دہشت گردی کا ایک المناک پہلو
قانون اور انصاف کو ان مجرموں کو سزا دینے کی ذمے داری سونپ دی، چور اور چوکیدار دونوں کا تعلق غریب طبقے ہی سے ہوتا ہے
انسانی تاریخ کا یہ بڑا عجیب المیہ ہے کہ آپ تاریخ کے کسی دور پر نظر ڈالیں انسان، انسان سے برسر پیکار نظر آئے گا،اس المیے کا ایک دلخراش پہلو یہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں غریب، غریب ہی کا گلا کاٹتا نظر آتا ہے۔ ماضی کی نیزے، برچھے اورتیر وتلوار کی جنگیں ہوں یا حال کی راکٹوں، میزائلوں، جنگی جہازوں، ٹینکوں کی جنگیں ہوں، جنگیں لڑنے اور ایک دوسرے کا خون بہانے والوں کا تعلق غریب طبقے ہی سے رہا ہے۔ فوج، پولیس سمیت ہر قسم کی سیکیورٹی فورسز پر نظر ڈالیں تو یہ بدنما حقیقت ہی سامنے آتی ہے کہ مرنے اور مارنے والے دونوں ہی عموماً غریب طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ غریب طبقے کو ایک دوسرے کا خون بہانے پر آمادہ کرنے، ایک دوسرے کا خون بہا کر فخر کرنے اور ایک دوسرے کا خون بہانے کو مقدس فرض گرداننے کے لیے قوم و ملک، مذہب و ملت سمیت بہت سارے حوالوں کو استعمال کیا جاتا رہا اور آج بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے تو غریبوں کو غریبوں سے لڑانے کا ایک ایسا خودکارمیکنزم بنادیا ہے کہ قدم قدم پر غریب آپس میں دست وگریباں نظر آتا ہے۔ اس نظام نے ایک غریب کو چور ڈاکو بننے پر مجبورکیا، دوسرے غریب کو وردی پہنا کر پولیس یا رینجرز کا سپاہی بناکر کھڑا کردیا۔ قانون اور انصاف کو ان مجرموں کو سزا دینے کی ذمے داری سونپ دی، چور اور چوکیدار دونوں کا تعلق غریب طبقے ہی سے ہوتا ہے، لیکن ان دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا گیا۔ ایک بس میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافر جانوروں کی طرح سفر کرتے ہیں اور آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ سیلاب زدگان کو بھوکوں مرنے سے بچانے کے لیے جب کوئی ٹرک غذائی اشیاء لے کر سیلابی علاقے میں پہنچتا ہے تو غریب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور روٹی چھیننے کی جنگ میں ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکن مختلف طلباء تنظیموں سے تعلق رکھنے والے طالب علم آئے دن ایک دوسرے پر ڈنڈے برساتے ہیں، گولیاں چلاتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں، ان سب سادہ لوح بندوں کا تعلق عموماً غریب طبقے ہی سے ہوتا ہے۔ دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ بنی ہوئی ہے، جگہ جگہ خون بہہ رہا ہے۔
جب ہم طبقاتی حوالے سے دہشت گردی کے مسئلے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ المناک پہلو ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہر جگہ ہر حوالے سے مرنے اور مارنے والوں کا تعلق ایک ہی طبقے یعنی غریب طبقے سے ہے۔ دہشت گردی خواہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو، فقہی اختلاف کی وجہ ہو یا کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے ہو، ہر جگہ مرنے اور مارنے والوں کا تعلق غریب طبقے ہی سے ہوتا ہے، دہشت گردی میں ملوث غریب طبقے کے افراد دو طرح سے دہشت کا ارتکاب کرتے ہیں، ایک ناخواندگی اور جہل کی وجہ سے اپنے رہنماؤں کی اس بات پر یقین کرنے والے ہوتے ہیں کہ دہشت گردی دین و ایمان کا تقاضا ہے اور خودکش حملوں میں مارا جانے والا سیدھا جنت میں جائے گا۔ دوسرا کردار کرائے کے قاتلوں کا ہے جو اپنی معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے معاوضہ لے کر قتل کرتے ہیں، ان کا تعلق بھی غریب طبقے ہی سے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی غریب آبادیوں ہی میں پھلتی پھولتی ہے، ڈیفنس یا کلفٹن جیسی آبادیاں دہشت گردی کے اڈے نہیں ہوتے۔
دہشت گردی یا مذہبی انتہا پسندی کا ایک اور دلچسپ اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کی قیادت بھی لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس کے مجاہدین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اس کا ایک اور اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گرد قتل تو کسی ایک یا چند افراد کو کرتا ہے لیکن ایک یا چند مارے جانے والوں کے ساتھ ان کے پورے خاندان بھی معاشی طور پر قتل ہوجاتے ہیں، یہی حال خودکش بمباروں کا ہے، وہ خودکش حملوں میں خود تو مارے جاتے ہیں لیکن ان کے بعد ان کے خاندان معاشی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ ایسی المناک داستانیں ہیں جن پر ادیبوں، شاعروں کو بھی توجہ دینی چاہیے اور اپنی تحریروں میں ان المیوں کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ دہشت گردی کا خوفناک چہرہ عوام کی نظروں میں آسکے۔ مارے جانے والے احمقوں کے اہل خاندان جن مسائل کا شکار ہوتے ہیں، ان کی لرزہ خیزی کا شاید نہ ہمارے اہل سیاست کو اندازہ ہے نہ حکمرانوں کو نہ خود دہشت گردی کی قیادت اور حمایت کرنے والے محترم لوگوں کو ہے۔
دہشت گردی کے اس کلچر کا آغاز تو روس کے خلاف امریکی جہاد سے ہوا لیکن اس کے فروغ، اس کی شدت اور اس کی انتہا افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران ہوئی۔ امریکا کے منصوبہ سازوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کی نظر آنے والی صدیوں پر بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روس کے خلاف جہادیوں کو استعمال کرنے والے شاطر کیا موجودہ دہشت گردی کو اپنے کسی طویل المدتی پروگرام کا حصہ تو نہیں بنا رہے ہیں؟ سامراجی نظام کی بقاء مظلوم عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے میں مضمر ہے۔ اس حوالے سے جب ہم دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ عجیب و غریب صورت ہمارے سامنے آتی ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کا رخ امریکا اور نیٹو کے بجائے پاکستانی عوام، پاکستانی حکومت کی طرف کیوں ہوگیا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے؟
پاکستان مسلم دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار مستقبل میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ایران ایٹمی طاقت بننے جارہا ہے اور امریکا کو ایٹمی ایران کسی قیمت پر قبول نہیں، امریکا ایران کو ایٹمی طاقت سے بننے سے ہر قیمت پر روکنا چاہتا ہے۔ اس نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر براہ راست حملوں کے علاوہ بالواسطہ ایران پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ شام ایران کا چالیس سالہ پرانا دوست ملک ہے۔ شام میں مسلمانوں کے گروہ آپس میں برسر پیکار ہیں اور امریکا بشارالاسد کی آمریت کے خاتمے کے لیے شام میں ان کی مخالف طاقت کی حمایت کر رہا ہے اگر شام میں یہ طاقت بشارالاسد کی جگہ لے لیتی ہے تو ایران کو اس کا ایک بڑا نفسیاتی اور تزویراتی نقصان ہوگا اور ہوسکتا ہے امریکا براہ راست حملے سے بچتے ہوئے ایسے ہی دوسرے دباؤ کے ذریعے ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردے۔ پاکستان میں دہشت گردی جس انتہا کو پہنچ گئی ہے، اس پس منظر میں ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے قبضے میں جانے کے خطرے کے حوالے سے کیا پاکستان کے ایٹمی ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لینے کا جواز مہیا نہیں ہوسکتا؟ بات دہشت گردی کے کردار سے چلی تھی اور پہنچی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں تک، کیا فقہی خون خرابہ امریکی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہوسکتا؟ وجہ اور ضرورت خواہ کچھ بھی ہو ہر جگہ مرنے اور مارنے والے غریب ہی ہیں۔