شادی سمجھوتا نہیں نئی زندگی خیالی دنیا سے یکسر مختلف ہوتی ہے

ہمارے ملک میں مناسب رشتے ملنے کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔


Nasreen Akhter October 24, 2016
یہ وہ تعلق ہے، جس میں ایک دوسرے سے راز داری رکھنے سے ایسی تلخیاں جنم لیتی ہیں، جو تعلقات کی جڑیں ہلادیتی ہیں۔ فوٹو: فائل

شادی وہ اہم فریضہ ہے، جو مذہب، قانون اور معاشرتی معیار کی روشنی میں مرد و عورت کو رشتہ ازدواج کے ذریعے ایک دوسرے کا شریک حیات بنا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں مناسب رشتے ملنے کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے میں امیر، غریب والدین سب ہی پریشان ہیں۔ ایسے لڑکیوں کی تعداد بہت بڑھگئی ہے، جو شادی کی عمر سے گزر چکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بے روزگاری، جہیز، معاشی نا ہم واریاں اور گھریلو حالات، بڑھتے ہوئے فرسودہ رسم و رواج اور دیگر وجوہات ہیں۔ اس ضمن میں خوب سے خوب تر کی تلاش بھی شادیوں کے مسائل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ہمارے معاشرے میں شریک حیات کا انتخاب زیادہ تر والدین ہی کرتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے والدین اپنے بچوں کی شادیاں زیادہ تر اپنے ہی رشتے داروں یا برادری میں کرتے تھے۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ فریقین کو ایک دوسرے کا پس منظر اور اچھا برا سب پہلے سے ہی پتا ہوتا تھا۔ یوں خاندانی تعلقات میں بہتری آتی تھی اور شادیاں کام یاب رہتیں، لیکن پھر تعلیم اور آمدنی میں نمایاں فرق کی بنیاد پر والدین آپس میں رشتے کرنے کے بہ جائے اپنے برابر کے لوگوں میں رشتے کرنے کو ترجیح دینے لگے۔ دکھاوے کا عنصر بڑھ گیا۔زندگی کے ہر معاملے میں نمود و نمائش غالب آگئی۔

جس میں خود لڑکے اور لڑکوں کے والدین لڑکی کی شرافت ، اخلاق، سلیقہ مندی اور حسن سیرت کے بہ جائے گوری رنگت، دراز قد، چھریرا بدن، نازک اندام اور خوب صورت لڑکیوں کے رشتے پسند کرتے ہیں، ساتھ ہی روپیا پیسہ بھی ایک بہت اہم خوبی شمار ہوتی ہے، جب کہ یہ خوبی ہر لڑکی میں نہیں ہوتی اور یوں معاشرے کی بے شمار لڑکیاں، لڑکوں کے والدین کے سامنے نمائش کے بعد رد کر دی جاتی ہیں۔ رد کرنے والوں میں کبھی والدین ہوتے ہیں اور کبھی خود لڑکا شامل ہوتا ہے۔ دوسری طرف اکثر اوقات لڑکیوں کے والدین بھی لڑکے کو مسترد کر دیتے ہیں۔ عموماً لڑکیوں کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں بڑے گھرانوں میں بیاہی جائیں اور ان کے لیے ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین، اعلیٰ افسران کا رشتہ مل جائے، جب کہ ان کی بیٹیاں زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہوتیں۔

دونوں طرف ہی اپنا اپنا معیار ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکا خود لڑکی کا انتخاب کر لیتا ہے، تو والدین کا فرمان جاری ہوتا ہے ''یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ تمہاری شادی ہماری مرضی سے ہوگی۔ ہم تمہارے بارے میں تم سے بہتر سوچتے ہیں۔'' ایسے میں اولاد اپنی پسند پر بضد ہوتی ہے، جب کہ والدین یہ حق اپنے پاس رکھنے کے متمنّی ہوتے ہیں۔ یہاں سے شادی جیسے نازک اور حساس مسئلے پر اختلافات کا ایک باب کھل جاتا ہے، جو ہنستے بستے گھروں میں تلخی گھول دیتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شادی کس کی پسند سے کی جائے؟ شادی اولاد کی پسند اور رضا مندی سے کی جائے یا والدین اولاد کی شادی اپنی مرضی سے کریں؟ اسلام نے لڑکے اور لڑکی کو جہاں اپنی رضا مندی کے ساتھ شادی کی اجازت دی ہے، وہیں یہ حق استعمال کرنے کے لیے معاشرتی، قانونی اور تہذیبی اور اخلاقی حدود بھی متعین کی ہیں اور ان کا بہتر استعمال وہ صرف والدین کے تعاون سے ہی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی اولاد کو خود موقع دیں کہ وہ آئندہ زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی اور والدین کی راہ نمائی سے کریں۔ رشتہ تو والدین ہی طے کریں گے، مگر اس سے پہلے اولاد کی پسند بھی ضرور معلوم کریں اور شادی سے پہلے ایک نظر دونوں کو ایک دوسرے کو دیکھ لینا چاہیے۔

شوہر اور بیوی کا رشتہ نہایت نازک اور حساس نوعیت کا ہوتا ہے۔ ایسا رشتہ جس کا تقدس ہر مذہب، ہر آئین اور ہر ملت نے قبول کیا۔ لڑکے یا لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا جیون ساتھی سچی محبت اور ہم دردی رکھتا ہو، جو زندگی کے ہر اچھے اور کٹھن لمحات میں ساتھ دے۔ جو ہر اچھے برے میں میرا مددگار ہو، مایوسیوں کی تاریکیوں میں سہارا دے سکے، جب کہ عملی زندگی تخیلاتی زندگی سے یک سر مختلف ہوتی ہے۔

ازدواجی زندگی کی ابتدا بڑے خوب صورت لمحات سے ہوتی ہے، لیکن جوں ہی زندگی خوابوں اور تصورات کی دنیا سے نکل کر ٹھوس راہوں پر گام زَن ہو جاتی ہے۔ من پسند ساتھی کا مل جانا اور نہ ملنا بھی ہمارے معاشرے میں ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی اپنے ساتھی میں جو خوبیاں، دیکھنا چاہتے ہیں، وہ تمام ایک ہی شخصیت میں ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک خوب صورت اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار اور بے ہنر ہے، تو ایسی صورت میں والدین اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے نوجوان کو ہرگز نہیں دیتے۔ اسی طرح ایک لڑکے کا آئیڈیل ایسی لڑکی ہوتی ہے، جس کی رنگت صاف، دراز قامت، تعلیم اعلیٰ اور عمر کم ہو۔ آئیڈیل نہ ملنا اپنے یا اپنے ساتھی کے لیے مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔

شادی کے بعد جب شوہر اور بیوی ایک نئی عملی زندگی کی ابتدا کرتے ہیں، تو ان کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی محدود ہوگئی ہے۔ اس کی وسعتیں صرف میاں بیوی کی زندگی تک محدود ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ ایک دوسرے کے احساسات اور ضروریات کو محسوس کرنے اور سمجھنے کی پابند ہو جاتی ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب اس نئے جوڑے کو اس راہ کا تعین کرنا پڑتا ہے، جو ان کی ازدواجی زندگی کو خوش گوار منزل کی طرف گام زَن رکھے۔ چوں کہ نئی زندگی صرف حسین تصورات کی نہیں حقائق اور بہت سے مسائل لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اگر وہ اس رویے کو اختیار کرتے ہیں، تو مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔ میاں بیوی دانستہ بہت سی باتوں اور مسائل کو اپنے تک محدود رکھ سکتے ہیں یا بہت ہمت کر کے ایک دوسرے کو تمام حقائق سے آگاہ بھی رکھ سکتے ہیں تاکہ دونوں شریک زندگی مل کر کوئی مناسب حل تلاش کرسکیں۔

یہ وہ تعلق ہے، جس میں ایک دوسرے سے راز داری رکھنے سے ایسی تلخیاں جنم لیتی ہیں، جو تعلقات کی جڑیں ہلادیتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ زندگی کے ہرمسئلے پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لیے رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں