کھیلوں سے محروم بلوچستان

بلوچستان کی موجودہ صورتحال مقبوضہ کشمیر سے یکسر مختلف اور ہر روزکی خونریزی سے پاک ہے

رقبے میں سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ بلوچستان ہماری اپنی کوتاہی نہیں مجرمانہ غفلت، حکومتوں کے سیاسی مفادات، بلوچ سرداروں کی ذاتی مفاد پرستی اورمحرومیوں کے بڑھتے ہوئے احساسات کے باعث اس مقام پر پہنچادیا گیا ہے کہ اسے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے زیر قبضہ بھارتی فوج کی جارحیت کے نتیجے میں لہولہان مقبوضہ کشمیر سے تشبیہہ دیتے ہوئے طنز کر رہا ہے کہ پاکستان سے بلوچستان نہیں سنبھالا جا رہا اور بلوچستان والے مدد کے لیے بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

بلوچستان کی موجودہ صورتحال مقبوضہ کشمیر سے یکسر مختلف اور ہر روزکی خونریزی سے پاک ہے جب کہ بھارت کشمیر میں روزانہ بے گناہ کشمیریوں کا ناحق خون بہا رہا ہے جو دنیا توکیا ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کو نظر نہیں آرہا جب کہ بنگلہ دیش حکومت سے گلہ ہی کیا وہ تو ہے ہی بھارت کی پیداوار اور ایجنٹ مگر یہ مسلم ریاستیں تو ضرور ہیں بھارت کی دوستی میں انھوں نے بے گناہ کشمیریوں کے بہتے خون پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔

بلوچستان میں احساس محرومی کی باتیں جو بلوچ سردار کرتے آئے ہیں ان میں کسی حد تک درست بھی ہے مگراس کے ذمے دارخود بلوچ سردار ہی ہیں جو بلوچستان پر حکومت کرچکے ہیں اور حکومتیں ختم ہونے کے بعد انھیں بلوچستان کا احساس محرومی شدت سے یاد آنے لگتا ہے اور اگر انھیں یاد دلایا جائے کہ آپ خود صوبے کے حکمران رہے ہیں آپ نے اپنے دور میں یہ احساس محرومی ختم نہیں کرایا تو وہ ذمے داری قبول کرنے کی بجائے الٹا الزام وفاق پر لگا دیتے ہیں اور یہ کوئی نہیں مانتا کہ اگر اپنے اقتدار میں وہ اتنے ہی بے بس تھے تو اقتدار چھوڑکر بطور احتجاج مستعفی کیوں نہیں ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد جمہوری دور میں بلوچ وزرائے اعلیٰ عطا اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی، غوث بخش رئیسانی، اختر مینگل، جام قادرآف لسبیلہ، جام محمد یوسف، اسلم رئیسانی، عبدالمالک بلوچ و دیگر منتخب ہوئے تھے اور موجودہ وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری ہیں اور مذکورہ بالا تمام وزرائے اعلیٰ میں صرف ڈاکٹر عبدالمالک سردار یا نواب نہیں تھے اور معاہدے کے تحت ڈھائی سال کے لیے منتخب ہوئے تھے، مگر سابق سردار اور نواب وزرائے اعلیٰ نے اقتدار کے مزے لوٹے، مال بنایا اور دوران اقتدار تو انھیں کبھی احساس محرومی یاد نہیں رہا، البتہ ہر ایک کو اقتدار سے محرومی کے بعد بلوچستان میں ظلم و ناانصافی بھی نظر آئی اور احساس محرومی بھی یاد آیا ۔

جس کے ذمے دار یہ تمام سابقہ وزرائے اعلیٰ ہیں جنھوں نے اپنے اقتدار میں بلوچستان اور اس کے عوام کے لیے جھوٹے دعوؤں کے سوا کچھ نہیں کیا جس کے نتیجے میں بلوچستان تعلیم، صحت، مواصلاتی نظام، فراہمی آب سمیت بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو صوبائی حکومتوں کی ذمے داری تھی اور چاہتے تو یہ اہم مسائل حل کرائے جاسکتے تھے مگر اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔

امن و امان اور دہشت گردی بھی صوبائی مسائل ہیں جن پر صوبائی حکومتیں خود قابو پاسکتی ہیں اور وفاقی مدد بھی حاصل کرسکتی ہیں مگر بلوچستان میں دیگر صوبوں سے بھی بڑی کابینائیں بنائی گئیں اور وزیروں کو کھلی چھوٹ دے کر بلوچستان کے وسائل کو بے دردی سے سیاستدانوں سمیت بیوروکریٹس نے بھی لوٹا اور پس ماندہ بلوچستان کو مزید بدحال کردیا۔

بلوچستان کی جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں فوجی ادوار میں بلاشبہ ترقیاتی کام ہوئے۔کوئٹہ کو سوئی گیس جنرل ضیا کے دور میں ملی جب کہ جمہوری ادوار میں ترقیاتی و تعمیری منصوبے کاغذوں میں بنے جن کے کروڑوں روپے کے جعلی بلوں کی ادائیگی فرضی ناموں پرکرواکر رقم ہڑپ کرلی گئی۔


بلوچستان میں کھیلوں کوخاص طور پر نظرانداز کیا گیا اور سرکاری طور پر جمہوری حکومتوں نے اپنے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جس کی وجہ سے قومی سطح پر تو کیا ضلع اور صوبائی سطح پر نوجوانوں کا کھیل کے سلسلے میں ٹیلنٹ سامنے نہیں آسکا۔

کوئٹہ میں قومی اور صوبائی سطح پر کبھی کبھی کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ضرور ہوا مگر کھلاڑیوں کو سہولتیں نہیں دی گئیں جب کہ اضلاع کی سطح پر کھیلوں کو نظر انداز کیا گیا۔ بلوچستان میں صرف سبی میں تقریباً ہر سال میلہ مویشیاں اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور کسی ضلع میں کوئی قابل قدر بڑی تقریب تو کیا کھیلوں کے مقابلے تک نہیں ہوتے ۔

بلوچستان میں دیگر فوجی اداروں کی طرح پاکستان کوسٹ گارڈز موجود ہے جس کا اصل کام ہر قسم کی اسمگلنگ روکنا ہے ۔ جس میں انسانی اسمگلنگ بھی شامل ہے اور حال ہی میں کوسٹ گارڈز نے ایران جانے والے 1394 مختلف ملزمان کو گرفتار کیا ہے جب کہ اسلحہ اور منشیات کی برآمدگی بڑے پیمانے پر کی گئی ہے۔ کھیلوں کے میدانوں اور کھیلوں کی سرگرمیوں سے محروم بلوچستان میں 2011 میں پہلی بار پاکستان کوسٹ گارڈز نے ٹور ڈی بلوچستان سائیکل ریلی کا انعقاد کیا تھا اور اب پانچ سال بعد پاکستان کوسٹ گارڈز نے ہی دوسری ٹورڈی بلوچستان کوسٹل ہائی وے سائیکل ریلی کا انعقاد کیا۔ جس میں بلوچستان کے مختلف اضلاع اور کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھرپوردلچسپی لی اور اوتھل کوسٹل ہائی وے سے گوادر تک 554 کلومیٹر طویل سائیکل ریلی تین مرحلوں میں براستہ اورماڑہ، پسنی گوادر آکر اختتام پذیر ہوئی۔گوادر بلوچستان میں تیزی سے ترقی کرنے والا شہر ہے۔

جس کا چین کی مدد سے تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداری سے سب سے گہرا تعلق ہے اور دنیا بھرکی نظریں بلوچستان اور خصوصاً گوادر پر مرکوز ہے اور یہ اہم اقتصادی راہداری ہمارے دشمن بھارت سے برداشت نہیں ہو رہی کیونکہ بھارت بلوچستان کی اس ترقی کے سخت خلاف ہے اور اس نے بلوچستان کے علیحدگی پسند براہمداغ بگٹی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے پناہ دے رکھی ہے ۔ بلوچستان میں مسلسل مداخلت اور دہشت گردی کرا رہا ہے جس کا الزام بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سمیت تمام سیاسی حلقے بھارت پر لگا چکے ہیں اور بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری اس کا واضح ثبوت بھی دنیا دیکھ چکی ہے اور بھارت نے بلوچستان میں اپنے ایجنٹ بھی پھیلا رکھے ہیں۔

گوادر میں منعقد ہونے والی تین روزہ سائیکل ریس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اور کمانڈر سدرن کمان جنرل عامر ریاض نے شریک ہونا تھا، جنھوں نے سائیکل ریلی میں ذاتی دلچسپی لی اور بھرپور سرپرستی کی مگر اچانک سرکاری مصروفیات کے سبب گوادر نہ آسکے۔ جس پر مہمان خصوصی کے فرائض پاکستان کوسٹ گارڈز کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر عتیق الرحمن نے انجام دیے اور ریلی کے کامیاب انعقاد پر بلوچستان کے ان نوجوانوں کی کارکردگی کو سراہا جنھوں نے سخت گرمی میں دشوار گزار راستوں پر ہونے والی سائیکل ریلی میں بھرپور شرکت کی ۔

اول دوم اور سوم آنے والے کھلاڑیوں کو تین دو اور ایک لاکھ روپے اور شریک 26 کھلاڑیوں میں پندرہ پندرہ ہزار روپے اور شیلڈز تقسیم کرنے کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ سائیکل ریلی کا مقصد بلوچستان کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھیں منشیات کے مضر اثرات سے آگاہی اور صحت مند مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کوسٹ گارڈز اس سلسلے میں بلوچستان میں مختلف کھیلوں کے مقابلے اور بے شمار تفریحی سرگرمیاں فراہم کرچکا ہے۔

ان کھیلوں اور سرگرمیوں میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت اور لوگوں کی دلچسپی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں امن بحال اور شرپسند ناکام ہوچکے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ بلوچستان پرامن صوبہ ہے جو مستقبل میں ترقی یافتہ ہوگا اور خاص کر گوادر کی ترقی سے خطے کی اقتصادی ترقی صوبے میں خوشحالی لائے گی اور ساحلی علاقوں میں نئے سنہری دور کا دور دورہ ہوگا۔ بریگیڈیئر عتیق الرحمن نے کہا کہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کھیلوں کے مقابلے متواتر ہونا ضروری ہیں تاکہ صوبے میں صحت مندانہ ماحول بڑھے اور نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی سے بلوچستان کا نام دنیا میں روشن ہوسکے۔
Load Next Story