خاص ہے ترکیب میں
معاشرے کے طاقتور ترین شخص کو بھی انھی اصولوں کے مطابق Treat کیا جاتا ہے
معاشرہ کچھ اصولوں پر استوار ہوتا اور رہتا ہے۔ جو اصول آپ اپنے معاشرے کے لیے وضع کردیں اور ان پرعملدرآمد عام کردیں یہ معاشرہ اس پر چلتا رہتا ہے۔ ہر معاشرے کے اپنے اصول ہوتے ہیں جو وہاں کے معروضی حالات کے تحت ترتیب دیے جاتے ہیں مگر Over all یہی دیکھا گیا ہے کہ معاشرے کے اصولوں پر غورکرتے ہوئے ایک کامیاب ریاست کے ذمے داران دوباتوں پرضرور عملدرآمد کرتے ہیں ایک تو یہ اصول ہوتا ہے کہ اصول اکثریت کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور سب پر لاگو ہوتے ہیں۔
معاشرے کے طاقتور ترین شخص کو بھی انھی اصولوں کے مطابق Treat کیا جاتا ہے جو ایک نہایت غریب کے لیے سوسائٹی مقررکرتی ہے۔ یہ تصور اسلام نے دنیا کو دیا تھا ورنہ پاپائیت اور بادشاہت کے گٹھ جوڑ نے عوام کو ٹکٹکی پر باندھ رکھا تھا۔ سب برابر ہیں کا اصول اسلام نے دیا۔ کرکے دکھایا اور دنیا نے All Equal کا نعرہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ ان کا اصول ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر (جس پر اس طرح عمل نہیں ہوتا جس طرح وہ ترتیب دیا گیا) میں بھی یہی سب کچھ رکھ کر جن کے اصول تھے ان کو ہی نہیں پڑھایا گیا کہ یہ ہے Justice۔ اگر اس چارٹر پر دیانت داری سے عمل کیا جاتا توکشمیر، فلسطین، برما، ایتھوپیا اوردوسرے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ مگر یہ مسائل پیدا نہ ہوتے تو عالمی سیاست یا عالمی دہشت گردی کیسے چلتی۔
برا لگتا ہے تو ضرور لگے مگر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت اور ان کو یہ سکھانا کہ آپ کو دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے ایک دعویٰ خدائی ہی کے برابر ہے اور یہ سکھانے کے لیے جنگوں کے میدان ترتیب دینا اور اپنے اسلحے کو فروخت بھی کرنا اور آزمائش بھی کرلینا یہ بن گیا اصول اور اسے اقوام متحدہ کی خاموش حمایت بھی حاصل ہے۔
صدیوں سے اس روئے زمین پر انسان آباد ہیں، رہ رہے ہیں، رسم و رواج مذہب، رنگ نسل زبان کے فرق کے باوجود اور نصف صدی پہلے یہ دنیا امن کا گہوارہ تھی توکیوں یہ سب کچھ توڑ پھوڑ اس عالمی معاشرے میں ہوگئی۔اس پر غور کرنا چاہیے تھا، اقوام متحدہ کو اور وہ غورکرتی ہے کہ سپر پاور کے ارادوں کوکس طرح عملی جامہ پہنایا جائے۔
God is Super Power سب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، مانتے ہیں، خدا کے اختیارات استعمال کرنا اب Hobby بن گیا ہے۔ آپ میری بات پر بہت غورکریں گے تو متفق بھی شاید ہوجائیں کہ جہاں بھی ایسا ہوا ہے وہ معاشرہ بالآخر تباہ ہوگیا۔ لیبیا، مصر، ایران، افریقہ جہاں بھی خدا کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا وہاں خدا نے جواب دیا، وہ آپ کو پسند آیا یا نہیں یہ الگ بات ہے اور خدا کا یہ جواب جاری رہے گا کیونکہ وہ خدا ہے اور سب کا خدا ہے، کوئی بھی طاقت یہ نہ سمجھے کہ وہ صرف کسی ایک قوم کا خدا ہے۔ بلند کو پست کردینا اور پست کو بلند کردینا اس کے لیے بھلا کیا کام ہے وہ تو دو بار چاند سورج کو طلوع غروب کرتا رہتا ہے چوبیس گھنٹوں میں۔
میں نے جن ملکوں کا نام لکھا ہے اس میں شاید ایک ملک ایران نے زیادہ بہتر صورتحال حاصل کرلی، بہت محتاط ہوکر کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے اس خیال سے بہت اختلاف کی گنجائش ہے اور وہ درست ہے۔ آئیڈیل سوسائٹی کہیں بھی نہیں ہے اور جبر کے مختلف ضابطے ہوتے ہیں ہر آنکھ ان کو مختلف انداز سے دیکھتی پرکھتی ہے، اور بالکل درست ہے کہ یہ ہر آنکھ کا حق ہے۔
اپنے پیارے وطن پاکستان پر میری جان قربان! مگر میں اس خیال کو ہمیشہ Discuss کرتا ہوں کہ انسان پہلے، نظارے بعد میں ۔ دیکھنے والی آنکھیں سلامت ہوں تو نظاروں کا لطف بھی ہوگا۔حسن کی تعریف نہ ہو تو وہ اپنی جگہ ایک سوگوار مورت ہے، لوگوں کے بغیر وطن کچھ نہیں اور یہ بھی درست ہے کہ وطن کو نکھارنے سنوارنے کا کام لوگ کرتے ہیں اور وطن کی عزت کو خاک میں بھی انسان یعنی وہ اس وطن کے لوگ ہی حصہ لیتے ہیں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم کو استعفیٰ کس نے دلوایا؟ عوام کے ووٹ نے، ایک پرچی نے جس پر لکھا تھا ہاں یا ناں، اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے یہ تحقیق نہیں کی نہ سپریم کورٹ میں دھاندلی کی شکایت کی کہ یہ ریفرنڈم غلط ہے سیدھا جواب دیا۔ میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا لہٰذا میرا رہنا بے کار ہے کسی اور نے کہیں استعفیٰ دے دیا، میں اس میں ملوث ہوں اور مجھے نہیں ہونا چاہیے تھا لہٰذا اب میں یہ کام نہیں کرسکتا۔
یہ سارے اصول کس کے تھے، دیانت کس کا معیار زندگی اصول زندگی تھا، ان کا تو نہیں تھا جو اب اس کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ان کے بڑے تو ہمیشہ سازشوں، دھوکوں میں ملوث رہے تاریخ پڑھ لیجیے۔ پھر یہ کیا تماشا ہے۔ مجھ پر اسلام فوبیا کا الزام نہ لگ جائے کہ حقیقت بیان کر رہا ہوں ان لوگوں نے یہ کرکے دکھایا ہے۔
ان کے معاشرے جس وقت زوال پذیر تھے بدترین بادشاہتوں کے باوجود اور شاہی ظلم و ستم کے باوجود معاشرے کی مجموعی حالت بہتر تھی کیونکہ ان معاشروں سے اسلام کے بنیادی اصول محو نہیں ہوئے تھے۔ بادشاہوں کی تمام تر بداعمالیوں اور درباریوں اور مفاد پرست ملاؤں کی شاہ کی خوشنودی کی کوششوں کے باوجود۔ معاشرے کا بڑا حصہ درست راستے پر گامزن تھا جو اس کے ہادی برحق ان کے خاندان اور صحابہ کرام نے قائم کردیے تھے۔ لوگ برائی کو برائی کہتے تھے، سر دیتے تھے، سچ کہتے تھے، بادشاہ سر لیتے تھے اور خوف پھیلا کر حکومت کرتے تھے۔
سر دینے والے بھی مسلمان تھے سر لینے والے بھی مسلمان تھے سوال صرف نیت کا تھا فیصلہ خدا کا اور خدا نے فیصلے کیے۔ سردینے والے ستارے بن گئے اور سر لینے والے مٹی، مگر بات اور طرف نہ چلی جائے تو آج کے مہذب کہلانے والے معاشرے نے یہ سارے اصول اس معاشرے سے اکتساب کیے جو اس وقت سر لینے اور دینے میں مصروف تھا۔کیونکہ نچلی سطح پر انصاف موجود تھا، سیاسی انتقام کے باوجود اور اختلاف صرف یہ تھا کہ کوئی احیائے اسلام کے لیے سر دے رہا تھا کوئی بادشاہت کے بچاؤکے لیے سر لے رہا تھا۔
