ایسا نہ ہوتا تو بہتر ہوتا
میرے والد صاحب قبلہ، خدا اُن کی مغفرت فرمائے، بانوے سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے
KARACHI:
میرے والد صاحب قبلہ، خدا اُن کی مغفرت فرمائے، بانوے سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ وہ صابر وشاکر اور قناعت پسند آدمی تھے لیکن سرکاری ملازمت کے دوران ہمیشہ سخت محنت سے کام کیا۔ پیسہ کمانے کی مگر اُنہیں ہوس نہیں تھی۔ مَیں ابھی نہایت کمسن تھا، شاید پہلی یا دوسری جماعت میں، کہ میری والدہ محترمہ کواللہ میاں نے اپنے پاس بلا لیا۔ اُس وقت اباجی جوان تھے مگر اُنہوں نے ہمیں دوسری ماں کے سوتیلے پَن سے محفوظ رکھنے کے لیے دوسرا نکاح نہ کیا۔ بقیہ ساری عمر صبر ہی میں گزار دی۔
وہ محکمہ مال میں سینئر اہلکار تھے لیکن اُنہوں نے مال نہ کمایا۔ سیکڑوں پٹواری اور گرداور اُن کے ماتحت تھے۔ ان میں کئی لوگ مال کما کما کر بہت دولتمند ہو چکے تھے۔ والد صاحب کو یہ سب معلوم تھا لیکن وہ اپنا ''حصہ'' وصولنے پر کبھی مائل نہ ہو سکے۔ اگر وہ بھی آگے بڑھ کر اپنا ''حصہ'' وصولنے کے لیے ''صراحی'' تھام لیتے تو آج ہم کالم نگاری کی مشقت نہ کر رہے ہوتے۔ وہ مگر اپنی اولاد کی معاشی فراخ دستی کے لیے اپنی عاقبت برباد کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ سب پٹواری، اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) اور ڈپٹی کمشنر بھی اُن کے اس کردار سے بخوبی واقف تھے۔
وہ خاصہ عرصہ ایک ہی دفتر میں ملازم رہے۔ کئی پٹواری یہ چاہتے تھے کہ اب اُن کا وہاں سے تبادلہ ہو جانا چاہیے کہ اُن کی موجودگی میں لینے دینے کا کام حسبِ منشا آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایسی کئی کوششیں لیکن ناکامی ہی پر منتج ہوئیں۔ ایک پٹواری مگر بڑا طاقتور تھا اور وہ چاہتا تھا کہ میرے والد صاحب کو سیٹ سے ہٹا دیا جائے تو اُس کے کئی کام آسان ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنے دل میں دبی اس خواہش کا اظہار کُھلے بندوں نہیں کرتا تھا لیکن اباجی یہ سب جانتے تھے۔ اس پٹواری کے ڈپٹی کمشنر صاحب سے بھی بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ڈی سی صاحب کی خوشیاں پوری کرنے میں کبھی غفلت اور سستی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔ وہ شہر کے اندر ہی رہتا تھا اور جب کبھی ڈی سی صاحب رات گئے دورے پر شہر آدھمکتے تو یہی پٹواری اُن کی ٹہل سیوا کرنے کا فریضہ انجام دیتا۔
اس پٹواری کی رشوت ستانیوں کی داستانیں جب حد سے تجاوز کرنے لگیں تو اس کا کہیں دور تبادلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اباجی دفتر کے اوقات ختم ہونے کے بعد بھی شام گئے اپنے دفترمیں بیٹھے کام کرتے رہتے تھے۔ ہم گھر والے ان کی اس عادت سے سخت نالاں تھے لیکن اُن کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ اگلے دن پر کام نہیں ڈال سکتا۔ وہ اکثر اوقات نمازِ مغرب کے بعد ہی دفتر سے نکلتے تھے۔ ایک روز وہ حسبِ معمول شام کے وقت اپنے دفتر بیٹھے تھے کہ اے سی صاحب نے اُنہیں اپنے گھر بلایا۔ چپڑاسی بابا لبّا بھاگتا ہوا آیا اور اسسٹنٹ کمشنر صاحب کا پیغام دے گیا۔
