبیل انعام کا حق دار سمجھا گیا


احفاظ الرحمان October 23, 2016
اس نے اپنے گیتوں سے جنگ، ناانصافی اور نسل پرستی کے خلاف شعور بیدار کیا۔ فوٹو: فائل

ADDIS ABABA: (2016کا نوبیل انعام برائے ادب موسیقار اور شاعر باب ڈیلن کو دیا گیا ہے۔ باب ڈیلن کے لفظ اور سُر سرمایہ داری نظام کی سفاکیوں اور امریکی سام راج کی داخلی اور عالمی سیاست کے خلاف سچ کی آواز بن کر ابھرتے اور دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ سینیرصحافی اور ادیب احفاظ الرحمٰن کا یہ تفصیلی مضمون امریکی سام راج اور سرمایہ داری کے اس باغی فن کار کی زندگی، شخصیت، افکار اور پیغام کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ یہ مضمون احفاظ الرحمٰن کی کتاب ''جنگ جاری رہے گی'' سے لیا گیا ہے)

باب ڈیلن کو فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ایک ایسے بلند پایہ فن کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس نے امریکی معاشرے میں طاقت اور دولت کی بازی گری اور منافقانہ سیاست کی سفاکیوں کو بے نقاب کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کے الفاظ ناانصافی کے ایوانوں پر برق کی صورت گرتے ہیں اور ان پر لرزہ طاری کردیتے ہیں۔ اس نے اپنی شاعری اور گلوکاری سے مغرب کے عام لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کے سینوں میں باغیانہ احساسات کی چنگاریاں بھی بھڑکائی ہیں اور ان میں امن، انصاف اور محبت کا جذبہ بھی بیدار کیا ہے۔

باب ڈیلن کا یہ کردار اس قدر اثر انگیز ہے کہ مشہور امریکی جریدے ''ٹائم'' نے اسے بیسویں صدی کی 100 سب سے اثرآفریں اور پُرکشش شخصیات میں شمار کیا ہے۔ اسے متعدد بار ادب کے شعبے میں نوبیل انعام کے لیے نام زد کیا گیا، لیکن اپنے استعمار مخالف کردار کی وجہ سے وہ اس اعزاز سے محروم رہا، اب کہیں جاکے اسے ۔ اس کا نام ''راک اینڈ رول ہال آف فیم'' میں درج ہے۔ وہ ''گریمی لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ'' حاصل کرچکا ہے اور ''پولر میوزک پرائز'' اور ''کینیڈی سینٹر آنرز'' سمیت بے شمار اعلیٰ ترین اعزازات اس کی جیب میں ہیں۔

وہ اپنے گیت خود لکھتا ہے اور اسے گٹار کی بورڈ اور ہارمیونیکا سمیت متعدد سازوں پر عبور حاصل ہے۔ اس کا نام گنتی کے ان چند گلوکاروں کی فہرست میں شامل ہے جن کے المبوں کی 25 کروڑ سے زاید کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ امریکی لوک موسیقی اور راک اینڈ رول موسیقی کے ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ جتنا بڑا گلوکار ہے اتنا ہی بڑا گیت نگار بھی ہے۔



ایک مشہور نقاد کا کہنا ہے کہ ڈیلن کے لکھے ہوئے بول ''ثقافتی زبان'' میں ایک شان دار اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک دردمند دانش ور کی حیثیت سے امریکی سماج کی منتشر اور متضاد تصویروں کے اندر جھانکتا ہے۔ انہیں ٹٹولتا ہے اور ان کے اندر اپنی موسیقی اور شاعری کے تیکھے، باغی رنگ بھردیتا ہے۔ اس کے متعدد گیت جیسے Blowing in the Wind اور Theyare Changing The Times جنگ مخالف اور شہری حقوق کی تحریکوں کے ترانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ڈیلن نے اول اول ''فوک میوزک'' کی دنیا کو فتح کیا، پھر جان لینن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''راک اینڈ رول'' کے میدان میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگا۔ فوک میوزک میں وہ پہلے ہی اپنے تمام ہم عصروں کو بہت پیچھے چھوڑ چکا تھا۔ وہ اس قدر مقبول تھا کہ جب اس نے ''راک اینڈ رول'' کی اقلیم میں قدم رکھا تو اس کے بہت سارے مداح اس سے ناراض ہوگئے لیکن یہ ایک عارضی مرحلہ تھا۔ اس نے جان لینن کی طرح اپنی احتجاجی شاعری اور پُرسوز گلوکاری سے امریکی موسیقی کا پورا منظر تبدیل کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس کے نام کا چرچا ہونے لگا۔

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ جان لینن ایک عہدساز گلوکار تھا اور اس کے گیتوں میں رومان اور بغاوت کی ایک پُراثر آمیزش جھلکتی تھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ باب ڈیلن نے اس سے آگے نکل کر اگلی سیڑھی سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اس قدر دل نشیں انداز میں کہ وہ ان تمام لوگوں کا ہیرو بن گیا جو فن میں تفریح کے ساتھ مقصدیت کے عنصر کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔


اس اعتبار سے باب ڈیلن ایک ایسے خودسر باغی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جو معاشرے کی منافقانہ اقدار سے کھل کر نفرت کا اظہار کرتا ہے اور ناانصافی اور حق تلفی کی قبر پر ایک حسین دنیا تعمیر کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ اس خواب ہی نے ڈیلن کے فن کو سب سے منفرد اور سب سے پُرشکوہ مقام عطا کیا ہے ورنہ امریکا میں مشہور اور باکمال گلوکاروں، موسیقاروں اور شاعروں کی فہرست خاصی طویل ہے۔

یہ سچ ہے کہ ابتدا میں ڈیلن کو کسی قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیوںکہ اس کے پرستار اسے فوک میوزک سے الگ کسی اور حیثیت میں دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ چناںچہ ایک آدھ بار اسے ہوٹنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن جوں ہی اس کے دو لاثانی گیت Desolation Row اور Like a Rolling Stone منظر عام پر آئے، انہوں نے نئی نسل کے شعور کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور پھر دنیا نے محسوس کیا کہ راک اینڈ رول میوزک بھی کسی ناول یا نظم کی طرح روح کی گہرائیوں میں اتر سکتا ہے، پاپ میوزک بھی تخلیقی عمل کی قابل رشک بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ ان دونوں گیتوں میں اس نے ظالمانہ سماجی رویوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔

اس کے بعد ڈیلن نے اپنا سفر بہت تیزی سے طے کیا حتیٰ کہ اس کے پرستار اسے ایک ایسی ہستی سے تعبیر کرنے لگے جو نہ صرف دیدہ بل کہ نادیدہ قوتوں سے بھی بہ راہ راست مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے جو کچھ گایا جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا وہ ان کی نظر میں قابل تحسین اور قابل تقلید قرار پایا۔ در اصل وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہا، اور کوشش کرتا رہا کہ اس کی موسیقی، الفاظ کی نشست و برخاست اور ادائیگی میں کسی خامی کی ہلکی سی بھی جھلک نظر نہ آئے۔



1991 میں ''گریمی ایوارڈ فار لائف ٹائم اچیومنٹ'' وصول کرنے کے بعد اس نے مائیک پر آکر حاضرین سے کہا،''میرے والد نے میرے لیے کوئی ورثہ نہیں چھوڑا تھا۔ وہ ایک سادہ آدمی تھے، لیکن انہوں نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے یہ قیمتی الفاظ کہے تھے دیکھو ہوسکتا ہے کوئی آدمی اس قدر بدقماش ہوجائے کہ اس کے والدین بھی اس سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں، لیکن ایسی صورت میں بھی خدا کا یہ یقین متزلزل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔''

باب ڈیلن جس کا اصل نام رابرٹ ایلن زیمرمین ہے، 24 مئی 1941 کو امریکی ریاست منی سوٹا کے ایک قصبے Duluth میں پیدا ہوا۔ اس کے دادا، دادی جو یہودی تھے لتھوانیا اور یوکرین سے آکر امریکا میں آباد ہوئے۔ اس کے والد ابراہام زیمرمین اور والدہ بیٹرس اسٹون مقامی یہودی برادری کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ باب ڈیلن سات سال کی عمر تک Duluth میں رہا، حتیٰ کہ اس کے والد کو پولیو کے مرض نے آگھیرا، اس کے بعد وہ بیٹرس کے آبائی قصبے Hibbing میں منتقل ہوگئے۔