آج سارے اصول بدل گئے۔ نام تو کچھ اور ہے، مقاصد کچھ اور استاد کون ہیں، ملک میں بھی اور ملک سے باہر بھی، یہ وہ شطرنج ہے جس کے سارے مہرے جھوٹے ہیں، نام کے بادشاہ، وزیر، سپاہی،گھوڑا، ہاتھی، درپردہ کچھ اور ہے، اس کھیل اوراس بازی پہ نہ جانے کس کس کا اورکیا کیا داؤ پر لگا ہے سمجھ تو آپ رہے ہوں گے ایک باشعورقوم کے آپ فرد ہیں دانش جس کی وراثت ہے۔
آگ تیز ہو رہی ہے، پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے، یہ معاشرہ بدلنے والا ہے، شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر سچ ہے، میری عمر پاکستان سے زیادہ ہے، میرا یقین پاکستان سے وابستہ ہے، سیاستدانوں یا امرا یا کچھ اور لوگوں سے نہیں اور پاکستان میں ہمیشہ نوجوانوں کو کہتا اور سمجھتا ہوں میں نے ان کے ہراول دستے دیکھے ہیں، ان کی شان دیکھی ہے، یہ مایوس کرنے والے نہیں ہیں یہ اس وقت تذبذب میں ہیں کیونکہ جھوٹ ہر طرف ہے۔ 65 سال کا نوجوان بھی میدان میں ہے اور خود کو جوان کہتا ہے جوانوں کا ساتھ چاہتا ہے۔
یہ پاکستان یہ نوجوان اب خوف فیصلہ کرے گا مجھے یہ نظرآرہا ہے، عالمی دہشت گردی اور سازشوں اوردشمنوں میں گھرا ہونے کے باوجود یہ نوجوان یہ پاکستان اب ابھرے گا، لڑے گا اور فتحیاب ہوگا، وقت آگیا ہے گھرکو بچانے کا، اندرکے دشمنوں سے باہرکے دشمنوں سے جو ایک ہیں جو قبضہ کیے ہیں پاکستان پراس کے عوام کی قسمت پر۔
دنیا مجھے پسند ہے اسے دیکھنا بھی اچھا لگتا ہے مگر پہلے اپنا گھر اچھا لگتا ہے پہلے اس کے صحن کو دیواروں کو برسوں کی دیمک اورسیاسی کیڑے مکوڑوں سے صاف کرنا ہے اور یہ کون کرے گا پاکستان کا نوجوان۔ عام نوجوان جو بہت خاص ہے، قوم ہاشمی ہے۔
معاشرے کے طاقتور ترین شخص کو بھی انھی اصولوں کے مطابق Treat کیا جاتا ہے جو ایک نہایت غریب کے لیے سوسائٹی مقررکرتی ہے۔ یہ تصور اسلام نے دنیا کو دیا تھا ورنہ پاپائیت اور بادشاہت کے گٹھ جوڑ نے عوام کو ٹکٹکی پر باندھ رکھا تھا۔ سب برابر ہیں کا اصول اسلام نے دیا۔ کرکے دکھایا اور دنیا نے All Equal کا نعرہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ ان کا اصول ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر (جس پر اس طرح عمل نہیں ہوتا جس طرح وہ ترتیب دیا گیا) میں بھی یہی سب کچھ رکھ کر جن کے اصول تھے ان کو ہی نہیں پڑھایا گیا کہ یہ ہے Justice۔ اگر اس چارٹر پر دیانت داری سے عمل کیا جاتا توکشمیر، فلسطین، برما، ایتھوپیا اوردوسرے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ مگر یہ مسائل پیدا نہ ہوتے تو عالمی سیاست یا عالمی دہشت گردی کیسے چلتی۔
برا لگتا ہے تو ضرور لگے مگر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت اور ان کو یہ سکھانا کہ آپ کو دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے ایک دعویٰ خدائی ہی کے برابر ہے اور یہ سکھانے کے لیے جنگوں کے میدان ترتیب دینا اور اپنے اسلحے کو فروخت بھی کرنا اور آزمائش بھی کرلینا یہ بن گیا اصول اور اسے اقوام متحدہ کی خاموش حمایت بھی حاصل ہے۔
صدیوں سے اس روئے زمین پر انسان آباد ہیں، رہ رہے ہیں، رسم و رواج مذہب، رنگ نسل زبان کے فرق کے باوجود اور نصف صدی پہلے یہ دنیا امن کا گہوارہ تھی توکیوں یہ سب کچھ توڑ پھوڑ اس عالمی معاشرے میں ہوگئی۔اس پر غور کرنا چاہیے تھا، اقوام متحدہ کو اور وہ غورکرتی ہے کہ سپر پاور کے ارادوں کوکس طرح عملی جامہ پہنایا جائے۔
God is Super Power سب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، مانتے ہیں، خدا کے اختیارات استعمال کرنا اب Hobby بن گیا ہے۔ آپ میری بات پر بہت غورکریں گے تو متفق بھی شاید ہوجائیں کہ جہاں بھی ایسا ہوا ہے وہ معاشرہ بالآخر تباہ ہوگیا۔ لیبیا، مصر، ایران، افریقہ جہاں بھی خدا کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا وہاں خدا نے جواب دیا، وہ آپ کو پسند آیا یا نہیں یہ الگ بات ہے اور خدا کا یہ جواب جاری رہے گا کیونکہ وہ خدا ہے اور سب کا خدا ہے، کوئی بھی طاقت یہ نہ سمجھے کہ وہ صرف کسی ایک قوم کا خدا ہے۔ بلند کو پست کردینا اور پست کو بلند کردینا اس کے لیے بھلا کیا کام ہے وہ تو دو بار چاند سورج کو طلوع غروب کرتا رہتا ہے چوبیس گھنٹوں میں۔
میں نے جن ملکوں کا نام لکھا ہے اس میں شاید ایک ملک ایران نے زیادہ بہتر صورتحال حاصل کرلی، بہت محتاط ہوکر کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے اس خیال سے بہت اختلاف کی گنجائش ہے اور وہ درست ہے۔ آئیڈیل سوسائٹی کہیں بھی نہیں ہے اور جبر کے مختلف ضابطے ہوتے ہیں ہر آنکھ ان کو مختلف انداز سے دیکھتی پرکھتی ہے، اور بالکل درست ہے کہ یہ ہر آنکھ کا حق ہے۔
اپنے پیارے وطن پاکستان پر میری جان قربان! مگر میں اس خیال کو ہمیشہ Discuss کرتا ہوں کہ انسان پہلے، نظارے بعد میں ۔ دیکھنے والی آنکھیں سلامت ہوں تو نظاروں کا لطف بھی ہوگا۔حسن کی تعریف نہ ہو تو وہ اپنی جگہ ایک سوگوار مورت ہے، لوگوں کے بغیر وطن کچھ نہیں اور یہ بھی درست ہے کہ وطن کو نکھارنے سنوارنے کا کام لوگ کرتے ہیں اور وطن کی عزت کو خاک میں بھی انسان یعنی وہ اس وطن کے لوگ ہی حصہ لیتے ہیں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم کو استعفیٰ کس نے دلوایا؟ عوام کے ووٹ نے، ایک پرچی نے جس پر لکھا تھا ہاں یا ناں، اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے یہ تحقیق نہیں کی نہ سپریم کورٹ میں دھاندلی کی شکایت کی کہ یہ ریفرنڈم غلط ہے سیدھا جواب دیا۔ میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا لہٰذا میرا رہنا بے کار ہے کسی اور نے کہیں استعفیٰ دے دیا، میں اس میں ملوث ہوں اور مجھے نہیں ہونا چاہیے تھا لہٰذا اب میں یہ کام نہیں کرسکتا۔
یہ سارے اصول کس کے تھے، دیانت کس کا معیار زندگی اصول زندگی تھا، ان کا تو نہیں تھا جو اب اس کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ان کے بڑے تو ہمیشہ سازشوں، دھوکوں میں ملوث رہے تاریخ پڑھ لیجیے۔ پھر یہ کیا تماشا ہے۔ مجھ پر اسلام فوبیا کا الزام نہ لگ جائے کہ حقیقت بیان کر رہا ہوں ان لوگوں نے یہ کرکے دکھایا ہے۔
