قابو میں رہیں

کسی ملک کا میڈیا اس ملک کا اہم ستون ہے


Shirin Hyder October 24, 2016
[email protected]

سوشل میڈیا ہمارے ہاں ایک ایسے عفریت کا روپ دھار چکا ہے جو ہمارے چراغ رگڑنے سے، بوتل سے باہر تو آچکا ہے مگر وہ یہ جاننے کی بجائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور کس لیے چراغ رگڑ کر اسے باہر نکالا تھا، ہمارے لیے ایک ایسا جن بن چکا ہے جسے نہ تو واپس بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے اپنے احکامات کی تعمیل کروائی جا سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ سوشل میڈیا صرف ہمارے ہاں ہے اور اس قدر فعال ہے ، مگر اتنا بے وقوفانہ اور جاہلانہ طریقے سے یہ صرف ہمارے ہاں ہی پایا جاتا ہے، جہاں ہم ایک اے ٹی ایم میں ہونے والے ایک گھٹیا واقعے کو دنیا بھر میں پھیلا کر اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں، کہیں کسی چائے والے کو لالی ووڈ، بالی ووڈ اور یہاں تک کہ ہالی ووڈ کے خواب تک دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔

تقلید کی ایک اندھی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، ہم ایک پوسٹ وصول کرتے ، اسے دیکھتے اور بے سوچے سمجھے آگے دس لوگوں کو بھیج دیتے ہیں، وہی پوسٹ کئی ذرایع سے پلٹ پلٹ کر واپس ہمارے پاس آتی ہے جیسے دھوکہ!! پھر کسی مقام پر ہمیں کوئی بتاتاہے کہ فلاں فلاں ... عورت نہیں تھی، شی میل تھا!! چائے والا، خوب صورت تو ہے مگر چٹا ان پڑھ ہے اور بات تک کرنا نہیں آتی۔ سوشل میڈیا پر دھوم مچا دینے والے واقعات کسی معاشرے کی نبض ہوتے ہیں اور ہم کالم نگاروں کی توجہ سے محروم نہیں رہتے، کہیںتو ہم خود اسے اہم سمجھ کر اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو کہیں ہمارے پڑھنے والے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروا کے ہمیں اس پر قلم اٹھانے کو کہتے ہیں۔

اگلے ہی روز کسی ٹی وی چینل کی اینکر پرسن کے ایک وردی والے کے ہاتھوں تھپڑ کھانے کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پرلوگوں نے ہنگام مچایا اور انتہائی غصے سے تبصرے کیے، وردی والے کو بے رحم، بے حس، بے غیرت اور وحشی جانور تک کہا گیا۔

کسی انسان کے رد عمل کو '' وردی والوں '' کا رد عمل کہہ کر sweeping statement دینے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، ان کی طرف سے کسی عمل یا رد عمل کا موازنہ ان لوگوں کے رویوں سے نہ کیا جائے جو کہ اس دنیا میںانسانیت کی اصلاح کے لیے آئے تھے... چلیں مان لیتے ہیں کہ اس نے تھپڑ مارنے کی حرکت کی جو کہ انتہائی غلط اور نا قابل قبول ہے، اس کی بد قسمتی یہ تھی کہ وہ اس وقت کیمروں کی زد میں تھا اور اس خاتون نے اسے وجہ فراہم کی کہ وہ اس نوبت تک آیا۔

گھریلو تشدد، مارپیٹ، گلیوں میں گھسیٹنا، غیرت کے نام پر قتل کیسی کیسی سزائیں ہیں اور ان خواتین کا جرم کیا ہوتا ہے؟ ان کے ساتھ یہ ظلم کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ ان کے باپ، چاچے، مامے، بھائی، شوہر، دیور اور جیٹھ، بیٹے اور داماد!!

جس خاتون نے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں وردی والے سے تھپڑ کھایا، اس نے اپنی گفتگو اور حرکتوں سے کس حد تک اس وردی والے کو زچ کیا، ہم سب اس کلپنگ کو دیکھ سکتے ہیں... چینلز پر توسارا کھیل ریٹنگ کا چلتا ہے، اس کے بعد جو ریٹنگ اس چینل کو اور جو شہرت اس خاتون کو منٹوں میں مل گئی، وہ شاید اگلے کئی برسوں تک اس کا مقدر نہ ہوتی۔لوگ شاید میرے اس بیان کو برا محسوس کریں کہ میں ایک ایسے شخص کی حمایت کر رہی ہوں جو ہے تو ہمارے تحفظ کے لیے مگر اس نے ایک شہری اور وہ بھی ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا، لوگ کہہ رہے ہیں کہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھانے کا حق کسی معاشرے اور ملک کو نہیں دیا جا سکتا!! ایسی باتیں کرنے والوں کے اندر خانے کے احوال دیکھیں تو علم ہو گا کہ وہ اپنی عورتوں کی کتنی عزت کرتے ہیں یا عورت کی ہتک کرنا اپنے اولین فرائض میں سے سمجھتے ہیں۔

