یہ ہیں انسانی حقوق کے علم بردار
امریکا کی حراست میں 200 افغان بچے.
دنیا بھر میں قانون کی بالادستی کا راگ الاپنے والے ملک امریکا نے دنیا بھر میں لاقانونیت کا جال بچھا رکھا ہے، جس کا ثبوت وہ 200 افغان بچے ہیں، جنہیں افغانستان میں امریکا کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ کے دوران قید میں رکھا گیا ہے۔
یہ معلومات امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کے جنیوا کنونشن کی چار سالہ رپورٹ میں پیش کی ہیں۔ اس رپورٹ میں امریکا نے اعتراف کیا ہے کہ ان بچوں کو بگرام ایر فیلڈ کی جیل میں 2008 سے بطور دشمن قیدی حراست میں رکھا گیا تھا، جن میں سے بیشتر بچوں کو افغانستان کی حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ تاہم کچھ بچوں کو ابھی تک کابل کے شمال میں واقع پروان صوبے کی جیل میں قید رکھا ہوا ہے۔
دوسری طرف انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ''ٹینا ایم فوسٹر'' کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے برعکس پروان جیل میں اس وقت بھی ہزاروں بچے قید ہیں، جنہیں امریکی فوج نے صرف اس لیے حراست میں رکھا ہوا ہے کہ یہ بچے میدان جنگ سے دور رہیں۔ لیکن ان بچوں کی حالت قابل افسوس ہے، کیوں کہ دورانِ قید ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی حالت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی، بل کہ نوعمر بچوں کی قید کی مدت کے بین الاقوامی قانون کے برعکس انہیں ایک سال سے زاید عرصے سے قید میں رکھا ہوا ہے، جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔
اس معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان بچوں پر کسی قسم کے جرم کے ارتکاب کا الزام بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان بچوں کو کسی محاذ پر لڑتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ ٹینا ایم فوسٹر کا مزید کہنا ہے کہ ایسے گھرانے جہاں چار سے پانچ بھائی ایک ساتھ رہتے تھے، ان گھرانوں سے نو عمر بچوں کو حراست میں لے کر قید کیا گیا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم امریکن سول لبرٹی یونین برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر ''جمیل داکوار'' اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیدی بنائے جانے والے بچوں کی عمریں محض دس سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے 2008 میں پیش کی گئی۔ رپورٹ میں امریکی افواج کی جانب سے عراق میں پانچ سو عراقی بچوں اور بگرام جیل میں محض 10 بچوں کی حراست ظاہر کی گئی تھی۔ n
یہ معلومات امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کے جنیوا کنونشن کی چار سالہ رپورٹ میں پیش کی ہیں۔ اس رپورٹ میں امریکا نے اعتراف کیا ہے کہ ان بچوں کو بگرام ایر فیلڈ کی جیل میں 2008 سے بطور دشمن قیدی حراست میں رکھا گیا تھا، جن میں سے بیشتر بچوں کو افغانستان کی حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ تاہم کچھ بچوں کو ابھی تک کابل کے شمال میں واقع پروان صوبے کی جیل میں قید رکھا ہوا ہے۔
دوسری طرف انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ''ٹینا ایم فوسٹر'' کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے برعکس پروان جیل میں اس وقت بھی ہزاروں بچے قید ہیں، جنہیں امریکی فوج نے صرف اس لیے حراست میں رکھا ہوا ہے کہ یہ بچے میدان جنگ سے دور رہیں۔ لیکن ان بچوں کی حالت قابل افسوس ہے، کیوں کہ دورانِ قید ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی حالت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی، بل کہ نوعمر بچوں کی قید کی مدت کے بین الاقوامی قانون کے برعکس انہیں ایک سال سے زاید عرصے سے قید میں رکھا ہوا ہے، جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔
اس معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان بچوں پر کسی قسم کے جرم کے ارتکاب کا الزام بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان بچوں کو کسی محاذ پر لڑتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ ٹینا ایم فوسٹر کا مزید کہنا ہے کہ ایسے گھرانے جہاں چار سے پانچ بھائی ایک ساتھ رہتے تھے، ان گھرانوں سے نو عمر بچوں کو حراست میں لے کر قید کیا گیا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم امریکن سول لبرٹی یونین برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر ''جمیل داکوار'' اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیدی بنائے جانے والے بچوں کی عمریں محض دس سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے 2008 میں پیش کی گئی۔ رپورٹ میں امریکی افواج کی جانب سے عراق میں پانچ سو عراقی بچوں اور بگرام جیل میں محض 10 بچوں کی حراست ظاہر کی گئی تھی۔ n