تبدیلی کب آئے گی
مجھے یہ شعر اس وقت بہت یاد آتا ہے جب میں پاکستانی عوام کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتا دیکھتا ہوں
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برسوں پہلے اپنی شاعری میں قوم کو ایک ولولہ انگیز پیغام دیا تھا۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
مجھے یہ شعر اس وقت بہت یاد آتا ہے جب میں پاکستانی عوام کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتا دیکھتا ہوں۔کچھ عرصے قبل پورے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت کے ستائے ہوئے عوام کے مظاہرے جابجا دکھائی دے رہے تھے۔ محرومی ونارسائی جب حد سے بڑھی تو عوام ہتھے سے اکھڑ ہی گئے۔ عوام کا ایک سیلاب جابجا امڈ آیا جیسا کچھ عرصے پہلے تیونس، مصر اور لیبیا میں امڈ آیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ان ممالک کے عوام اپنی نااہل وکرپٹ، غاصبانہ سوچ کی حامل اور ظلم وجبر سے لبریز حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئے تھے اور ہمارے عوام ابھی چونکہ اصل ذمے داران کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے مالا مال نہیں ہے اور شاید ہماری قوم کی قوت برداشت دوسری قوموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔یا تقسیم در تقسیم ہوکر کسی بڑے انقلاب کے لیے تیار نہیں ہوپاتی، اس لیے عوام تاحال فقط لوڈ شیڈنگ و مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ عوام کو درپیش دیگر مسائل کے لیے خود عوام کا احتجاج شاید اس لیے بھی ناپید ہے کہ ان کو ملک میں کوئی ایسی لیڈر شپ نظر نہیں آتی جو موجودہ حکمرانوں کی جگہ لے سکے۔
عوام بہرحال یہ سمجھ چکے ہیںکہ صرف چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ حکمرانوں کی تبدیلی کے بعد بھی یہی جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کا حامل طبقہ اشرافیہ جو قیام پاکستان کے چند برسوں بعد سے ہی ہم پر جدی پشتی حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے ان ہی میں سے پھر کوئی ملک پر قابض ہوجائے گا اور کچھ عرصے بعد عوام اور ملک کا یہی حال ہوگا جو ابھی ہے یعنی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اقتدار کی تبدیلی پاکستان میں ایک ایسا پسندیدہ میوزیکل چیئر گیم بن چکا ہے جس میں ہمارے سیاستدان پوری تندہی سے شامل ہیں۔ ہمارے لیڈران عوام کو محض اپنے اپنے مفادات کی خاطر استعمال میں لاتے ہیں، ہمارے عوام کبھی یہ بات نہیں سمجھ سکیں گے کہ موجودہ حکومت کے اس طویل دور اقتدار میں عوام شروع دن سے ہی مہنگائی، بیروزگاری، ٹیکسز کی بھرمار،ٹارگٹ کلنگ ، ذخیرہ اندوزی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا تنہا ہی سامنا کررہے تھے، تب عوام کے احتجاج میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے خواہشمند یہ سیاستدان کہاں تھے؟ اور اب کہاں سے اور کیوں انھیں عوام کو درپیش تکالیف کی یاد آگئی؟ آج انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی ہر سیاستدان یہ کہتا نظر آرہا ہے کہ ہم عوام کی طاقت سے موجودہ کرپٹ حکمرانوں کو گھر بھیج دیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کو عوامی طاقت کا تو بہت خیال ہے مگر رہنمائوں میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک کراچی میں بلڈنگ سے گر کر ہلاک ہونے والے نوجوان کے اہل خانہ کی مالی مدد کرنے نہیں پہنچا، بلکہ صورتحال یہ ہے کہ الٹا غمزدہ بوڑھے والدین بیٹے کی حادثاتی موت کا زخم دل پر لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو عوام سے، عوامی مسائل سے، عوام کو درپیش تکالیف سے غرض ہے یا صرف اپنے اقتدار میں آنے سے۔ اصل بات یہ ہے کہ اب میوزیکل چیئر گیم کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ سیاسی رسہ کشی زور پکڑرہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے امریکا اب زیادہ خوش نظر نہیں آتا، ڈو مورکے مطالبات تشویش اختیار کرتے جارہے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ، بدترین قتل وغارت ، اور سی این جی کی قلت کا شکار عوام پہلے ہی سڑکوں پر ہے یعنی صرف چنگاری کو ہوا دینے کی دیر ہے۔
