وہ دن کہا ں گئے

حالات نے ہنسی چھین لی.

رکشا اور ٹیکسی ڈرائیور اپنی گاڑیوں پر مزاحیہ اور ہلکے پھلکے شعرکیوں نہیں لکھتے؟

غالب نے کہا تھا :

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے کہ خوش رہا کرو، ہنسو، مسکرائو، یہ چار دن کی زندگی ہے، پتہ بھی نہیں چلے گا، گزر جائے گی وغیر ہ وغیر ہ ۔ پر میں اُسے کیسے سمجھائوں کہ یہ میرے بس میں نہیں، نہ جانے وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ میں بھی دوسروں کی طرح ہنسنا اور مسکرانا چاہتا ہوں۔ میری بھی خواہش ہے کہ میرے بھی دوست ہوں اور میں بھی اُن کے ساتھ گھوما پھرا کروں لیکن میں اُسے کیسے سمجھائوں کہ اب میرے وہ حالات نہیں رہے۔ میں خود پر جبر کرکے ہنسنا چاہوں گا تو لوگ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ شاید میں اُسے ٹھیک سے سمجھا نہیں پا رہا یا پھر وہ جان بوجھ کر مجھے تنگ کر رہا ہے۔ لیکن اب جب وہ ملا تو مجھے یقین ہے کہ اُسے اپنا دکھڑا ٹھیک سے سمجھا پائوں گا، کیوں کہ آج ایک رکشے نے میری مشکل حل کر دی ہے۔ صبح جب گھر سے دفتر کے لیے نکلا تو اچانک ایک رکشے پر نظر پڑی، جس کے پیچھے علامہ اقبال کا یہ شعر دکھائی دیا:

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہو ں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

ویسے یہ رکشے والے بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں، پوری پریم کہانی ہی کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ شاید ایسا اس لیے بھی ہے کہ وہ حالات کو دوسروں سے کئی گنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اورکیوں نہ سمجھیں کہ جس طرح بعض دانش ور، صحافی یا ڈراما نگار گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر حالات کی منظر کشی کر تے ہیں یا ارب پتی سیاست داں اسٹیج پر آکر غریب کا رونا روتے ہیں، اُن کے برعکس یہ وہ لوگ ہیں جن پر حالات براہ راست اثر اندازہو تے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک کیا ہو تی ہے، غربت کسے کہتے ہیں، پیڑول، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ بچوں کی فیسیں اورگھر کا کرایہ ادا کرنا، ماں کی دوائی خریدنا کتنا بھاری بوجھ ہے، یہ ساری چیزیں ہمیں وہی بہتر بتا سکتے ہیں جو اس نرک سے گزر رہے ہوں۔ اور پھر جس طرح ایک صحافی اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھ کر اُس کا نچوڑ اخبارات یا ٹیلی ویژن پردیتا ہے، اسی طرح یہ مزدور طبقہ بھی دل کا غبار اپنے رکشے، ٹیکسیوں اور منی بسوں پر الفاظ کی صورت میں اُتارتا ہے۔



مثال کے طور پر، ایک دور تھا جب لو گ خوش حال ہوا کر تے تھے تو دوسروں کی بدحالی اُن پر گراں گزرتی تھی۔ راہ چلتے کسی کو تکلیف میں دیکھا تو اُس کی مدد کر دی۔ گھر کے قریب کوئی یتیم، مسکین یا محتاج نظر آیا تو اُسے کھا نا کھلا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب لوگوں کے دل دوسروں کے لیے دھڑکتے تھے۔ دوسرے کے غم یا خوشی کو اپنا غم اور خوشی سمجھاجاتا تھا ۔اگرچہ گھر میں غربت ہو تی لیکن اگر کوئی مہمان آجاتا تو اللہ کی رحمت سمجھ کر اُس کی خوب خاطر تواضع کی جاتی۔ گھر کی بیٹھک ہر وقت کسی مہمان یا مسافر کی راہ تکتی رہتی۔ یہ وہ دور تھا جب مسجدیں 24 گھنٹے کھلی رہتیں، جمعرات کی شام درگاہوںاورمسجدوں میںکھانے کاڈھیرنظرآتا،اور یہ وہی دور تھا جب گھر کا ایک فردکماتااور نہ صرف پورا گھر بلکہ دوسرے بھی سیر ہوکرکھاتے۔ چوں کہ لوگوں کی ترجیح اپنے سے زیادہ دوسرے ہواکر تے، اس لیے اُس دور کے رکشوں کے پیچھے جو اشعار یا عبارتیں ہمیں نظرآتیں وہ کچھ اس ہوتیں کہ ع

''اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا''

''دنیا فانی ہے۔'' '' رہے نام اللہ کا۔'' ''محنت کر، حسد نہ کر ۔'' ''نصیب اپنا اپنا'' وغیر ہ۔

اب ایسا بھی نہیں تھا کہ ہر طرف خوش حالی ہی خوش حالی تھی اور غم نام کی کسی شے کا وجود ہی نہیں تھا۔ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں، اس دنیا میں جہاں انسان کو خوشیاں ملتی ہیں وہاں غم بھی ملتے ہیں لیکن خوشیوں کا پلڑا بھاری تھا۔ حسد، بغض خال خال ہی نظر آتا ۔ جب کوئی شخص بیرون ملک جاتا یا وہاں سے واپس آتا تو پورا محلہ اُسے الوداع کہنے یا استقبال کرنے کے لیے موجود ہوتا۔ اب تو زندگی اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ کوئی کب آیا، کب گیا کچھ خبر ہی نہیں ۔ پہلے لوگ دوسروں کے لیے دعائیں کیا کر تے تھے۔ ''خیر نال آ تے خیر نال جا۔'' ''اچھا دوست پھر ملیں گے۔'' رکشا جتنا مرضی کھٹارا ہو اور رکشا ڈرائیور کی حالت جیسی بھی ہو، وہ اپنے رکشے کے پیچھے لکھواتا۔'' سدا خوش رہو۔'''' رب دے حوالے۔'''' اس دور میں لوگوں کو ہنسی بھی آتی تھی اور وہ دوسروں کو بھی ہنستا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے اُس دور میں بعض گاڑیوں پر ایسی ایسی تحریریں لکھی ہو تیں جنہیں دیکھ کر بے اختیار ہنسی نکل جاتی۔'' پپو یار تنگ نہ کر۔'' ایک صاحب نے رکشے کے پیچھے لکھا، ''ڈاکٹر محمد یونس مستری، ایم بی بی ایس، پی ایچ ڈی (لندن) ماہر امراض انجن وگیئر۔'' ایک صاحب کو دیکھا، وہ رکشے کو دھکا دے کر لے جا رہے تھے۔ رکشے کے پیچھے لکھا تھا، ''تو خوش رہ، ساڈی خیر ہے۔'' کچھ لوگ لکھتے ۔'' یاری پکی پکی، خرچے اپنے اپنے۔''


ہمارے ہاں فلم، تھیٹر اور ڈرامے سے وابستہ افراد اکثر یہ رونا روتے نظر آتے ہیں کہ اس صنعت کو آخر کس کی نظر لگ گئی۔ دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے ڈرامے آج کیوں اُس طرح نہیںدیکھے جا رہے جیسے پہلے دیکھے جاتے تھے۔ کہاں تن تنہا اسٹیج پر دنیا کو ہنسانے والا معین اختر(مرحوم)اور کہاں موجودہ دور کا طنز و مزاح۔ آج لاتعداد اسٹیج ایکٹرز اور نت نئے خاکے بھی لوگوں کو ہنسانے میں ناکام ہیں تو اس کی اگرچہ دیگر کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ، جو مزدور پیشہ کہلاتا ہے، اب اُس کے حالات ایسے نہیں رہے کہ وہ ان فلموںکودیکھ سکے اوران خاکوں سے لطف اندوز ہو سکے۔ یہی وہ لوگ تھے جو اپنے جیسے کسی عام فرد کی فلم دیکھ کر اُسے فلم اسٹار بنا دیتے تھے اور پھر اُس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب نظر آتے۔ ان کے کمرے اپنے پسندیدہ فن کاروں کی تصاویر سے بھرے ہو تے اور جن کے رکشوں، ٹیکسیوں اور ویگنوں پر اپنے پسندیدہ فلموں کے نام یا پھر اپنے پسندیدہ ہیروکے ڈائیلاگ ہوا کر تے۔ آپ 90 کی دہائی میں جھانک کر دیکھیں جب فلمی دنیا اپنے عروج پر تھی۔ اُس وقت اکثر گاڑیوں میں ہمیں اس قسم کے الفاظ نظر آتے: ''ساون'' ، '' پرندہ'' ، ''آنچل'' ، '' جھنکار'' ، ''مستانہ'' ، ''نہ چھیڑ ملنگاں نوں'' ، ''ہلچل'' وغیر ہ۔ اوراگر کوئی دل جلا یا محبت کا مارا ہوتا تو اُس کی گاڑی پر کچھ اس طرح الفاظ یا اشعارہوتے:

''بے وفا''،'' غریبی جرم ہے''، ''تنہائی''، ''دشت''، ''محبت نہ کرنا'' ، ''تیری یادآئی''۔
رات ہو تے ہی چراغوں کو بجھا دیتا ہوں
اک دل ہی کافی ہے تیری یاد میں جلنے کے لیے
پہلے پیتا تھا شراب اُس نے چھڑا دی اپنی قسم دے کر
کل جب محفل میںگیا تو یاروں نے پلا دی اُس کی قسم دے کر
''اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی
غور سے میں نے تجھے کاش نہ دیکھا ہوتا''

یہ وہ دور تھا جب لوگوں کو اپنی ذات برادری، زبان اور ثقافت پر نہ صرف ناز ہوا کرتا تھا بلکہ وہ کھل کر اس کا اظہار بھی کر تے تھے۔ اس لیے جو سندھی ہوتا اُس کے رکشے کے پیچھے لکھا ہوتا ، ''بلی کرے آیا۔'' بلوچ لکھتا'' وش آتکے۔'' پنجابی لکھتا'' خیر نال آ تے خیر نال جا۔'' پٹھان لکھتا'' پہ خیر راغلے۔'' ایک طویل سلسلہ تھا چاہتوں کا، محبتوں کا، جسے جس قدر بیان کیا جائے کم ہے۔

لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی، محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں، دوستیاں دشمنیاں ہو گئیں اور پھر یوں ہوا کہ جس شہر کی گلیوں کوچوں اور بازاروں سے پیار اور محبت کی خوشبو آتی تھی، وہاں دہشت گردی، فرقہ واریت اور لسانیت کا تعفن اس قدر پھیل گیا کہ سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جہاں ساون کی چھم چھم دوستوں ، عزیزوں، اپنوں پرایوں کو ایک ہی چھت پر جمع ہو کر پکوڑے اوربھجیا کھانے پر مجبور کر دیتی تھی، وہاں گولیوں کی تڑ تڑ نے سگوں کو بھی اپنوں سے دور کر دیا۔ جہاں ہر دن عید ہوا کر تی تھی اب وہاں عید بھی ایک پھیکی رسم بن کر رہ گئی جو ہر سال دو مرتبہ آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اب فاصلے ہی فاصلے ہیں۔ اسی لیے ایک طویل عرصے سے رکشے والوں نے بھی اپنے رجحانات بدل لیے ہیں۔ اب وہ محبت کی راگنی الاپنے کے بجائے لکھتے ہیں :

''صبح ہو تے ہی میری ماں میرے سر پہ ہاتھ رکھ دینا
نہ جانے کس موڑ پر میری زندگی کی شام ہو جائے۔''
''انسان انسان کو ڈس رہا ہے، سانپ دیکھ کر ہنس رہا ہے۔''

یہ تو اُن کا ذکر ہے جو کچھ نہ کچھ لکھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں ورنہ ایک طویل عرصے سے رکشا والوں نے اپنی گاڑیوں کے پیچھے کچھ لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے،کیوں کہ پہلے جہاں وہ دوسروں کے لیے جیتے تھے اب اُنہوں نے'' جیو اور جینے دو'' کی پالیسی اپنا لی ہے۔ اب یہ کسی کو مرتا ہوا بھی دیکھتے ہیں تو اُس کے قریب نہیں جاتے۔اب نہ کوئی سندھی ہونے پر نازاں ہے، نہ بلوچ، نہ مہاجر، نہ پنجابی نہ پٹھان کہ کیا خبر کس موڑ پر یہ شناخت اُس کی زندگی کی شام بن جائے۔ ایسے حالات میں میں اُسے کیسے سمجھائوں کہ مجھے بھی ہنسی آتی ہے ، پر میں ہنس نہیں سکتا۔ غالب نے کہا تھا ؎

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
Load Next Story