اے سی کی رہائش گاہ تحصیل ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے متصل تھی۔ ابا جی نے جناح کیپ سر پر جمائی اور ادھر روانہ ہو گئے۔ قدیم طرز کی عمارت کے گول کمرے میں اے سی صاحب اُنہی کے منتظر تھے۔ اے سی صاحب کبھی فوج میں کمیشنڈ افسر بھی رہ چکے تھے اور اُنہیں بلند آواز میں باتیں کرنے کی عادت تھی۔ اباجی بَید کی کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ اے سی نے بلند لہجے میں کہا کہ اس پٹواری کا کل ہی کہیں دور تبادلہ کر دیا جائے۔ بس بہت ہو چکا۔ ''حکم کی تعمیل ہو گی۔'' والد صاحب نے جواب دیا لیکن ساتھ ہی ہولے سے یہ بھی گوش گزار کر دیا کہ پٹواری مذکور کے اعلیٰ افسران سے بھی گہرے یارانے ہیں۔
اے سی صاحب نے مگر بیزار اور اکتائے ہوئے لہجے میں میرے والد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''چوہدری صاحب، یہاں کون سُن رہا ہے؟ آپ خاموشی سے کل اس کا تبادلہ کر دیں۔'' والد صاحب سلام کر کے اپنے دفتر آ گئے، متعلقہ پٹواری کے تبادلے کے بارے میں ضروری تیاری کی اور یہ سوچ کر کہ صبح دفتر آتے ہی اے سی صاحب سے دستخط کروا کر پٹواری کو مطلع کر دوں گا، دفتر بند کیا اور گھر روانہ ہو گئے۔
والد صاحب دوسرے روز عین وقت پر، حسبِ معمول، دفتر پہنچ گئے۔ ابھی وہ منصوبے کے مطابق ضروری کاغذات مرتب ہی کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ انھوں نے چونگا اٹھایا تو دوسری طرف ضلعی ہیڈ کوارٹر سے ڈپٹی کمشنر صاحب بول رہے تھے۔ اُن کی تحکم آمیز آواز فون پر گونج رہی تھی: ''...پٹواری صاحب کا تبادلہ نہیں کرنا۔'' والد صاحب تو سناٹے میں آ گئے۔ ''حکم کی تعمیل ہو گی جناب'' کہہ کر وہ سر کھجاتے ہوئے کرسی میں دھنس گئے۔ سوچنے لگے کہ یہ اہم خبر ڈی سی صاحب تک کیسے پہنچ گئی؟ کیا اے سی صاحب نے خود لِیک کی ہے؟ بوجھل دل سے وہ اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ صبح ہی صبح اُنہیں گھر میں دیکھ کر صاحب ٹھٹھک گیا۔ ملازم چائے لے کر آیا تو اے سی صاحب نے پوچھا: چوہدری صاحب خیریت؟ ابا جی نے ڈی سی صاحب کے فون کا ذکر کیا اور بیقراری سے پوچھا: ''سر، گزشتہ شام اِسی کمرے میں صرف آپ تھے اور یہ خادم تھا۔
میَں تو بڑی سے بڑی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مَیں نے پٹواری کے تبادلے کی خبر ڈی سی صاحب کو نہیں بتائی۔ پھر ہماری کانفیڈنشل گفتگو ڈپٹی کمشنر کو کیسے لِیک ہو گئی؟'' اے سی بھی بیچارہ پریشان دکھائی دے رہا تھا اور کہہ رہاتھا: مَیں بھی قسمیہ کہتا ہوں کہ یہ خبر صاحب تک میری وجہ سے نہیں پہنچی۔ پھر گھر کی یہ خبر کیسے ضلعی افسر تک پہنچی؟ اے سی صاحب اپنا سر مسلسل کھجائے جا رہے تھے۔ اچانک انھوں نے ہوا میں چُٹکی بجائی اور انتہائی بلند اور غصیلی آواز میں جُورے کو بلایا۔ جُورا اُن کا معتمد ملازم تھا اور وہی گھر میں آنے والے ہر مہمان کو چائے وغیرہ پیش کرتا تھا۔ گزشتہ شام جب اباجی اور اے سی صاحب پٹواری کے تبادلے کی باتیں کر رہے تھے، اس وقت بھی جُورا ہی ایک دو بار چائے وغیرہ لے کر گول کمرے میں آیا تھا۔
