ملالہ اور اس سے آگے
ملالہ نے ثابت کیا ہے اور دنیا نے مان لیا ہے کہ پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خاتمے میں پر جوش اور مخلص ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پرصدر زرداری نے پیرس میں ملالہ کانفرنس میں شرکت کی۔یہاں فیصلہ ہوا کہ ملالہ کے نام پر تعلیم کے فروغ کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے گا اور ہر سال ملالہ کی سالگرہ کو بھی تعلیم کا پیغام عام کرنے کے لیے منایا جائے گا۔عالمی رہنمائوں نے ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کی سفارش بھی کی ہے، فرانس کی پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت نے بھی ایک پیٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملالہ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا جائے، اس سے قبل صدر زرداری نے برطانیہ کے برمنگھم اسپتال میںملالہ کی عیادت کی اور اس کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ملالہ کے والد کو یونیسکو میں تعلیم کا مشیر نامزد کر دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ نے انتہا پسندی کا جرات کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی، وہ تو اس کی خوش قسمتی ہے کہ جان بچ گئی ورنہ گولی تو اس کا بھیجا چیرتے ہوئے کندھے کی ہڈی میں جا پھنسی تھی، پشاور اور راولپنڈی کے اسپتالوں میں اسے بہترین طبی امداد دی گئی اور پھر مزید علاج کے لیے برمنگھم منتقل کر دیا گیا جہاں وہ تیزی سے صحت یاب ہو رہی ہے۔ ملالہ تو ایک بارہ سالہ بچی کا نام ہے مگر در حقیقت وہ حوصلے اور دلیری کی علامت کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ملالہ کی دلیری نے پاکستان کے خلاف اس مذموم پراپیگنڈے کا بھی منہ بند کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس کی کوششیں خلوص پر مبنی نہیں ہیں۔ امریکی میڈیا، بلکہ امریکی حکومت بھی یہ کہتے نہیں تھکتی کہ پاکستان ڈبل گیم میں مصروف ہے لیکن ملالہ کی بے مثال جرات نے اس بلیم گیم کو، ہمیشہ کے لیے نہیں تو کم از کم وقتی طور پر، بے بنیاد ثابت کر دیا ہے، جس ملک کی نو عمر بچیاں بھی انتہا پسندی سے خوف نہ کھاتی ہوں، وہ ملک دہشت گردوں کے معاملے میں دوہرے کردار کا مالک کیسے ہو سکتا ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا نے ملالہ کیس کو بڑھا چڑھا کر استعمال کیا ہے۔لیکن کیا کوئی ذی ہوش اس سانحے سے انکار کر سکتا ہے جو ملالہ کے ساتھ پیش آیا، کیا اس لڑکی نے ایک خطرناک ماحول میں حوصلے کی قندیل روشن نہیں کی۔
ملالہ نے ثابت کیا ہے اور دنیا نے مان لیا ہے کہ پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خاتمے میں پر جوش اور مخلص ہیں۔ پاکستان کی جس فوج کو طعنوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کے سات ہزار افسر اورجوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔اتنی قربانیاں اس مختصر سے عرصے میں خود امریکی اور اتحادی افواج بھی پیش نہیں کر سکیں۔حکومت پاکستان کو بھی ہر طرح کی تنقید کا سامنا ہے لیکن سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پہلا امریکی دورہ کیا تو برملا کہا کہ یہ جنگ امریکا کی نہیں ، پاکستان کی ہے کیونکہ اس میں ان کی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا ہے اور تیس ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو بھی شہید کیا گیا ہے۔ اب اگلا مرحلہ درپیش ہے جو امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی اور اس کے بعد سے شروع ہو گا۔اس میں فیصلہ ہونا ہے کہ افغانستان کی کیا شکل و صورت نکلتی ہے اور اس کا مدارلمہام کون بنتا ہے۔ پاکستان پہلی افغان جنگ میں بھی ہر طرح کی قربانی دینے کے باوجود سراسر نقصان میں رہا اور اسے ایک غیر مستحکم افغانستان سے سابقہ پیش آیا۔لسانی، نسلی، علاقائی، فرقہ وارانہ تقسیم نے ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا، ہم کلاشنکوف اور ہیروئن مافیا کے چنگل میں جکڑ کر رہ گئے۔اب پھر یہی عالم ہے، تما تر قربانیوں کے ثمرات کسی ایک غلطی کی وجہ سے ضایع جا سکتے ہیں۔پاکستان کو بے حد محتاط ہو کر چلنا ہوگا۔
امریکی سپر پاور کی خواہشات کو سمجھتے ہوئے اپنے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔امریکا کے آیندہ کے عزئم ڈھکے چھپے نہیں،گزشتہ روز ہی میری قاضی حسین احمد سے طویل ملاقات ہوئی اور انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ امریکا اس علاقے سے مکمل انخلا نہیں چاہے گا، وہ اپنے بعض اڈوں کو قائم رکھے گا، دوسرے اسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے پر خاش ہے، وہ اسے اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کرتا ہے، اس لیے اس کی کوشش ہوگی کہ وہ علاقے پر اپنا تسلط کسی نہ کسی صورت برقرار رکھے۔ملالہ فیکٹر کو جو اس قدر اچھالا جارہا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ پاکستان کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں جھونکے رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہمارے وسائل اس کی بھینٹ چڑھ کر رہ جائیں۔اور ہم اپنے عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دینے کے قابل نہ ہو سکیں ، ایک غیر مستحکم پاکستان اسرائیل اور بھارت کو بھی سوٹ کرتا ہے۔وہ ہمارے ایٹمی دانت نکال دینے کی فکر میں ہیں، اس منظر نامے میں ہماری ذمے داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیئں ، ہمارے اداروں کو باہم ٹکرانے کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے، ہمارے بیرونی دشمن اس قدر سرگرم ہیں کہ ہماری ذرا سی کوتاہی خدا نخواستہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
اب ہمارے اگلے الیکشن سر پر ہیں۔ ان کا وقت پر انعقاد بے حد ضروری ہے، ان میں تمام جماعتوں کی شرکت بھی ہونی چاہیے اور عوام کو سوچ سمجھ کر اپنے منڈیٹ کا اظہار کرناچاہیے۔کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو پھر ہنگ پارلیمنٹ ہماری تقدیر کو سنبھالا دینے کے قابل نہیں ہو گی۔ ہمیں جمہوری نظام کو کامیابی سے آگے بڑھانا ہوگا۔ہمیں اپنی افواج پر اعتماد کا اظہار کرنا ہوگا تاکہ وہ یکسوئی سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فتنے کو کچل سکیں ، بلوچستان میں تو علیحدگی پسند عناصر کھل کھیل رہے ہیں اور ان سے بھی ہماری فوج اور سیکیورٹی سے متعلق ایجنسیوں کو ہی نبٹناہے لیکن اگر ہم ان دفاعی اداروں کو الزامات کی دلدل میں گھسیٹتے رہے تو پھر قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اور عالمی قوتیں ہمارے اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ملالہ اور اس کے ساتھ دنیا کی ہمدردی بلا وجہ نہیں ہے۔ہمیں اس حقیقت کا جس قدر جلد ادراک ہو جائے، اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔امریکا تو طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے بھی مذاکرات کا راستہ نکال رہا ہے، قطر، ترکی یا پیرس میں طالبان کو دفاتر کھولنے کی سہولتوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔مگر ہمیں ان سے لڑنے بھڑنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان عناصر کی نظر کرم بھی پاکستان پر ہے اور آئے روز ہماری رگوں سے خون بہایا جا رہا ہے، نکلنے کو تو امریکا عراق سے نکل چکا لیکن عراق میں خوں ریزی بند نہیں ہوئی، آئے روز وہاں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔افغانستان میں امریکا کی کم سے کم موجودگی بھی یہی گل کھلائے گی۔اور ہم ایک عذاب مسلسل میں گرفتار رہیں گے،ملالہ کا سانحہ گزر گیا، اب ہمیں اس سے آگے دیکھنا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، برسلز میں ہمارے وزیر خارجہ، سیکریٹری خارجہ اور آرمی چیف نے مذاکرات میں شرکت کی، پھر آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف ترکی میں کسی کانفرنس میں چلے گئے، توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے ارباب بست و کشاد قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور اگر انھیں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو انھیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ ہم جس واحد کی طرح ان مشکلات سے نبٹ سکیں۔