اے رب بس آپ کی طرف دیکھتے ہیں

ایسا کئی بار ہوچکا ہے، اتائی ڈاکٹرز کے خلاف ایکشن خبریں لگتی ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

ISLAMABAD:
ایسا کئی بار ہوچکا ہے، اتائی ڈاکٹرز کے خلاف ایکشن خبریں لگتی ہیں، بنتی ہیں اور پھر مدھم ہوجاتی ہیں، جب کہ موضوع خبر پھر سے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کچھ عرصے اس جگہ سے غائب ہوجاتے ہیں، کلینک بدل لیتے ہیں، سائن بورڈز اتار دیتے ہیں، ہورڈنگز پر رنگ پھر جاتے ہیں، پھر وہی خاموش قاتل سرگرم ہوجاتے ہیں۔ ہم اور آپ اسی قسم کے قتل سنتے رہتے ہیں اور کچھ نہ کرتے ہوئے اس قتل کے جرم میں چپ چاپ شامل ہوتے جاتے ہیں۔ لاعلمی اور کم علمی کا زہر بہت خطرناک ہوتا ہے، جو معاشرے میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔

ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر خیر سے ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں، لیکن اپنے کلینک پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ ایلوپیتھک ہیں لیکن وہ انجکشن نہیں لگاتے، ان کے چھوٹے بھائی بھی ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ڈاکٹر ہیں، ان کے مطب پر بھی انجکشن نہیں لگایا جاتا، ان کے سب سے چھوٹے بھائی بھی ماشا اللہ ڈاکٹر ہیں، سرکاری میڈیکل کالج میں بھی پڑھاتے ہیں اور پریکٹس بھی کرتے ہیں، وہ بھی انجکشن نہیں لگاتے۔ دراصل ان تینوں ڈاکٹرز کی والدہ محترمہ بذات خود انجکشن سے ڈرتی تھیں، شاید یہ ان کے بچپن کا خوف تھا یا والدہ مرحومہ کا حکم، لیکن ان حضرات کے یہاں اپنے مریضوں کو انجکشن نہ لگانے کا رواج ہے۔ خیر سے تینوں ہی شہر کے اچھے ڈاکٹرز میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی پریکٹس کے باعث مشہور بھی ہیں۔

اس تفصیل سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ انجکشن لگانا کوئی انتہائی خطرناک بات ہے بلکہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے کہ جس میں دوا کو براہ راست انسان کے جسم میں باریک سوئی چبھو کر داخل کیا جاتا ہے جو فوری طور پر انسان کے خون میں شامل ہوکر اپنا اثر دکھاتی ہے۔ یہ انسان کی صحت کے لیے کارگر بھی ہے اور کئی بار اس کا ردعمل بھی ہوجاتا ہے۔

یعنی انسانی جسم اس دوا کو قبول نہیں کرتا جو براہ راست اس کے خون میں شامل کردی جاتی ہے، اس سے فوری طور پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس میں قے، موشن، بے انتہا پیشاب کا آنا، اور دل کا دورہ، تشنج وغیرہ۔ ماہر ڈاکٹر حضرات اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے فوری طور پر حفاظتی تدابیر کرتے ہیں۔ لیکن ذرا تصور کریں کہ ایک اتائی ڈاکٹر اس صورتحال میں کیا کرسکتا ہے۔ آیا اسے اس بات کا بھی یقین ہے کہ جو انجکشن وہ مریض کو دے رہا ہے کیا وہ اس کے جسم کو سوٹ کرے گا، کہیں وہ اسے نہایت طاقت والا، یا بہت کم استعمال کیا جانے والا انجکشن تو نہیں دے رہا اور اس کا مریض کے جسم پر کیا اثر ہوگا اور خطرناک حالت کی صورت میں وہ کیا کرسکتا ہے۔

ہماری ایک جاننے والی صاحبہ جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں، ان کا جواں سال بیٹا جب کمانے کے قابل ہوا اور جاب پر جانے لگا تو ماں کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ یہ دو تین برس پہلے کی ہی بات ہے۔ لڑکے کو تیز بخار ہوگیا، آفس جانے کا جوش بھی سوار تھا لہٰذا خود ہی ڈاکٹر کے کلینک پہنچ گئے اور ڈاکٹر سے کہا کہ وہ جلد بخار اتارنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر نے انھیں انجکشن لگادیا۔ وہ گھر آئے ان کا دل بہت گھبرا رہا تھا، ٹھنڈے پسینے آرہے تھے، واش روم گئے تو قدموں سے اٹھا نہ جائے، بخار میں کمی آئی تھی، لڑکا اوپر چھت پر بنے اپنے کمرے میں جاکر سوگیا اور صبح دیر تک نہ اٹھا تو گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ دروازہ توڑ کر دیکھا تو لڑکا ٹھنڈا پڑا تھا۔ یہ درست ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے لیکن اپنے وجود کے ساتھ اتنی بے دردی اور سختی برتنا بھی اللہ تعالیٰ کی بخشی نعمتوں کی ناشکری کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔


حالانکہ وہ ڈاکٹر ڈگری یافتہ ماہر تھا لیکن ایک سو تین بخار کو اتارنے کے لیے جو انجکشن استعمال کیا گیا وہ اس کے لیے بھاری تھا۔ لڑکا صحت میں کمزور اور بخار کے باعث نقاہت کا شکار تھا، خالی پیٹ بھی تھا، اپنی بدلتی حالت پر نہ تو اس نے اور نہ ہی گھر والوں نے غور کیا اور بڑے آرام سے گھر پر بیٹھے رہے۔ اس تکلیف دہ واقعے کا ذکر جب ہم نے اپنے پرانے فیملی ڈاکٹر سے کیا جو 1962 سے پریکٹس کر رہے تھے، تو ان سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر ایسی کیفیات ہوں تو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔

کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل گھبرانا یا ٹھنڈے پسینے آنا تیز بخار کے اترنے کی کیفیات بھی ہوتی ہیں، لیکن قدموں کا بھاری ہونا یا اسی قسم کی علامات کا طویل ہونا تشویش ناک ہے، کیونکہ اس طرح دل پر بھی پریشر پڑ سکتا ہے اور گردوں کے فیل ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ ان سینئر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ عام طور پر اچھے ڈاکٹرز ایسے انجکشن ہی استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کی اپنی زندگی میں کسی مریض کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

ابھی چند مہینے ہی قبل اس نوجوان کی شادی ہوئی تھی، پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی، گھر بھر کی آنکھ کا تارا ہی تو تھا۔ دلہن کے لیے جو خواب گھر والوں نے دیکھے تھے وہ چور ہوگئے۔ بہرحال زندگی کی ڈور تو رب العزت کے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے کے لیے انسان کیا کچھ کرسکتا ہے اور کیا کچھ کرنا چاہیے۔ اس کے بیچ ایک خلا ہے، جسے چاہے تو پار کرکے رب کی رضا کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم انسان، ذہین، کم ظرف لوگ ہیں جس جس کو جو پوزیشن حاصل ہے اس پر اکڑ کر جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں کرنے کے لیے بازی لگا دیتے ہیں۔

اس حقیقت کی کہانی کو سمیٹتے ہی کتنا درد محسوس ہو رہا ہے تو جن کے ساتھ یہ سب کچھ گزرا ہے ان پر کیا بیتی ہوگی۔ نوجوان بیمار ہوگیا جسم میں درد اور بخار۔ اس کیفیت سے جلد نجات پانے اور کام پر جانے کی دھن سوار تھی ۔ اس کا دوست اسے علاقے کے ایک کلینک پر لے گیا ڈاکٹر نے تیز بخار اور درد سے نجات کے لیے انجکشن لگا دیا۔ گھر آئے تو کیفیت میں فرق نہ تھا، پوری رات درد میں گزری صبح علاقے کے بڑے نجی اسپتال لے جایا گیا، انھوں نے اسے دیکھ کر لینے سے انکار کردیا۔ نوجوان کے جسم کا آدھا حصہ یعنی جس ہاتھ پر انجکشن لگا تھا جیلی کی طرح نرم ہو رہا تھا، گھر والے گھبرا رہے تھے وہ اسے لیے شہر کے بڑے نجی اسپتال لے کر گئے۔

ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کے جسم میں پیپ پڑ گئی ہے۔ آپریشن کرکے نکالنا ہوگا۔ گھر والوں نے مانگ تانگ کرکے بڑی رقم ادا کرکے آپریشن کرایا تو ڈاکٹر نے ٹانکے نہ لگائے کہ پیپ نکلتے رہنا ضروری ہے، ڈاکٹرز نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ان کا بچنا مشکل ہے، نوجوان کے جسم کے آدھے حصے میں پیپ سرائیت کرچکی تھی، خدا جانے یہ کیسا عمل تھا، بہرحال وہ معصوم دو دن تک زندگی اور موت سے لڑتے لڑتے تھک گیا۔ اگر دکھ کی کہانی کا اینڈ ادھر ہی ہوتا تو شاید اچھا ہوتا۔

ڈاکٹر اتائی ہے، جعلی ہے، اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ میڈیا کو بلاؤ، اخبار کو پکڑو۔ بہنیں جذباتی ہوکر کلینک پہنچی تو روتے ہوئے سوال کیا۔ ارے تم ڈاکٹر ہو یا قصائی۔ میں نے کب کہا کہ میں ڈاکٹر ہوں، کیا آپ کو کہیں لکھا نظر آرہا ہے؟ یہ اقرار نہیں ایک بم ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ صاحب ایک ایسا بم جو عرش پر جاکر پھٹا ہوگا۔ رات علاقے کی پولیس کے اعلیٰ عہدیدار مظلوم کے گھر پہنچ کر فرماتے ہیں، کچھ لے دے کر معاملہ ختم کرائیے۔ مظلوم کہتا ہے۔ بہنیں جذباتی ہوکر کلینک پہنچ گئی تھیں۔ میں بوڑھا غریب آدمی ہوں، میری بیوی تو خود کالے یرقان کی مریضہ ہے۔ مرنے کو پڑی ہے۔ میں کیا کرسکتا ہوں جناب! بس اب اس کے آگے لکھنے کی سکت نہیں سرکار!
Load Next Story