ہیلمٹ کی پابندی اور پولیس کا نازیبا سلوک
ٹریفک پولیس اور پولیس ڈپارٹمنٹ کی زیادتی سے سندھ حکومت چشم پوشی کیوں برت رہی ہے
سندھ حکومت کی جانب سے موٹر سائیکل پر دوران سواری ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی کے اطلاق کے بعد شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک جانب پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی صورت میں موٹر سائیکل پر سفر مجبوری ہے، لیکن کراچی میں ٹریفک ڈپارٹمنٹ کے ساتھ پولیس اہلکار بھی اس پابندی کی آڑ میں بائیک سواروں کو پریشان کر رہے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو قانونی طور پر چالان کاٹنے کا اختیار نہیں ہے، وہ صرف شک کی بنیاد پر شہریوں کی تلاشی اور کاغذات کی چیکنگ کرسکتے ہیں لیکن شہر میں جگہ جگہ ناکے لگاکر نہ صرف پولیس اہلکار ڈبل سواری اور بغیر ہیلمٹ سفر کرنے والے موٹر سائیکل سواروں کو روک کر پریشان کررہے ہیں بلکہ مختلف مدعات جیسے ہیلمٹ، اوریجنل کاغذات کی کمی، بیک ویو مرر کی عدم دستیابی نیز کسی بھی بہانے چالان کاٹنے اور تھانے لے جانے کی دھمکی دے کر مک مکا کرنیکی کوشش کرتے ہیں جس کی شکایات میڈیا پر رپورٹ بھی ہورہی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ ٹریفک پولیس اور پولیس ڈپارٹمنٹ کی زیادتی سے سندھ حکومت چشم پوشی کیوں برت رہی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے اچانک ہی فیصلے لاگو تو کرنا شروع کردیے اور ہیلمٹ کی پابندی کا فیصلہ درست بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی سہولیات کی فراہمی پر دھیان نہیں دیا گیا۔ صائب تو یہ ہوتا کہ حکومت کی جانب سے پہلے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی آسان سہولت مہیا کی جاتی۔ میٹروپولیٹن سٹی میں جہاں لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر گھروں سے دفاتر اور تعلیمی اداروں تک سفر کرتے ہیں وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی بلاتعطل موجودگی لازم ہے لیکن یہ شہر قائد کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ٹرانسپورٹ کے باسہولت وسیلوں کو پہلے ختم کیا گیا، بعد ازاں شہریوں کو ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو بوسیدہ و ناکارہ پرانی گاڑیوں کو بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ شہر کی سڑکوں پر دوڑا رہے ہیں۔
شہریوں کا مطالبہ بجا ہے کہ پہلے عوام کو سہولتیں فراہم کی جائیں اس کے بعد ہی ٹریفک کے قوانین کے نفاذ میں سختی کی جائے۔ راست ہوگا کہ سندھ حکومت موٹر سائیکل سواروں پر نئے قانون کو لاگو کرتے ہوئے عوام کی مجبوری اور قوانین سے لاعلمی کے عنصر کا بھی خیال کرے۔ اور اپنی توجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرنے پر مرکوز کرے، نیز ٹریفک پولیس اور پولیس ڈپارٹمنٹ کی ''کارکردگی'' پر بھی کڑی نگاہ رکھی جائے۔
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو قانونی طور پر چالان کاٹنے کا اختیار نہیں ہے، وہ صرف شک کی بنیاد پر شہریوں کی تلاشی اور کاغذات کی چیکنگ کرسکتے ہیں لیکن شہر میں جگہ جگہ ناکے لگاکر نہ صرف پولیس اہلکار ڈبل سواری اور بغیر ہیلمٹ سفر کرنے والے موٹر سائیکل سواروں کو روک کر پریشان کررہے ہیں بلکہ مختلف مدعات جیسے ہیلمٹ، اوریجنل کاغذات کی کمی، بیک ویو مرر کی عدم دستیابی نیز کسی بھی بہانے چالان کاٹنے اور تھانے لے جانے کی دھمکی دے کر مک مکا کرنیکی کوشش کرتے ہیں جس کی شکایات میڈیا پر رپورٹ بھی ہورہی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ ٹریفک پولیس اور پولیس ڈپارٹمنٹ کی زیادتی سے سندھ حکومت چشم پوشی کیوں برت رہی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے اچانک ہی فیصلے لاگو تو کرنا شروع کردیے اور ہیلمٹ کی پابندی کا فیصلہ درست بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی سہولیات کی فراہمی پر دھیان نہیں دیا گیا۔ صائب تو یہ ہوتا کہ حکومت کی جانب سے پہلے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی آسان سہولت مہیا کی جاتی۔ میٹروپولیٹن سٹی میں جہاں لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر گھروں سے دفاتر اور تعلیمی اداروں تک سفر کرتے ہیں وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی بلاتعطل موجودگی لازم ہے لیکن یہ شہر قائد کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ٹرانسپورٹ کے باسہولت وسیلوں کو پہلے ختم کیا گیا، بعد ازاں شہریوں کو ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو بوسیدہ و ناکارہ پرانی گاڑیوں کو بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ شہر کی سڑکوں پر دوڑا رہے ہیں۔
شہریوں کا مطالبہ بجا ہے کہ پہلے عوام کو سہولتیں فراہم کی جائیں اس کے بعد ہی ٹریفک کے قوانین کے نفاذ میں سختی کی جائے۔ راست ہوگا کہ سندھ حکومت موٹر سائیکل سواروں پر نئے قانون کو لاگو کرتے ہوئے عوام کی مجبوری اور قوانین سے لاعلمی کے عنصر کا بھی خیال کرے۔ اور اپنی توجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرنے پر مرکوز کرے، نیز ٹریفک پولیس اور پولیس ڈپارٹمنٹ کی ''کارکردگی'' پر بھی کڑی نگاہ رکھی جائے۔