اگر وہی خاتون کسی شخص کے گرد گھوم گھوم کر اس سے بار بار ایک بے تکا سوال کرے اور وہ اپنا رخ بدل کر اسے تاثر دے کہ وہ اس کی بات کا جواب دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا، اس کے باوجود بھی وہ اسے اس حد تک مجبور کر دے تو یہی ہو گا۔ وردی والا بھی انسان ہے اور انسانوں جیسے جذبات رکھتا ہے، اس کے اندر بھی رگوں میں لہو دوڑتا ہے اور اس میں بھی اسی طرح گرمی پیدا ہو سکتی ہے جس طرح میرے اور آپ کے لہو میں... وردی کوئی ایسا لباس نہیں جو انسان کے جذبات اور احساسات کو قتل کر دیتا ہے!!

یہ واقعہ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اس پر بات کرنا ، اس کی حمایت یا مخالفت میں بات کرنا بھی فساد کو دعوت دینے کے مترادف ہے... کیونکہ اس واقعے کو بہت اچھالا جا رہا ہے۔ خیر دونوں فریقین میں صلح ہوگئی جو اچھا فیصلہ ہے۔ لیکن اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ کسی اینکر کی زبان کو لگام نہیں ڈالی جا سکی، کوئی ضابطہء اخلاق ان کے لیے مرتب نہیں کیا جا سکا، کسی کی عزت کرنا ان کو نہیں سکھایا گیا، ان کے دربار میں پہنچ کر سبھی ایک ہو جاتے ہیں خواہ وہ اپنے اپنے حلقے میں کتنے ہی باعزت کیوں نہ ہوں۔

کسی ملک کا میڈیا اس ملک کا اہم ستون ہے، اس سے انسانی معاشرے میں بگاڑ اور سدھار پیدا ہوتا ہے، بد قسمتی سے ہمارا میڈیا سدھار کی بجائے بگاڑ کی طرف گامزن ہے،اس کی خبریں ہوں ، ٹاک شو یا ڈرامہ!! جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس میں سے زیادہ تر مواد اخلاق سے گرا ہوا، ٹاک شو ایسے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں کی لڑائی کا گمان ہوتا ہے۔ اینکر ایک شوشا چھوڑ کر بپھرے ہوؤں کو اکھاڑے میں اتار دیتے ہیں اور ہم سب ان کی ''شائستہ'' گفتگو سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا جس میں facebook, twitter, whataspp شامل ہیں ،ا س کے استعمال میں بھی ہم سب کو احتیاط کی ضرورت ہے، اشتعال انگیز اور غیر اخلاقی پوسٹ سے گریز کریں کہ آپ کے فون پر زد ہو جانے والی آپ کی انگلی کی ایک حرکت کتنے بڑے پیمانے پر پھیلتی ہے اور اس ملک کا ایک غلط تاثر دنیا بھر میں پھیلا دیتی ہے، اس کا آپ کو شاید اندازہ نہیں ہوتا۔

اس واقعے کے بعد میں سمجھتی ہوں کہ ضرورت اس امر کی ہے، کسی بھی چینل پر بھرتی کرنے والوں کی تربیت کی جائے، انھیں ضابطہء اخلاق سکھایا جائے اور انھیں بتایا جائے کہ کسی بھی شخص کی تصویر تک اس کی اجازت کے بغیر لینا ، نا قابل قبول ہے، کجا کہ آپ اس کو live کیمروں کی زد پر رکھ کر اسے instigate کرنے کی کوشش کریں، وہ آپ سے کترائے اور آپ اسے اس حد تک لے جائیں کہ وہ آپ کو تھپڑ مار دے اور پھر آپ مظلوم بن کر ہر طرف شور مچائیں، کسی عورت کو ایسا زیب نہیں دیتا، بہتر ہے کہ اپنی حد میں رہیں، خود کو قابو میں رکھ کر اپنا کام کریں،اسی میں عزت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں