ذکر ’’پھر‘‘ چِھڑ گیا قیامت کا
21 دسمبر کو دنیا کی بساط لپیٹی جا رہی ہے.
آج کل دنیا بھر میں اسپیس سماج، پرنٹ اورالیکڑانک میڈیا پر جو سوال سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے وہ یہ ہے کہ کیا واقعی 21دسمبر 2012 کو قیامت برپا ہو جائے گی اور دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی؟ اس سوال نے دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو ایک خاص طرح کی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بہت سے ممالک میں تو قیامت کے خوف نے لوگوں کو لائف جیکٹیں خریدنے پر بھی مجبورکر دیا ہے۔ 21 دسمبر سے قبل زندگی بچانے کی تیاریاں بڑی شد و مد کے ساتھ جاری ہیں۔
ہزاروں برس قبل دنیا کی قدیم تہذیب ''مایا''نے اپنے کیلنڈروں (تقویم) کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ 21 دسمبر2012 کوکائنات کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔امریکی ریاست میکسیکو میں پھلنے پھولنے والی اس تہذیب کے مرتب کیے گئے اعداد وشمارکو سامنے رکھ کر ہالی وڈ میں ایک فلم ''اختتام کائنات 2012''تیار ہوئی اور جن لوگوں نے اس فلم کو اسکرین پردیکھا، وہ سہم کر رہ گئے۔ اس فلم کو خلائی ادارے ناسا نے''خلائی سائنس فکشن کا بدترین خیال'' قراردیا،لیکن دوسری جانب بہت سے لوگوں نے کہا کہ ہزاروں برس پرانی اس پیش گوئی کو محض غلط سوچ قراردے کر مسترد کر دینا مناسب نہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عین ممکن ہے مقررہ تاریخ کو کائنات تباہ نہ ہو لیکن کوئی ایسی غیرمعمولی ضرور آئے گی جس سے دنیا کا نظام تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔
قیامت کی پیش گوئی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قدیم امریکی تہذیب مایا کا کیلنڈر21دسمبر2012 کو ختم ہو جاتاہے اور اس کے بعد معلومات کے خانے میں مکمل خاموشی ظاہر کی گئی ہے ۔ دوسری بڑی وجہ مستقبل کا حال بتانے والا چینی طریقہ کار ( I Ching) ہے جو چین کے قدیم ترین '' ٹیکسٹ ایچنگ''میں شمار ہوتا ہے۔ ایک امریکی نے اس کو بنیاد بنا کر اعداد و شمار کا ایک پیچیدہ نظام، ٹیرنس میکنا (Terence-Mcknna) بنایا،اس کے مطابق بھی یہ دنیا 21 دسمبر 2012 کو ہی ختم ہوگی۔ تیسری وجہ عہد حاضر میں عالمی اسٹاک مارکیٹ کے حوالہ سے پیش گوئی کرنے والے طریقہ کار ویب بوٹ (Web Bot) ، جس میں استعمال ہونے والا ایک خاص سافٹ وئیر ہے،اس نے بھی دنیا کے اختتام کی تاریخ 21 دسمبر 2012 بتائی ہے۔ یہ سافٹ وئیر پوری دنیا میںانٹر نیٹ استعمال کرنے والے لوگوں کے الفاظ اور جملوں کو جمع کرنے کے بعد ان کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر اہم واقعات اور رجحانات کے حوالے سے پیش گوئی کرتا ہے۔
مندرجہ بالا پیش گوئیاں مستند ہیں یا نہیں ، یہ الگ بحث ہے لیکن دنیا بھر کے میڈیا نے ان کو غیر معمولی اہمیت دی ہوئی ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے اشاعتی ادارے اور ٹی وی چینلز ان پیش گوئیوں کو بھر پور کوریج دے رہے ہیں تودوسری جانب انٹر نیٹ پر 21 دسمبر کے حوالے سے باقائدہ ویب سائیٹس اور ڈسکشن گروپس بن چکے ہیں۔ اس موضوع پر متعدد کتابیں شائع ہونے کے بعد دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہیں، معروف ٹی وی چینل ڈسکوری اور ہسٹری نے تو اس موضوع پر دستاویزی فلمیں بھی بنا ڈالی ہیں جب کہ کئی ایک ممالک میں قیامت سے بچنے کے لیے اور بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے سروائیول (Survival)کے نام سے گروپ بھی بن چکے ہیں۔