جُورا اندر آیا تو اے سی نے ٹکٹکی باندھے اُسے سر سے پاؤں تک سرد نظروں سے دیکھا اور پھر گول کمرے میں ایک عجیب لہجے میں آواز گونجی: پٹواری کو خبر تم نے پہنچائی؟ جُورا کانپتے ہوئے دھڑام سے صاحب کے قدموں میں گر گیا اور اعترافِ جرم کر لیا۔ نہ صرف یہ مانا کہ مَیں نے ہی متعلقہ پٹواری کو تبادلے کی خبر پہنچائی ہے بلکہ اُس روز یہ بھی اُگل دیا کہ اے سی صاحب کی کئی سرکاری خبریں وہ طاقتور پٹواری کو فراہم کرتا ہے اور اس کے بدلے مال وصول کرتا ہے۔ پٹواری ''صاحب'' آگے یہ خبریں اپنے بڑے صاحب کو پہنچاتے تھے اور بدلے میں بہت کچھ پاتے تھے۔ خبر لِیک کرنے والا بہر حال چھپ نہ سکا اور اپنے کیفرِ کردار کو پہنچا۔
ابا جی بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، اے سی بھی، ڈی سی بھی، پٹواری بھی اور خبر لِیک کرنے والا جُورا بھی جو گھر کا بھیدی تھا، جس پر سب اعتبار اور اعتماد کرتے تھے۔ لیکن یہ بُھولی بسری کہانی اس لیے یاد آرہی ہے کہ آجکل وطنِ عزیز میں کسی اعلیٰ سطحی خبر کے لِیک ہونے کا ہر طرف چرچا ہو رہا ہے۔ طاقتوروں کے ایوانوں میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور غیر ملکی ابلاغی اداروں میں بھی۔ ایک عام پاکستانی کو شائد اس سے کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن سیاست اور صحافت کی دنیا میں اس نے ایک غلغلہ سا مچا رکھا ہے۔
کئی قلموں اور زبانوں نے اس میں اپنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کئی رنگ بھی بھرے ہیں۔ اعتماد اور اعتبار کے آبگینوں کو ٹھیس تو بہرحال پہنچی ہے۔ ایسا اگر نہ ہوتا تو بہتر تھا کہ اس کے ہونے سے غیروں نے ہمارا ٹھٹھہ اڑایا ہے اور اُنہیں طنز وتعرض کا سنہری موقع بھی ملا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس واقعہ کو گلے کی پھانس بنا لیا جائے یا اسے درگزر وفراموشی کے خانے میں ڈال کر قدم آگے بڑھا لیے جائیں؟
میرے والد صاحب قبلہ، خدا اُن کی مغفرت فرمائے، بانوے سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ وہ صابر وشاکر اور قناعت پسند آدمی تھے لیکن سرکاری ملازمت کے دوران ہمیشہ سخت محنت سے کام کیا۔ پیسہ کمانے کی مگر اُنہیں ہوس نہیں تھی۔ مَیں ابھی نہایت کمسن تھا، شاید پہلی یا دوسری جماعت میں، کہ میری والدہ محترمہ کواللہ میاں نے اپنے پاس بلا لیا۔ اُس وقت اباجی جوان تھے مگر اُنہوں نے ہمیں دوسری ماں کے سوتیلے پَن سے محفوظ رکھنے کے لیے دوسرا نکاح نہ کیا۔ بقیہ ساری عمر صبر ہی میں گزار دی۔
وہ محکمہ مال میں سینئر اہلکار تھے لیکن اُنہوں نے مال نہ کمایا۔ سیکڑوں پٹواری اور گرداور اُن کے ماتحت تھے۔ ان میں کئی لوگ مال کما کما کر بہت دولتمند ہو چکے تھے۔ والد صاحب کو یہ سب معلوم تھا لیکن وہ اپنا ''حصہ'' وصولنے پر کبھی مائل نہ ہو سکے۔ اگر وہ بھی آگے بڑھ کر اپنا ''حصہ'' وصولنے کے لیے ''صراحی'' تھام لیتے تو آج ہم کالم نگاری کی مشقت نہ کر رہے ہوتے۔ وہ مگر اپنی اولاد کی معاشی فراخ دستی کے لیے اپنی عاقبت برباد کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ سب پٹواری، اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) اور ڈپٹی کمشنر بھی اُن کے اس کردار سے بخوبی واقف تھے۔
