2 نومبر کے دھرنے سے پہلے سوچئے
عمران خان کے بیانات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخی اور غصہ مسلسل بڑھ رہا ہے
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے نوازشریف کو وزیراعظم نہیں مانتا، وہ 2نومبر کو تلاشی دیں گے یا استعفیٰ ۔ دھرنا اور حکومت ایک کے ساتھ ختم ہوگا، ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنی طرف سے حکومت کے خلاف فرد جرم عائد کرتے ہوئے بہت سارے سنگین الزامات لگائے ، پی ٹی آئی کے ایک اتحادی رہنما کے بقول دھرنا ''آر یا پار'' ہوگا، اور اگر احتجاج کی صورت میں تیسری قوت آئی تو اس کے ذمے دار نواز شریف ہوںگے، سپریم کورٹ نوازشریف کو سزا دے گی لیکن ہم استعفیٰ یا تلاشی مانگ رہے ہیں لہذا سپریم کورٹ اپنا کام کرتی رہے۔
عمران خان کے بیانات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخی اور غصہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اب تو وہ وزیراعظم کے بارے میں دو قومی نظریے کے خلاف ہونے کی بات بھی کررہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں سیاسی ایجی ٹیشن اور احتجاج کی آزادی کو حزب اختلاف کا جمہوری حق تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں ۔ سیاست میں غصہ اور شعلہ نوائی بعض اوقات انتشار اور ہیجان کا باعث بن جاتا ہے جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ابھی ریلیوں اور دھرنے کو چند دن باقی رہ گئے ہیں اس لیے سیاسی دانش و تدبر اور نازک ترین ملکی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیاں تصادم اور انارکی کا ہر امکان خوش اسلوبی اور مشروط سیز فائر کی صورت میں روکا جائے اور پانامہ لیکس جیسی ناگہانی بجلی سے ملکی نشیمن کو خود اپنے ہاتھوں سے جلتے دیکھنے کا انتظار نہ کیا جائے۔
اس وقت ایک ایک لمحہ اہل وطن کے لیے تشویش کا باعث ، بے یقینی بڑھی جارہی ہے، فنٹاسی کی بات نہیں زمینی حقیقت ہے کہ ریاست اور پی ٹی آئی کے درمیان ''رن کانپ رہا ہے '' کا دلگداز سماں ہے جب کہ اشتعال انگیز بیان بازی اور افسوس ناک الزام تراشی 2 نومبر سے پہلے ہی حالات کی خرابی کا اشارہ دے رہی ہے ، ذاتی انا ملکی مفاد سے بڑی شے نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان سمیت لیگی رہنما اور مشیر اپنے انداز گفتگو پر تھوڑی سی نظر ثانی کریں، عمران قوم کو بتائیں کہ ان کا ٹارگٹ صرف کرپشن ہے، جمہوری نظام نہیںہے۔ سیاسی فضا کو بیانات کی آگ سے جتنی زیادہ حدت دی جائے گی، بے یقینی ، قیاس آرائیوں اور خوف میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا جائے گا۔سیاست کو آئین اور جمہوری اقدار اور اصولوں کی حدود میں رہنا چاہیے۔حدود سے تجاوز کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