اگر ہم ایک نئی صبح کے خواہش مند ہیں تو ہم سب کو اپنا اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا۔ مرض معلوم نہ ہو سکے تو یہ بدقسمتی ہے لیکن اگر تشخیص کے بعد بھی علاج سے گریز کیا جائے تو افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سیاست کا مرض اصل میں ہے کیا؟ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا خاتمہ کہاں جاکر ہوتا ہے؟ اور غربت کو ناپنے والا پیمانہ کونسا ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو اکثر ذہنوں میں اٹھتے ہیں اس لیے ان کے جواب بھی ضروری ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت، جاگیرداروں اور طاقتوروں کا ظلم و ستم، احتساب سے بے نیاز یا ظالمانہ احتساب سے خوفزدہ نوکرشاہی، یہ ہے وہ وائرل انفیکشن جس میں ہمارا سیاستدان مبتلا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے موجودہ حکومت کی خوش قسمتی رہی یا پھر مہنگائی، پژمردگی اور مایوسی کے پاٹ میں پسی ہوئی زخموں سے نڈھال عوام کی بدقسمتی کہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے حالات پیدا ہوگئے یا ازخود پیدا کردیے گئے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرتی نظر آرہی ہے اور عوام کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھنے کے بجائے اس پوری ہوتی ہوئی حکومتی مدت کو جمہوری حکومت کی کامیابی قرار دیے جانے کا سرکاری راگ الاپا جا رہا ہے۔
ملک میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ اس سے قبل بھی ہر دور میں رہی ہے۔ اگر خلوص دل سے صورتحال کو سنبھالنا مقصود ہوتا تو یہ کب کی سنبھل چکی ہوتی مگر ہمارے حکمران تو بس کرسیاں سنبھالنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اس سے ذاتی فائدہ اٹھانے کے چکر میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جارہا ہے، دونوںطرف غلط فہمیاں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں۔ یہی دوریاں اور غلط فہمیاں اکثر اوقات حوادث پیدا کرتی ہیں۔ جس معاشرے میں انصاف اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی جائیں وہاں پھر ماضی میں برپا ہوئی کراچی، کوئٹہ، گجرانوالہ اور لاہور جیسی لاقانونیت جنم لیتی ہے اور جہاں لاقانونیت کا دور دورہ ہو وہاں لوگ خود قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور انصاف دینے اور دلانے کے لیے عدالتوں کے بجائے سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔ جب مظلوم عوام سڑکوں پر نکلتی ہے تو حالات کیا ہوجاتے ہیں یہ کسی حکمران یا اپوزیشن سے پوشیدہ نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ پاکستان کی صورتحال قابل تعریف نہیں ہے۔ ماضی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ غیر سیاسی ٖفیصلوں اور غیر سنجیدہ قیادت کے غیر ذمے دارانہ رویے نے قومی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچایا ہے۔ 1971 کا سقوط ڈھاکا بھی اسی غیر ذمے دارانہ رویے کا مظہر تھا۔
پاکستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس میں سیاستدانوں کو میوزیکل چیئر گیم کی تگ و دو سے باہر نکل کر حق و سچ کہنے کی جرأت کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے حق کی آواز بلند کرنے والوں کا ساتھ بغیر کسی لالچ کے دینا چاہیے نہ کہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی سعی کی خاطر۔ پاکستان میں اس وقت عوام کا کو ئی پرسان حال نہیں۔ صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی موثر ادارہ نہیں بن سکا، مہنگائی نے ہر گھر کا بجٹ متاثر کر رکھاہے، سی این جی کی علانیہ و غیر علانیہ بندش نے عوام کو دھکے کھانے اورگاڑیوں کو دھکا لگانے پر مجبور کردیا ہے۔
روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے رفتہ رفتہ غریب عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے، تنخواہوں اور پینشن میں 15 فیصد جب کہ مہنگائی میں 100فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ معلوم نہیں وہ دن کب آئے گا جب حکمرانوں اور عوام کے مسائل یکساں ہونگے؟ ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکمرانوں کے بدلنے سے تقدیریں بدلنے لگیں گی، بیماروں کو دوا، بھوکوں کو غذا اور ستم زدوں کو نجات مل سکے گی۔ اگر محض چہرے بدل ڈالنے سے ملک کی تقدیر بدل سکتی تو ان 65 برسوں میں عوام کا کچھ تو بھلا ہوا ہوتا۔ حکمرانوں کے چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، کسی ایک کی رخصتی پر ظلم تمام ہوتا ہے اور نہ ہی خیر کی فصل لہلہاتی ہے۔ اجتماعی عوامی شعور کا یہی وہ لمحہ ہے جو قوموں کی زندگی میں اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے اور یہاں فتح و شکست نہیں، منزل کی طرف سفر کرنا ہی مقصود ہوتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران بھی اس بڑھتے ہوئے عوامی اجتماعی شعور کا احساس کرلیں۔