بچپن کے باقی ایام ڈیلن نے وہیں گزارے۔ اسے ریڈیو پر موسیقی سننے کا جنون تھا۔ ہائی اسکول کے زمانے میں اس نے کئی میوزیکل بینڈ تشکیل دیے اور ٹیلنٹ شوز میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ ستمبر 1959 میں اس نے یونی ورسٹی آف منی سوٹا میں داخلہ لے لیا اور منی پولس شہر میں رہنے لگا۔ بہت جلد وہ فوک میوزک کے مختلف گروپوں سے منسلک ہوگیا اور گانے کے ساتھ مختلف ساز بجانے کی مشق کرنے لگا۔

اسی دور میں اس نے خود کو باب ڈیلن کے نام سے متعارف کرانا شروع کیا۔ اس نے اپنی خود نوشت Chronicles میں لکھا ہے... ''گھر سے رخصت ہوتے وقت میں نے سوچا تھا کہ اب خود کو رابرٹ ایلن کہا کروں گا۔ یہ نام مجھے اس لیے پسند آیا کہ اس میں اسکاٹ لینڈ کے کسی بادشاہ کے نام سے مشابہت جھلکتی تھی...۔''بہرحال، بعد میں ایک ادیب ڈیلن تھامس کی تحریروں سے متاثر ہونے کے بعد اس نے اپنا نام رابرٹ ڈیلن یا باب ڈیلن رکھ لیا۔



پہلے سال کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے کالج کو الوداع کہا، اور کچھ عرصے تک فوک میوزک کے مختلف چھوٹے چھوٹے گروپوں کے ساتھ ارد گرد کی ریاستوں کا دورہ کرتا رہا۔ 1961 میں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے نیویارک پہنچا، اور واپسی پر نیوجرسی کے ایک اسپتال میں وہ فوک میوزک میں اپنی آئیڈیل شخصیت، Woody Guthrie سے ملنے گیا۔ یہیں اس کی ملاقات مشہور موسیقار Jack Elliot سے ہوئی، جو اس کی طرح Woody کی عیادت کرنے کے لیے اسپتال آیا تھا۔ ان دونوں فن کاروں نے ڈیلن کی ذہنی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا، اگرچہ ڈیلن نے کبھی رسمی طور پر ان سے تربیت حاصل نہیں کی۔

نیویارک میں ڈیلن کی پرفامینس سے متاثر ہوکر موسیقی کے ایک نقاد، رابرٹ شیلٹن نے ''نیویارک ٹائمز'' میں ایک تعریفی نوٹ لکھا، جس کے نتیجے میں میوزک بزنس کی نامی گرامی شخصیت، جان ہیمنڈ نے اسے بلاکر ''کولمبیا ریکارڈز'' کے لیے ایک معاہدہ کرلیا۔ کولمبیا ریکارڈز کے لیے بننے والی اس کی پہلی البم، جس میں چند مشہور لوک گیتوں کے ساتھ اس کے لکھے ہوئے چند گیت بھی شامل تھے، بہت مقبول ہوئی۔ اگست 1962 میں اس نے نیویارک کی سپریم کورٹ میں جاکر سرکاری طور پر اپنا نام تبدیل کرالیا۔

جب 1963 میں اس کی دوسری البم ریلیز ہوئی تو گلوکارہ اور گیت نگار دونوں حیثیت سے اس کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی۔ اس البم کے کئی گیتوں پر تعارفی نوٹ میں احتجاجی گیت (Protest Songs) کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ اس البم میں ایک گیت Oxford Town جیمس میری ڈتھ کی ابتلاء کے بارے میں تھا، جو یونیورسٹی آف مسی سیپی میں داخلہ لینے والا پہلا سیاہ فام طالب علم تھا۔