متوقع قیامت کے بارے میںیہ ایک طرف کا منظر نامہ ہے جو تشویش سے بھر پور ہے، جبکہ دوسری طرف کے منظر نامے کے مطابق 21 دسمبر 2012 کے حوالے سے پھیلائی جانے والی تمام سنسنی محض میڈیا کی پھیلائی ہوئی ہے جو وائی ٹو کے ( Y2K) سے مشابہ ہے جس کا غوغا نئی صدی کے آغاز پر اٹھا تھا ۔ دوسرے منظر نامے میں سائنس دان اور عہد حاضر کے اہل علم شامل ہیں، جو ان پیش گوئیوں کو مشہور عالم فراڈ قرار دے رہے ہیں۔ بہ قول ان کے 31 دسمبر 1999 کو بھی نئے سال اور نئی صدی کے آغاز پر اسی طرح کی سنسنی پھیلائی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دنیا بھر کے کمپیوٹر کام کرنا بند کر دیں گے اور کمپیوٹر کا ہر نظام خود بہ خود ناکارہ ہو جائے گا لیکن یہ سب کچھ جھوٹ ثابت ہوا تھا۔
اب آئیے ہم مایا تہذیب کے کیلنڈروں سے ملنے والی معلومات پر غور کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ طے کر لیا گیا ہے کہ قیامت 21 دسمبر کو ہی آئے گی۔ مایا تہذیب کے اہل علم نے وقت کا حساب کرنے کے لیے تین مختلف قسم کے کیلنڈر بنا رکھے تھے اور دنیا کی عمر کو سات مختلف ادوار میں تقسیم کر رکھا تھا۔ کیلنڈروں کے مطابق ہر دور کا خاتمہ کسی نہ کسی بڑی تباہی پر ہو گا۔ دنیا کی عمر کا پانچواں دور 21دسمبر 2012 کو ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد نئے یعنی چھٹے اور ساتویں دور میں کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں مایا لوگوں کا علم مکمل خاموش ہے جس کی وجہ سے سوچ لیا گیا کہ دنیا ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ مکمل خاموشی کے ساتھ ان دو ادوار کا ذکر کیوں کیا گیا؟ اس کا ایک واضح مطلب تو یہ بھی ہے کہ چھٹا اور ساتواں دور ہر حال میں شروع ہو گا لیکن خوف زدہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پانچویں دور کے بعد مکمل خاموشی کا مطلب دنیا کا خاتمہ ہی ہے۔ پانچویں دور سے متعلق کیلنڈر کی یہ بات انسانی دھڑکنوں کو تیز کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس دن سورج اپنی جگہ بدل کر اس کہکشاں کے درمیان چلا جائے گا جس کے ایک سرے پر وقت کا تعین کرنے والی قوتوں کا منبع ہے۔ اگر ایسا ہوتاہے تو پھر یہ تصور کرنا محال ہے کہ زمین پر کیا کچھ بدل جائے گا۔
مایا تہذیب کے لوگ ستاروں کا مکمل علم رکھتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کیوں کہ انھوں نے اپنے علم کے زور پر ہزاروں سال پہلے جو کچھ کہاوہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔ وہ یونانی فلاسفروں سے زیادہ ذہین اورصاحب دانش تھے، انھوں نے یونانیوں سے زیادہ بہتر طریقے سے اعشاریے کے ہزارویں حصے کو دریافت کیا اور اس اہلیت کو استعمال کرتے ہوئے اتنے درست کیلنڈر ترتیب دیے کہ 21 دسمبر 2012 تک کے تمام سورج اور چاند گرہنوں کی جو تاریخیں انھوں نے دیں تھیں وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں۔ وہ لوگ کائنات کی بڑی بڑی کہکشاوں سے بھی واقف تھے، انھوں نے ان کہکشاوں کو اپنے کیلنڈروں میں '' مقدس درخت''کے طور پر ظاہر کیا۔ انھوں نے اپنی ہی تہذیب کے خاتمے سے متعلق جو لکھا وہ بھی درست ثابت ہوا۔ پیش گوئی یہ تھی کہ سمندر کی طرف سے آنے والے حملہ آور مایا تہذیب کو نیست و نابود کر دیں گے اور ایسا ہی ہوا، اسپین سے آنے والے حملہ آوروں نے سمندر کی طرف سے حملہ کیا اور مایا تہذیب صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اسی طرح انھوں نے دو عالمی جنگوں کی بھی خبر دی تھی جو سچ ثابت ہوئی۔
قارئین سچ کیا ہے ؟ اب تک کوئی بھی بات سامنے نہیں آئی۔ البتہ مایا زبان کے جاننے والے کچھ ماہرین کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پتھروں کی سلوں پر کندہ ان پیش گوئیوں کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ 21 دسمبر 2012 کو ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس تاریخ کے بعد دنیا امن، محبت اور بھائی چارے کا گہوارہ بن جائے گی، تمام منفی قوتیں دم توڑ جائیں گی، دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ مایا تہذیب میں وقت کے خاتمے کا کوئی تصور نہیں ،وقت دائرے میں گھومنے والی شے ہے ، وقت کی ایک اکائی ختم ہوتے ہی دوسری شروع ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مایا تہذیب کے مقرر کردہ ہر دور کا خاتمہ اچھا نہیں ہوا۔ ان کے پہلا دور کا خاتمہ ایک ڈائینوسار نما خوفناک بلا کی وجہ سے ہوا، دوسرے دور کا خاتمہ طوفانی ہوائوں سے ہوا، تیسرا دور خوفناک آگ سے ختم ہوا ،چوتھا دور ہولناک سیلاب سے انجام کو پہنچا،اب پانچواں دور ختم ہونے والا ہے اور یہ سوال دنیا کو تنگ کر رہا ہے کہ اس کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ مایا تہذیب اس ضمن میں مکمل خاموش ہے اور آج کی ترقی یافتہ اقوام کی آدھی سے زیادہ آبادی شدید پریشان ہے، سوائے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے جن کا یقین یہ ہے کہ سچائی، حقیقت اور مستقبل کا علم صرف اللہ تعالی کی ذات کو ہی ہے۔
البتہ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ 21 دسمبر 2012 کو جمعہ کا دن بن رہا ہے اور یہ بات مستند احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت جمعہ والے ہو گی لیکن دوسری طرف اِس بات کی نفی یوں ہوتی ہے کہ متعدد احادیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ قیامت محرم الحرام کی دس تاریخ کو آئے گی جب کہ 21 دسمبر 2012 کو صفر کی سات تاریخ بن رہی ہے۔ یہاں ہم اگر آپؐ کی بیان کردہ قیامت سے متعلق علامات کو مدنظر رکھیں تو محسوس ہو گا کہ قیامت کا وقت قریب ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ''قیامت اُس وقت آئے گی جب قیامت پرانے احکامات پر عمل کرنا باعثِ شرم سمجھا جائے گا، جب اسلام مسلمانوں کے لیے اَن چاہا مذہب ہو جائے گا، جب لوگوں میں ظلم اور نفرت عام ہو جائے گی، جب لوگوں کی عمریں مختصر ہو جائیں گی، جب مہینوں، سالوں اور کمائے جانے والے رزق سے برکت اٹھا لی جائے گی، جب بددیانت لوگوں کو دیانت داروں کا درجہ دے دیا جائے گا اور دیانت دار لوگوں کو بددیانت سمجھا جانے لگے گا، جب جھوٹوں کو سچا اور سچوں کو جھوٹا تصور کیا جائے گا اور جب بغاوت خون ریزی اور معاشرے میں انتشار عام ہو جائے گا''۔ دیکھا جائے تو یہ قیامت کی وہ علامات ہیں جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں نہ صرف دیکھ رہے ہیں بل کہ شدت سے محسوس بھی کررہے ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود ہر مسلمان کا یہ کامل ایمان ہے کہ قیامت کے اصل وقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔
مایا کیلنڈر کا آغاز 3113 قبل مسیح سے ہوتا ہے اور کیلنڈر کے ایک دور کا خاتمہ 5125 برسوں پر محیط ہے، ایک جرمن ماہر کے بہ قول اس دور کے خاتمے پر مایا دیوتا آسمانوں سے اُتر کر نئے دور کی بنیاد رکھے گا، 21 دسمبر 2012 کی اہمیت صرف علامتی ہے کیوں کہ یہ دن مایا تہذیب میں تخلیق نو کا ایک خاص اشارہ ہے، یہ دن مایا دیوتائوں کے حساب سے تو اہم ہو سکتا ہے لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں کہ بنی نوع انسان کے لیے بھی یہ دن اہم ہو۔ جرمن ماہر کے مطابق 21 دسمبر 2012 کے بارے میں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں، تبدیلیاں کائنات کا لازمی حصہ ہیں، ممکن ہے یہ کسی بڑی تبدیلی کا دور ہو یا ایسی تبدیلی ہو جس کا تعلق نفی کی بجائے ثبت سے ہو ۔
مایا تہذیب کی قیامت سے متعلق پشین گوئیوں کے بارے میں تاریخ سے متعلق اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ دسمبر 2012 کی 21 یا 23 تاریخ کو کسی بڑی تباہی سے منسوب کیا گیا ہے کیوںکہ یہ پیش گوئیاں جن پتھروں کی سلوں پر کندہ ہیں وہ اتنی شکستہ ہو گئی ہیں کہ اُن کا بہت سا حصہ پڑھا نہیں جا سکتا لہٰذا کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا۔ جرمن ماہرسوین گرونیئر کے مطابق مایا تہذیب میں وقت کا تصور موجودہ عہد کے وقت کے تصور سے بہت مختلف تھا، اس لیے قیامت کی درست تاریخ کا تعین کرنا بہت مشکل کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دنیا کے یکسر خاتمے کا وقت ہرگز نہیں بل کہ ایک دور کے خاتمے کا وقت ضرور ہو سکتا ہے، اِس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پتھر کی سِل پر لکھا ہوا جو حصہ پڑھا جا سکتا ہے اُس کی رُو سے بھی یہ ضروری نہیں کہ دنیا ختم ہو جائے گی، اصل میں یہ اہل مغرب کا تصور ہے کہ مایا تہذیب کے مطابق دنیا 2012 میں ناگہانی آفت کی وجہ سے ختم ہو جائے گی۔ یاد رہے جرمن ماہر مایا کیلنڈر پر برسوں سے تحقیق کر رہے ہیں اور قدیم زبانوں کو پڑھنے کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مایا کیلنڈر کے مطابق 4 سو سال کے 13 ویں پیریڈ یعنی 21 دسمبر 2012 کو مایا دیوتا بلون یوکیٹی کی واپسی سے متعلق پیش گوئی پر کئی برسوں سے تحقیق کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مغرب میں 13 نمبر کو نحس عدد سمجھا جاتا ہے لیکن مایا تہذیب میں اِس عدد کو مبارک اور مقدس خیال کیا جاتا تھا، مغرب نے اپنی توہم پرستی کی بنیاد پر اس عدد کو نحس سمجھتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ دنیا تباہ ہو جائے گی لیکن میرے خیال کے مطابق اس عدد کا تباہی کے عنصر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دو ہزار قبل وسطی امریکا میں جنم لینے والی اِس تہذیب کے ماہرین نے اپنا علم نجوم جن بنیادوں پر بنایا تھا وہ نہایت پیچیدہ تھا۔ مایا کیلنڈر انتہائی طویل پیمائشوں اور اعداد و شمار پر مشتمل تھے، اِن کی اِس طویل گنتی کا خاتمہ 21 دسمبر 2012 کو ہی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ مشہور کر دیا گیا کہ کرۂ ارض کسی بڑی تباہی سے اسی تاریخ سے دوچار ہو گا۔ انھوںنے کہا، میرے خیال میں یہ بالکل غلط ہے، علم نجوم کی رُو سے اِس سال عالمی سطح پر کسی بڑی شورش، ہنگامہ آرائی یا قدرتی آفت کا خطرہ ضرور ہے لیکن دنیا ختم ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
اس دن کے حوالے سے قدیم بھارت کی تہذیب ہندومت کو جب دیکھا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ان کی پیش گوئیوں اور مایا تہذیب کی پیش گوئیوں میں حیرت انگیز مماثلت ہے، بھارتی علم نجوم کی رُو سے دنیا اِس وقت کلجگ، یا کلیگ سے گزر رہی ہے۔ علم نجوم کی رُو سے یہ بدترین دور ہوتا ہے۔ اِس کا آغاز بھارتی قدیم علوم کے مطابق 3102 قبل مسیح سے ہوا، اِس کا کل دورانیہ 5 ہزار برس کے برابر ہے، ہندو علم کی دی ہوئی مدت گو کہ21 دسمبر 2012 کے خاصی قریب دکھائی دے رہی ہے، جس کے مطابق دنیا کے برے دور کی ابتداء 3114 قبل مسیح سے ہوئی تھی اب اِس دور کا خاتمہ ہونے والا ہے، اگر اِس بات کو بھی درست تسلیم کر لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اِس دور کے بعد ایک سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے جو امن، سلامتی، خوشی اور خوشحالی کی ابتدا کرے گا۔ہندو علم کے مطابق اِس دور کا آغاز کسی روحانی شخصیت کے وجود سے قائم ہو گا۔