جب ہم غلام تھے
اس وقت لکھ لینا بھی میری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہی لکھنا میری زندگی کا انداز بن گیا
BARA:
یہی جی میں آئی کہ گھرسے نکل... ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل لیکن میں جس باغ میں اترا وہ تو میرا پیدائشی گھر تھا اب یاد نہیں آتا کہ وہ کیا بات تھی جو مجھے لاہور سے دو ڈھائی سو میل دور پہاڑی راستوں پر گاڑی چلاتے ہوئے گاؤں لے گئی، جہاں میں پیدا ہوا، کھیلا کودا اور پھر ایک مشکل زندگی میں داخل ہو گیا تھا جس میں مجھے بہت کچھ پڑھنا پڑا، بہت سوں کے مقابلے میں رہ کر زندگی گزارنی پڑی اور سیاسی دنیا میں غیر سیاسی زندگی کے طور و اطوار سیکھنے پڑے۔ میرے لکھنے کی پیش گوئی تو میرے اولین استاد اور پہلے بزرگ نے کی تھی۔ جب انھوں نے اس بچے کی زبان میں لکنت دیکھی تو ان کے مبارک منہ سے نکلا کہ یہ اچھا بولنا چالنا نہ ہی سیکھے اچھا لکھنا ضرور سیکھ لے گا۔
اس وقت لکھ لینا بھی میری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہی لکھنا میری زندگی کا انداز بن گیا اور میں اچھا یا برا لکھنے والا مشہور ہو گیا۔ لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑا چونکہ میں زیادہ تر سیاست پر لکھتا تھا اس لیے استادوں نے میرے کالم کا عنوان 'سیاسی باتیں' طے کیا اور اسی عنوان سے میں مدتوں لکھتا رہا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور یہ میں لکھ بھی چکا ہوں کہ اس دوران جنرل یحیٰ خان کی حکومت آ گئی اور انھوں نے 'سیاست' کا عنوان بھی ممنوع قرار دے دیا بلکہ سیاست کا لفظ ہی نا جائز قرار پایا چنانچہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ سیاست کے لفظ کو بحکم سرکار بدل دیا جائے اور سیاسی باتیں نام کی غیر سیاسی بن جائیں۔
تب سے اب تک یہ سیاسی باتیں غیر سیاسی باتیں بن کر زندگی گزار رہی ہیں تاآنکہ کوئی اور فوجی حکمران کوئی اور تبدیلی نہ کر دے جس کا امکان عین ممکن ہے۔ بہرکیف آپ اب غیرسیاسی باتیں کے عنوان کو قبول کر لیں کہ یہ عنوان اب شاہی عنوان ہے اور اوپر سے آیا ہے اس کے خلاف کچھ بھی کرنا حکم عدولی ہو گی۔ یہ مارشل لائی تحفہ یا حکم ہے اور اسے ہر حال میں قبول کرنا ہے ایسے احکامات کو قبول نہ کرنے کی کئی مثالیں میری اس ناتواں زندگی میں موجود ہیں اور تلخی گھول رہی ہیں اور جو لوگ کچھ ایسا لکھتے ہیں جو حکمرانوں کی بری نظر سے گزر کر ہی شایع ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی نظر کیا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بعض دلچسپ اور عبرت ناک حادثے بھی ہو چکے ہیں۔ مثلاً سنسر کا ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب آپ اپنی تحریر کسی ایڈیٹر کو نہیں کسی سنسری افسر کو دکھانے اور اس کی منظوری لینے پر مجبور ہوتے تھے۔
چنانچہ ایک بار کسی سنسری افسر نے اپنی اور لکھنے والے دونوں کی سہولت اس میں سمجھی کہ جو کچھ کل سنسر کے لیے پیش کیے جانا ہے وہ لکھا ہی سنسر افسر کے سامنے جائے تاکہ اس پر نظرثانی آسان ہو، یہ لکھنے والا میں تھا۔ اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے ہی اس گناہ کو سرزد کرنے کا حکم دیا چنانچہ میں لکھ کر سنسر افسر کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ ہم دونوں ہم عمر اور پرانے شناسا تھے بلکہ دوست تھے ایک بار میرے اس دوست نے تجویز کیا کہ یار تم میرے سامنے ہی لکھا کرتے ہو اس اس لیے میں اس وقت ہی اس کو 'سنسر' کر دوں گا اور ہم دونوں اس اذیت سے بچ جائیں گے چنانچہ میں لکھنے کے دوران کسی سخت جملے کے بارے میں سنسر افسر کی رائے معلوم کر لیتا۔ ہمارے حکمرانوں کے خیال میں اس طرح کی تحریر سے حکومت کو نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔
تعجب ہے کہ یہ حکومت جس پر مارشل لاء کا ٹھپہ بھی لگا ہوا تھا اس قدر کمزور تھی کہ ایک سرکاری ملازم اور دوسرا اس کا دوست جو کچھ لکھ دیتے تھے وہ حکومت کے لیے کسی قسم کے خطرے کا باعث نہیں تھا۔ غور کیجیے ہماری ایسی حکومتیں بھی رہی ہیں جسے دو دوستوں کی ملی بھگت سے لکھی جانے والی تحریر سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا اور ہم اسی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے تھے۔ غلامی کیا ہوتی ہے مجھے معلوم نہیں لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب دو دوستوں کی تحریر سے محفوظ رہتی تھی اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔
یہ ایک ایسی غلامی کا دور تھا جس کے خدوخال ہم دو نوجوان دوست طے کرتے تھے اور جو خود ناتجربہ کار تھے لیکن اگر کبھی ہمارے غلامی کے اس دور جس کا ذکر ہوا تو یہ تو بتانا پڑے گا کہ ہمارے حکمران کس قدر ناتجربہ کار اور اناڑی تھے۔ اپنی اسی علمی اور ذہنی کیفیت میں وہ ہم پر حکمرانی کا لطف اٹھاتے تھے اور کبھی سنسر کا ذکر ہوتا تو وہ سرکار کو ہماری اس سنسر کی رپورٹ میں دیتے ہوں گے جس کی تحریریں ہم سب سے بالاتر ہوتی تھیں اور جن کا سنسر ایک بڑی ہی بے معنی بات تھی۔ ہماری زندگی یعنی اخباری زندگی پر جب مارشل لا نافذ ہوتا تھا تو ہم حکومت کے چند اناڑی قسم کے کلرکوں کی پالیسیوں پر زندگی بسر کرتے تھے۔
جو بھی جیسا بھی تھا ہم کلرکوں کی پالیسیوں کے مطابق حکومت کرتے تھے۔ ایسی حکومتیں قومی سطح پر کئی تاریخی فیصلے کرتی تھیں اور پوری قوم ان فیصلوں کو تسلیم کرتی تھی کیونکہ یہ فیصلے بھی اوپر سے آتے تھے۔ انگریزوں نے ہم میں یہ وصف پیدا کر دیا تھا کہ سرکار کے حکم پر سر جھکا دینا ہے۔ ہمیں یہ اختیار نہیں تھا کہ ذرا سی بھی حکم عدولی کا تصور بھی کر سکیں۔ خصوصاً ایسے احکامات کی جو انگریزی زبان میں ہوں اور جن کو سمجھنے کے لیے کسی انگریزی خوان کی ضرورت پڑتی ہو۔ مجھے تو انگریزی زبان کے عروج کا وہ زمانہ بھی کچھ یاد ہے جب گاؤں میں انگریزی زبان میں لکھا ہوا کوئی حکم موصول ہوتا تو قریب کے ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے رجوع کرنا پڑتا۔ اگر وہ چھٹی پر ہوتے اور ایسا بھی ہو جاتا تو یہ خط یا سرکاری حکم سنبھال کر لکھ لیا جاتا۔ یہ پرانے زمانے کی باتیں نہیں ہیں آج کے دور میں بھی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں اور بزبان انگریزی کسی حکم کے لیے اسکول ماسٹروں کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ شاید اسی لیے ہم انگریزی کی جگہ اردو کو پسند نہیں کرتے۔