اس زمانے میں مشہور ہونے والے اس کے سب سے پُراثر گیت Blowing in The Wind کی دُھن جزوی طور پر غلاموں کے روایتی گیت ''اب ہمیں اپنی نیلامی قبول نہیں'' کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ ڈیلن اپنے گیتوں میں مسلسل تندوتیز لہجے میں سیاسی اور سماجی بدقماشیوں کو اپنا موضوع بناتا رہا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی بعض گلوکار یہ تجربہ کرچکے تھے، لیکن ڈیلن کے گیتوں میں اس لہر کا تسلسل ہمیشہ برقرار رہا، اس کے علاوہ اس کا تیکھا اسلوب بھی سب سے جدا اور منفرد تھا۔ پھر ان گیتوں میں طنزومزاح کی ایک انوکھی چاشنی بھی جھلکتی ہے۔



باب ڈیلن صرف اپنے گیتوں کے ذریعے ناانصافی اور نسل پرستی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا، بل کہ وہ شہری حقوق کے لیے ہونے والے تمام مظاہروں اور جلوسوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ وہ واشنگٹن میں ہونے والے اس جلوس میں بھی شریک تھا، جس میں مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی تقریر میں یہ مشہور فقرہ ادا کیا تھا... ''میں بھی ایک خواب رکھتا ہوں۔''

ڈیلن کی اگلی البم میں بھی اس کا باغیانہ احتجاجی لہجہ نمایاں رہا۔ اس البم کا ایک گیت شہری حقوق کے سرگرم کارکن، میڈگرایورز کے قتل کے بارے میں تھا، اور دوسرے گیت میں اس نے کاشت کاروں اور کان کنوں کی زبوں حالی کو موضوع سخن بنایا تھا۔ اس قسم کے موضوعاتی گیت عام گیتوں کے مقابلے میں خاصے طویل ہوتے تھے، اس کے باوجود ان کی دل کشی برقرار رہتی تھی۔ 1971 میں اس نے جارج ہیریسن کے ساتھ ''کنسرٹ فار بنگلادیش'' میں بھی حصہ لیا، جس میں اس کے گیتوں نے ایک سماں باندھ دیا۔

اگرچہ جان لینن کی طرح باب ڈیلن بہ راہ راست کسی سوشلسٹ گروپ سے منسلک نہیں ہوا، اس کے باوجود امریکی سیاست، سرمایہ داری، جنگی جنون اور نسل پرستانہ رویوں کے خلاف اس کی آواز زیادہ بلند محسوس ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ واضح اور نوکیلے الفاظ سے لیس ہوکر دشمن کے عین قلب پر حملہ کرتا ہے۔

باب ڈیلن کی عمر اس وقت 65 سال سے زاید ہے، لیکن وہ اب بھی اپنے شعبے میں سرگرم ہے۔ 29 اگست 2006 کو ریلیز ہونے والی اس کی البم Modern Times فروخت کے اعتبار سے امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، آئرلینڈ، نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ کے ''بل بورڈ چارٹ'' میں سرفہرست رہی۔ 65 سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا وہ پہلا موسیقار ہے۔



1965 میں باب ڈیلن نے سارا لاؤنڈز نامی خاتون سے شادی کی، جس سے چار بچے ہوئے۔ سارا لاؤنڈز کی پہلے شوہر سے ہونے والی بیٹی، ماریا لاؤنڈز کو بھی اس نے اپنی بیٹی بنالیا۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا، جیکب ڈیلن بھی ایک کام یاب گلوکار ہے۔ ایک بیٹا جیسی ڈیلن ایک اچھا فلم ڈائریکٹر اور کام یاب تاجر ہے۔ 1977 میں ان کے درمیان طلاق ہوگئی، جس کے بعد 1986 میں باب ڈیلن نے اپنے آرکیسٹرا کی ساتھی گلوکارہ، کیرولین ڈینس سے شادی کرلی۔ ان کی ایک بیٹی ہے۔ تاہم 1992 میں ان کے درمیان طلاق ہوگئی۔

باب ڈیلن اب سیکڑوں گیت گا چکا ہے اور اس کی 44 البمیں ریلیز ہوچکی ہیں۔ بلاشبہہ، راک این رول میوزک کی دنیا میں ایلوس پریسلے، جان لینن اور مائیکل جیکسن کی طرح وہ ایک داستانی ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے، اگرچہ اس کی شناخت سب سے جدا ہے، کیوں کہ اس کے بعض اوصاف اسے ایک منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ ان سے کہیں بڑا گیت نگار ہے، جس کی بنا پر اسے متعدد بار ادب کے شعبے میں نوبیل انعام کے لیے نام زد کیا گیا۔

مشہور رسالے ''ٹائم'' نے اسے بیسویں صدی کی سو سب سے اثرآفریں شخصیات کی فہرست میں شامل کیا، جس میں لوسائیل بیل، بیٹلز، مارلن برانڈو، چارلی چپلن، ٹی ایس ایلیٹ، جیمس جوائس، پابلوپکاسو، فرینک سناترا، لوئی آرمسٹرانگ، مارتھا گراہم، اسٹیون اسپیل برگ اور اوپرا ون فرے جیسے مشاہیر شامل ہیں۔ 2004 میں ریلیز ہونے والا اس کا گیت Like a Rolling Stone ہم عصر دنیا کے پانچ سو عظیم ترین گیتوں میں سر فہرست قرار پایا۔

دسمبر 1997 میں امریکا کے صدر بل کلنٹن نے ڈیلن کو ''کینیڈی سینٹر آنر'' دیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا،''میری نسل کے لوگوں پر کسی بھی دوسرے تخلیقی فن کار کے مقابلے میں باب ڈیلن کے اثرات سب سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں۔ باب ڈیلن نے کبھی عاجزانہ اور خوش کن لہجہ نہیں اپنایا۔ اس نے خاموشی کو توڑا ہے، اور طاقت وروں کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔''

2000 میں ڈیلن کے گیتThings have Changed کو، جو اس نے فلم Wonder Boys کے لیے لکھا، بہترین گیت کا اکیڈمی ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ ملا۔ وہ کم و بیش سو تقاریب میں پرفارم کرتا رہا ہے۔ امریکا کی تمام ریاستوں اور یورپ کے تمام ممالک میں اس کے دوروں کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ اس کی شخصیت اور فن پر درجنوں کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں۔

انٹرنیٹ پر سیکڑوں Sitesپر اس کے بارے میں روزانہ تازہ ترین خبریں جاری کی جاتی ہیں، اور اس کے ہر نئے گیت کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس کا کیریر چالیس سال پر محیط ہے، لیکن اس کا جذبہ اب بھی جوان ہے۔ اکتوبر 2004 میں طویل انتظار کے بعد اس کی خود نوشت Chronicles کی پہلی جلد منظر عام پر آئی تو اس کے مداحوں اور پرستاروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، اور اسے بیسٹ سیلر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔



٭ہمارا خانہ خالی ہے

باب ڈیلن اگرچہ امریکی گلوکاروں کی صف میں نمایاں امتیازی وصف رکھتا ہے، لیکن وہاں (اور یورپ میں بھی) ایسے فن کاروں کی کمی نہیں ہے، جو اپنے فن کے ذریعے فلم اور ناانصافی کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کرتے ہیں۔ انھوں نے ہر دور میں امریکی انتظامیہ کی دست درازیوں کو بے نقاب کیا ہے، جو پوری دنیا کی سیاست، معیشت اور ثقافت کو اپنی مٹھی میں جکڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا کی فوجی جارحیت کے خلاف وہاں کے شہروں میں بے مثال مظاہرے ہوئے، اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے وابستہ لوگوں نے اپنے اپنے محاذ سے بار بار وائٹ ہاؤس کو مطعون کیا۔

اس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو احتجاج کا کلچر (خاص طور پر فنون لطیفہ کی حدود میں) معدوم نظر آتا ہے۔ شاید اس کا ایک کلیدی سبب یہ مفروضہ ہے کہ فنونِ لطیفہ ہنگامی مسائل (زندگی؟) پر نظر ڈالنے کے پابند نہیں ہیں۔ اعلیٰ فنون لطیفہ تو اپنا تخلیقی اظہار مدت مدید کے بعد کرتے ہیں، تاکہ ان میں بھرپور جمالیاتی رنگ اجاگر ہوسکے۔ فوری اظہار تخلیقی عمل میں بگاڑ پیدا کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