وہ خاصہ عرصہ ایک ہی دفتر میں ملازم رہے۔ کئی پٹواری یہ چاہتے تھے کہ اب اُن کا وہاں سے تبادلہ ہو جانا چاہیے کہ اُن کی موجودگی میں لینے دینے کا کام حسبِ منشا آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایسی کئی کوششیں لیکن ناکامی ہی پر منتج ہوئیں۔ ایک پٹواری مگر بڑا طاقتور تھا اور وہ چاہتا تھا کہ میرے والد صاحب کو سیٹ سے ہٹا دیا جائے تو اُس کے کئی کام آسان ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنے دل میں دبی اس خواہش کا اظہار کُھلے بندوں نہیں کرتا تھا لیکن اباجی یہ سب جانتے تھے۔ اس پٹواری کے ڈپٹی کمشنر صاحب سے بھی بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ڈی سی صاحب کی خوشیاں پوری کرنے میں کبھی غفلت اور سستی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔ وہ شہر کے اندر ہی رہتا تھا اور جب کبھی ڈی سی صاحب رات گئے دورے پر شہر آدھمکتے تو یہی پٹواری اُن کی ٹہل سیوا کرنے کا فریضہ انجام دیتا۔
اس پٹواری کی رشوت ستانیوں کی داستانیں جب حد سے تجاوز کرنے لگیں تو اس کا کہیں دور تبادلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اباجی دفتر کے اوقات ختم ہونے کے بعد بھی شام گئے اپنے دفترمیں بیٹھے کام کرتے رہتے تھے۔ ہم گھر والے ان کی اس عادت سے سخت نالاں تھے لیکن اُن کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ اگلے دن پر کام نہیں ڈال سکتا۔ وہ اکثر اوقات نمازِ مغرب کے بعد ہی دفتر سے نکلتے تھے۔ ایک روز وہ حسبِ معمول شام کے وقت اپنے دفتر بیٹھے تھے کہ اے سی صاحب نے اُنہیں اپنے گھر بلایا۔ چپڑاسی بابا لبّا بھاگتا ہوا آیا اور اسسٹنٹ کمشنر صاحب کا پیغام دے گیا۔
اے سی کی رہائش گاہ تحصیل ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے متصل تھی۔ ابا جی نے جناح کیپ سر پر جمائی اور ادھر روانہ ہو گئے۔ قدیم طرز کی عمارت کے گول کمرے میں اے سی صاحب اُنہی کے منتظر تھے۔ اے سی صاحب کبھی فوج میں کمیشنڈ افسر بھی رہ چکے تھے اور اُنہیں بلند آواز میں باتیں کرنے کی عادت تھی۔ اباجی بَید کی کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ اے سی نے بلند لہجے میں کہا کہ اس پٹواری کا کل ہی کہیں دور تبادلہ کر دیا جائے۔ بس بہت ہو چکا۔ ''حکم کی تعمیل ہو گی۔'' والد صاحب نے جواب دیا لیکن ساتھ ہی ہولے سے یہ بھی گوش گزار کر دیا کہ پٹواری مذکور کے اعلیٰ افسران سے بھی گہرے یارانے ہیں۔
اے سی صاحب نے مگر بیزار اور اکتائے ہوئے لہجے میں میرے والد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''چوہدری صاحب، یہاں کون سُن رہا ہے؟ آپ خاموشی سے کل اس کا تبادلہ کر دیں۔'' والد صاحب سلام کر کے اپنے دفتر آ گئے، متعلقہ پٹواری کے تبادلے کے بارے میں ضروری تیاری کی اور یہ سوچ کر کہ صبح دفتر آتے ہی اے سی صاحب سے دستخط کروا کر پٹواری کو مطلع کر دوں گا، دفتر بند کیا اور گھر روانہ ہو گئے۔
والد صاحب دوسرے روز عین وقت پر، حسبِ معمول، دفتر پہنچ گئے۔ ابھی وہ منصوبے کے مطابق ضروری کاغذات مرتب ہی کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ انھوں نے چونگا اٹھایا تو دوسری طرف ضلعی ہیڈ کوارٹر سے ڈپٹی کمشنر صاحب بول رہے تھے۔ اُن کی تحکم آمیز آواز فون پر گونج رہی تھی: ''...پٹواری صاحب کا تبادلہ نہیں کرنا۔'' والد صاحب تو سناٹے میں آ گئے۔ ''حکم کی تعمیل ہو گی جناب'' کہہ کر وہ سر کھجاتے ہوئے کرسی میں دھنس گئے۔ سوچنے لگے کہ یہ اہم خبر ڈی سی صاحب تک کیسے پہنچ گئی؟ کیا اے سی صاحب نے خود لِیک کی ہے؟ بوجھل دل سے وہ اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ صبح ہی صبح اُنہیں گھر میں دیکھ کر صاحب ٹھٹھک گیا۔ ملازم چائے لے کر آیا تو اے سی صاحب نے پوچھا: چوہدری صاحب خیریت؟ ابا جی نے ڈی سی صاحب کے فون کا ذکر کیا اور بیقراری سے پوچھا: ''سر، گزشتہ شام اِسی کمرے میں صرف آپ تھے اور یہ خادم تھا۔
میَں تو بڑی سے بڑی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مَیں نے پٹواری کے تبادلے کی خبر ڈی سی صاحب کو نہیں بتائی۔ پھر ہماری کانفیڈنشل گفتگو ڈپٹی کمشنر کو کیسے لِیک ہو گئی؟'' اے سی بھی بیچارہ پریشان دکھائی دے رہا تھا اور کہہ رہاتھا: مَیں بھی قسمیہ کہتا ہوں کہ یہ خبر صاحب تک میری وجہ سے نہیں پہنچی۔ پھر گھر کی یہ خبر کیسے ضلعی افسر تک پہنچی؟ اے سی صاحب اپنا سر مسلسل کھجائے جا رہے تھے۔ اچانک انھوں نے ہوا میں چُٹکی بجائی اور انتہائی بلند اور غصیلی آواز میں جُورے کو بلایا۔ جُورا اُن کا معتمد ملازم تھا اور وہی گھر میں آنے والے ہر مہمان کو چائے وغیرہ پیش کرتا تھا۔ گزشتہ شام جب اباجی اور اے سی صاحب پٹواری کے تبادلے کی باتیں کر رہے تھے، اس وقت بھی جُورا ہی ایک دو بار چائے وغیرہ لے کر گول کمرے میں آیا تھا۔
جُورا اندر آیا تو اے سی نے ٹکٹکی باندھے اُسے سر سے پاؤں تک سرد نظروں سے دیکھا اور پھر گول کمرے میں ایک عجیب لہجے میں آواز گونجی: پٹواری کو خبر تم نے پہنچائی؟ جُورا کانپتے ہوئے دھڑام سے صاحب کے قدموں میں گر گیا اور اعترافِ جرم کر لیا۔ نہ صرف یہ مانا کہ مَیں نے ہی متعلقہ پٹواری کو تبادلے کی خبر پہنچائی ہے بلکہ اُس روز یہ بھی اُگل دیا کہ اے سی صاحب کی کئی سرکاری خبریں وہ طاقتور پٹواری کو فراہم کرتا ہے اور اس کے بدلے مال وصول کرتا ہے۔ پٹواری ''صاحب'' آگے یہ خبریں اپنے بڑے صاحب کو پہنچاتے تھے اور بدلے میں بہت کچھ پاتے تھے۔ خبر لِیک کرنے والا بہر حال چھپ نہ سکا اور اپنے کیفرِ کردار کو پہنچا۔
ابا جی بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، اے سی بھی، ڈی سی بھی، پٹواری بھی اور خبر لِیک کرنے والا جُورا بھی جو گھر کا بھیدی تھا، جس پر سب اعتبار اور اعتماد کرتے تھے۔ لیکن یہ بُھولی بسری کہانی اس لیے یاد آرہی ہے کہ آجکل وطنِ عزیز میں کسی اعلیٰ سطحی خبر کے لِیک ہونے کا ہر طرف چرچا ہو رہا ہے۔ طاقتوروں کے ایوانوں میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور غیر ملکی ابلاغی اداروں میں بھی۔ ایک عام پاکستانی کو شائد اس سے کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن سیاست اور صحافت کی دنیا میں اس نے ایک غلغلہ سا مچا رکھا ہے۔
کئی قلموں اور زبانوں نے اس میں اپنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کئی رنگ بھی بھرے ہیں۔ اعتماد اور اعتبار کے آبگینوں کو ٹھیس تو بہرحال پہنچی ہے۔ ایسا اگر نہ ہوتا تو بہتر تھا کہ اس کے ہونے سے غیروں نے ہمارا ٹھٹھہ اڑایا ہے اور اُنہیں طنز وتعرض کا سنہری موقع بھی ملا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس واقعہ کو گلے کی پھانس بنا لیا جائے یا اسے درگزر وفراموشی کے خانے میں ڈال کر قدم آگے بڑھا لیے جائیں؟