ان کے معاشرے جس وقت زوال پذیر تھے بدترین بادشاہتوں کے باوجود اور شاہی ظلم و ستم کے باوجود معاشرے کی مجموعی حالت بہتر تھی کیونکہ ان معاشروں سے اسلام کے بنیادی اصول محو نہیں ہوئے تھے۔ بادشاہوں کی تمام تر بداعمالیوں اور درباریوں اور مفاد پرست ملاؤں کی شاہ کی خوشنودی کی کوششوں کے باوجود۔ معاشرے کا بڑا حصہ درست راستے پر گامزن تھا جو اس کے ہادی برحق ان کے خاندان اور صحابہ کرام نے قائم کردیے تھے۔ لوگ برائی کو برائی کہتے تھے، سر دیتے تھے، سچ کہتے تھے، بادشاہ سر لیتے تھے اور خوف پھیلا کر حکومت کرتے تھے۔
سر دینے والے بھی مسلمان تھے سر لینے والے بھی مسلمان تھے سوال صرف نیت کا تھا فیصلہ خدا کا اور خدا نے فیصلے کیے۔ سردینے والے ستارے بن گئے اور سر لینے والے مٹی، مگر بات اور طرف نہ چلی جائے تو آج کے مہذب کہلانے والے معاشرے نے یہ سارے اصول اس معاشرے سے اکتساب کیے جو اس وقت سر لینے اور دینے میں مصروف تھا۔کیونکہ نچلی سطح پر انصاف موجود تھا، سیاسی انتقام کے باوجود اور اختلاف صرف یہ تھا کہ کوئی احیائے اسلام کے لیے سر دے رہا تھا کوئی بادشاہت کے بچاؤکے لیے سر لے رہا تھا۔
آج سارے اصول بدل گئے۔ نام تو کچھ اور ہے، مقاصد کچھ اور استاد کون ہیں، ملک میں بھی اور ملک سے باہر بھی، یہ وہ شطرنج ہے جس کے سارے مہرے جھوٹے ہیں، نام کے بادشاہ، وزیر، سپاہی،گھوڑا، ہاتھی، درپردہ کچھ اور ہے، اس کھیل اوراس بازی پہ نہ جانے کس کس کا اورکیا کیا داؤ پر لگا ہے سمجھ تو آپ رہے ہوں گے ایک باشعورقوم کے آپ فرد ہیں دانش جس کی وراثت ہے۔
آگ تیز ہو رہی ہے، پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے، یہ معاشرہ بدلنے والا ہے، شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر سچ ہے، میری عمر پاکستان سے زیادہ ہے، میرا یقین پاکستان سے وابستہ ہے، سیاستدانوں یا امرا یا کچھ اور لوگوں سے نہیں اور پاکستان میں ہمیشہ نوجوانوں کو کہتا اور سمجھتا ہوں میں نے ان کے ہراول دستے دیکھے ہیں، ان کی شان دیکھی ہے، یہ مایوس کرنے والے نہیں ہیں یہ اس وقت تذبذب میں ہیں کیونکہ جھوٹ ہر طرف ہے۔ 65 سال کا نوجوان بھی میدان میں ہے اور خود کو جوان کہتا ہے جوانوں کا ساتھ چاہتا ہے۔
یہ پاکستان یہ نوجوان اب خوف فیصلہ کرے گا مجھے یہ نظرآرہا ہے، عالمی دہشت گردی اور سازشوں اوردشمنوں میں گھرا ہونے کے باوجود یہ نوجوان یہ پاکستان اب ابھرے گا، لڑے گا اور فتحیاب ہوگا، وقت آگیا ہے گھرکو بچانے کا، اندرکے دشمنوں سے باہرکے دشمنوں سے جو ایک ہیں جو قبضہ کیے ہیں پاکستان پراس کے عوام کی قسمت پر۔
دنیا مجھے پسند ہے اسے دیکھنا بھی اچھا لگتا ہے مگر پہلے اپنا گھر اچھا لگتا ہے پہلے اس کے صحن کو دیواروں کو برسوں کی دیمک اورسیاسی کیڑے مکوڑوں سے صاف کرنا ہے اور یہ کون کرے گا پاکستان کا نوجوان۔ عام نوجوان جو بہت خاص ہے، قوم ہاشمی ہے۔