سو، ہمارا یہ خانہ خالی چلا آرہا ہے۔ چند جزوی مثالیں ضرور نظر آتی ہیں، ورنہ ہر طرف ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں یہ دعویٰ مبالغے کی حد تک دہرایا جاتا ہے کہ فنون لطیفہ زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں۔ زندگی کا رخ متعین کرنے کے لیے بدصورتی کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کی لوٹ مار کے خلاف، نوکر شاہی اور فوجی آمریت کی غاصبانہ یلغار کے خلاف، قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی بدعنوانیوں کے خلاف، مکروہ طبقاتی نظام کے خلاف، فرقہ ورانہ نفرتوں کے خلاف، بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی کے خلاف، شہریوں کی پراسرار گم شدگیوں کے خلاف، افغانستان اور عراق، گوانتانامو، پل چرخی اور ابو غریب میں وائٹ ہاؤس کی درندگی کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہمارے فن کاروں نے کس قدر حصہ ادا کیا ہے۔

اگر باب ڈیلن اور اس قبیل کے دوسرے فن کاروں کی مثال سامنے ہوتی تو ہمارے ملک کی گلیاں بھی ان تمام لُٹیروں کے خلاف تند و تیز نغمات سے گونج رہی ہوتیں۔ یہاں تو ایسے فن کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، جو پژمردگی، خودرحمی، اطاعت پسندی اور غیرفعالیت پھیلاتا ہے۔ ہمارا فن کار محتسب کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔

افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کو زندگی سے محروم کردیا جائے، ملک کے اندر بدعنوانیوں میں ڈوبے رہیں، جاگیردار، سرمایہ دار اور سرکاری افسر عوام کا خون پیتے رہیں، عوام گھٹ گھٹ کر زندگی بسر کرتے رہیں، ہمارے فن کاروں میں بغاوت اور احتجاج کا رنگ اُبلنے کا نام نہیں لیتا کہ وہ ابھی تخلیقی عمل کی ''اعلیٰ و ارفع کٹھنائیاں'' طے کرنے میں مشغول ہیں۔ اور اگر معدودے چند لوگ اپنے فن کے ذریعے سماجی بیداری کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں، تو ان کے وسائل محدود ہیں، اور ان کا پیغام وسیع پیمانے پر نہیں پھیل رہا ہے۔

ایسا کیوں ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے، اور جو لوگ ''فنون عالیہ'' کے تقدس کا پرچار مبالغے کی حد تک کرتے ہیں، انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ جان لینن اور باب ڈیلن جیسے گلوکار اور شاعر، جو راست الفاظ میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتے رہے، اعلیٰ تعین اعزازات سے نوازے گئے اور دنیا انھیں دل کھول کر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔



باب ڈیلن نے کہا...

٭ہیرو وہ ہوتا ہے، جو اپنی آزادی کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کا بھی احساس رکھتا ہے۔

٭غلطیاں غلط فہمیوں کی بناء پر سرزد ہوتی ہیں۔

٭دنیا کی تمام صداقتیں ایک بڑے جھوٹ کی تشکیل کرتی ہیں۔

٭مساوات اور برابری کی تمام باتیں ڈھکوسلا ہیں۔ لوگوں کے درمیان مشترک عنصر صرف یہ ہے کہ ان سب کو موت سے ہم کنار ہونا ہے۔

٭دنیا میں جمہوریت نہیں ہے۔ یہ بات اپنے ذہن میں بٹھالو۔ اس دنیا پر تشدد کا راج ہے... لیکن بہتر یہی ہے کہ اس بارے میں کچھ اور نہ کہا جائے۔

٭میں سب سے پہلے ایک شاعر اور پھر موسیقار ہوں۔ میں ایک شاعر کی طرح زندہ رہوں گا، اور شاعر ہی کی حیثیت سے مروں گا۔

٭میں امریکا کو پسند کرتا ہوں، جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ میں امریکا سے محبت کرتا ہوں، لیکن امریکا کے بارے میں حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

٭میں آپ کو اپنے خوابوں کے اندر آنے کی اجازت دوں گا، بہ شرطے کہ آپ مجھے اپنے خوابوں کے اندر آنے دیں۔

٭ پیسہ بولتا نہیں ہے، بل کہ مغلظات بکتا ہے۔

٭لوگ شاذ و نادر ہی وہ کرتے ہیں، جس پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں، اور پھر پچھتاتے ہیں۔

٭اپنی یادوں کو سنبھال کر رکھیے، کیوںکہ آپ ایام رفتہ میں دوبارہ نہیں جاسکتے۔

٭کوئی بھی چیز اتنی مستحکم اور پائے دار نہیں، جتنی کہ تبدیلی کا عمل۔

٭میں وثوق سے کچھ نہیں جانتا، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ جنت کی سڑکیں سونے کی ہوں گی۔ میں سوچتا ہوں، اگر روسی ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے تو کیا ہوگا... اوہ، ایک روح فرسا خیال!

جنگ باز...

آؤ جنگ بازو!
تم ہی ہو، جنھوں نے ساری بندوقیں ڈھالیں
تم ہی ہو، جنھوں نے ہلاکت خیز طیارے بنائے
تم ہی ہو، جنھوں نے بڑے بڑے بم بنائے
تم ہی ہو، جو دیواروں کے پیچھے
جا چھپتے ہو
تم ہی ہو، جو ڈیسکوں کے نیچے
جا چھپتے ہو
میں تمھیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں
میں نقابوں کے پیچھے تمھارے
اصل چہرے دیکھ سکتا ہوں

تم نے تباہ کن چیزیں بنانے کے سوا
کبھی کچھ نہیں کیا
تم میری دنیا سے کھیلتے رہتے ہو
جیسے یہ تمھارے ہاتھ کا کوئی کھلونا ہو
تم میرے ہاتھ میں بندوق تھما دیتے ہو
اور میری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہو
اور گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے
تو تم دور تک بھاگتے چلے جاتے ہو

پرانے زمانے کے 'یہود'' کی طرح
تم کاذب اور دھوکے باز ہو
تم چاہتے ہو، میں مان لوں کہ
عالمی جنگ جیتی جاسکتی ہے
لیکن میں تمھاری آنکھوں کے اندر
اُتر سکتا ہوں
اور میں تمھارے دماغوں کے اندر
اُتر سکتا ہوں
جیسے میں اس پانی کو دیکھ سکتا ہوں
جو میری ڈرینج لائن میں بہتا ہا

تم ٹرائیگر فِکس کرتے ہو
کہ لوگ اس سے فائر کریں
پھر تم آرام سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہو
جب موت کا بازار گرم ہوتا ہے
تو تم اپنی حویلیوں میں جا چھپتے ہو
اور نوجوانوں کا لہو کیچڑ میں
دفن ہوجاتا ہے

تم نے بدترین خوف مسلط کر رکھا ہے
کہ لوگ بچے پیدا کرنے سے ڈرتے ہیں
تم میرے اس بچے کو دھمکی دیتے ہو
جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا، اور جس کا
نام تک نہیں رکھا گیا
تم اس خون کے لیے باعثِ ننگ ہو
جو تمھاری شریانوں میں دوڑ رہا ہے

میں کیا جانتا ہوں، جو
اس قدر بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہا ہوں؟
تم کہہ سکتے ہو کہ میں نوجوان ہوں
تم کہہ سکتے ہو کہ میں جاہل ہوں
لیکن میں ایک بات ضرور جانتا ہوں
اگرچہ میں عمر میں تم سے چھوٹا ہوں
یسوع مسیحؑ بھی تمھیں کبھی
معاف نہیں کریں گے

مجھے ایک سوال کرنے دو
کیا تمھاری دولت تمھارے لیے
معافی خرید سکتی ہے؟
کیا تم سمجھتے ہو کہ خرید سکتی ہے؟
میں سمجھتا ہوں، جب موت تمھارا
گلا دبوچنے کے لیے آئے گی
تو تمھیں معلوم ہوگا کہ تم نے جتنی بھی
دولت حاصل کی ہے، وہ تمھاری
روح واپس خریدنے کے لیے کافی نہیں ہوگی

میری آرزو ہے کہ تم مر جاؤ
اور تمھاری موت بہت جلد آئے گی
اُس پیلی سہہ پہر کو
میں تمھارے تابوت کے پیچھے چلوں گا
اور وہ منظر دیکھوں گا جب تمھیں
تمھاری قبر میں اتارا جا رہا ہوگا
اور میں اس وقت تک تمھاری قبر
پر کھڑا رہوں گا، جب تک مجھے
یقین نہیں ہوجائے گا کہ تم ہمیشہ
کی نیند سو چکے ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں