مشترکہ ذمے داری
بدقسمتی سے وطن عزیز گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے برطانیہ کے حالیہ دورے میں اپنی چھوٹی بیٹی آصفہ کے ہمراہ برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال میں سوات کی بہادر بیٹی ملالہ یوسف زئی کی عیادت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم ملالہ کی جرأت، بہادری پر فخر کرتی ہے وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم کا عزم بن کر ابھری ہے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف مشن کو جاری رکھے گا۔
بدقسمتی سے وطن عزیز گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے۔ خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ اس کی پہچان بنتے جا رہے ہیں،کراچی سے لے کر خیبر تک ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دہشت گرد عناصر اور شدت پسندوں نے اپنے ٹھکانے نہ بنا رکھے ہوں،طالب علموں سے لے کر تاجروں تک علمائے دین سے لے کر اساتذہ کرام تک اور ڈاکٹروں سے لے کر عام مزدوروں تک ہر طبقہ فکر کے لوگ دہشت گردوں کی خوراک بنتے جارہے ہیں، لیکن ان کے خون کی پیاس بجھنے میں نہیں آرہی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پولیس، رینجرز، سی آئی اے، ایف سی اور فوج کے جوان جو دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں کئی برسوں سے شدت پسندوں کو کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن تاحال دہشت گردی کے خوفناک عفریت پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہو رہی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارا ملک لبرل اور انتہا پسند دو واضح حلقوں میں تقسیم ہے اگرچہ مذہبی وغیر مذہبی ہر دو حوالوں سے اختلاف رائے تو پاکستانی معاشرے میں ہمیشہ سے موجود رہا تاہم جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ایسے رجحانات کو فروغ ملا اور روس کے خلاف جہاد افغانستان نے تشدد، مذہبی انتہا پسندی کو جلا بخشی اور طالبان کے جنم نے تو حجت تمام کردی لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جہاد افغانستان سے فراغت کے بعد غیر ملکی جنگجوؤں نے بڑی تعداد میں پاکستان کو اپنے لیے محفوظ علاقہ سمجھتے ہوئے یہاں اپنے قدم جمانا شروع کردیے۔ کہا جا رہا ہے کہ آٹھ ہزار کے لگ بھگ غیر ملکی جنگجو پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ 2008ء میں حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کی اکثریت شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کے علاقوں میں موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں اپنے ایجنٹوں کو طالبان اور القاعدہ کے بھیس میں افغانستان کے سرحدی علاقوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل کر رہی ہیں اور انھیں مختلف قسم کے لالچ دے کر اپنا شریک کار بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جوکہ نہ صرف اسلام آباد بلکہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد جب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو اس کا پہلا نشانہ افغانستان بنا اور اس کے بعد ہی سے غیر ملکی جنگجوؤں کی افغانستان آمد میں تیزی سے آئی، نوجوان غیر ملکی عسکریت پسندوں کی افغانستان میں ''جہاد کے لیے داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں آنے والے امریکی فوجی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے نہیں بلکہ مسلمانوں کے وسیع تر علاقوں پر قابض ہونے کی منصوبہ بندی کے تحت آئے ہیں جب کہ مقامی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی جنگجو امریکی و نیٹو افواج کو ان کے ملک سے نکالنے کے لیے سرگرم ہیں۔
بعض غیر ملکی جنگجوؤں نے تو کنر، نورستان، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائل میں شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب، یمن، مصر، کویت، عرب امارات، قطر، اردن، بحرین، لیبیا، عراق، شام، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغانستان کے جنوبی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ مراکو، الجیریا، چیچنیا، ازبکستان، تاجکستان، آزربائیجان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغانستان کے مشرقی علاقوں اور قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک طالبان سردار کے بقول جب غیر ملکی فورسز افغانستان سے چلی جائیں گی اس کے بعد ہم اپنے غیر ملکی مسلمان بھائیوں (جنگجوؤں) کو اپنے علاقوں سے جانے کا کہیں گے اور اگر حکمران ہم سے لڑائی پر آمادہ ہیں تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ گویا افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور غیر ملکی افواج کی واپسی تک پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھلسنا پڑے گا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں دینی جماعتوں اور مذہبی گروپوں کی بابت سے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے حکومتی اقدامات کی حمایت نہیں کی جاتی۔ اگرچہ مذہبی حلقے بظاہر دہشت گردی، بم دھماکوں، خودکش حملوں، فرقہ واریت اور ٹارگٹ کلنگ جیسے خون آشام واقعات کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن جب ایسے سفاکانہ واقعات کے پس پردہ عناصر علی الاعلان ان سانحات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں جیساکہ تحریک طالبان نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمے داری قبول کی تو مذہبی رہنما ایسے عناصر کے خلاف فوجی کارروائی کی کھل کر حمایت کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور مختلف تاویلوں اور دلائل کا سہارا لے کر اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں۔
جیسے طالبان اپنے فہم اسلام کے حوالے سے کمزور حوالوں کو جواز بناکر پیش کرتے ہیں، اپنے احکامات کو شرعی گردانتے ہوئے ان کی ہر قیمت پر تعمیل کے لیے بندوق کی زبان میں ''سمجھانے'' کو بھی درست اقدام قرر دیتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ طالبان کی اسی منفی اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا عکاس ہے۔ ملالہ کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ اسلامی شعار کے عین مطابق لڑکیوں کی بھی تعلیم کے حق میں تھی اور اس حوالے سے طالبان کے مذہبی عقائد و نظریات کی مخالف تھی اور یہ بات طالبان کو ناقابل قبول تھی۔ صدر رداری نے بالکل درست کہا کہ ''دہشت گرد عناصر کو مل کر شکست دینا ہوگی، ہمارے بچوں پر حملہ ہو تو ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے، دہشت گردوں کا ملالہ پر حملہ درحقیقت پاکستان پر حملے کی کوشش ہے۔'' تمام مکاتب فکر کے اکابرین اور پیروکاروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے ہی میں وطن عزیز کی بقا ہے، یہ ملک ہماری پہچان ہے اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے۔ خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ اس کی پہچان بنتے جا رہے ہیں،کراچی سے لے کر خیبر تک ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دہشت گرد عناصر اور شدت پسندوں نے اپنے ٹھکانے نہ بنا رکھے ہوں،طالب علموں سے لے کر تاجروں تک علمائے دین سے لے کر اساتذہ کرام تک اور ڈاکٹروں سے لے کر عام مزدوروں تک ہر طبقہ فکر کے لوگ دہشت گردوں کی خوراک بنتے جارہے ہیں، لیکن ان کے خون کی پیاس بجھنے میں نہیں آرہی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پولیس، رینجرز، سی آئی اے، ایف سی اور فوج کے جوان جو دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں کئی برسوں سے شدت پسندوں کو کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن تاحال دہشت گردی کے خوفناک عفریت پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہو رہی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارا ملک لبرل اور انتہا پسند دو واضح حلقوں میں تقسیم ہے اگرچہ مذہبی وغیر مذہبی ہر دو حوالوں سے اختلاف رائے تو پاکستانی معاشرے میں ہمیشہ سے موجود رہا تاہم جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ایسے رجحانات کو فروغ ملا اور روس کے خلاف جہاد افغانستان نے تشدد، مذہبی انتہا پسندی کو جلا بخشی اور طالبان کے جنم نے تو حجت تمام کردی لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جہاد افغانستان سے فراغت کے بعد غیر ملکی جنگجوؤں نے بڑی تعداد میں پاکستان کو اپنے لیے محفوظ علاقہ سمجھتے ہوئے یہاں اپنے قدم جمانا شروع کردیے۔ کہا جا رہا ہے کہ آٹھ ہزار کے لگ بھگ غیر ملکی جنگجو پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ 2008ء میں حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کی اکثریت شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کے علاقوں میں موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں اپنے ایجنٹوں کو طالبان اور القاعدہ کے بھیس میں افغانستان کے سرحدی علاقوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل کر رہی ہیں اور انھیں مختلف قسم کے لالچ دے کر اپنا شریک کار بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جوکہ نہ صرف اسلام آباد بلکہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد جب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو اس کا پہلا نشانہ افغانستان بنا اور اس کے بعد ہی سے غیر ملکی جنگجوؤں کی افغانستان آمد میں تیزی سے آئی، نوجوان غیر ملکی عسکریت پسندوں کی افغانستان میں ''جہاد کے لیے داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں آنے والے امریکی فوجی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے نہیں بلکہ مسلمانوں کے وسیع تر علاقوں پر قابض ہونے کی منصوبہ بندی کے تحت آئے ہیں جب کہ مقامی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی جنگجو امریکی و نیٹو افواج کو ان کے ملک سے نکالنے کے لیے سرگرم ہیں۔
بعض غیر ملکی جنگجوؤں نے تو کنر، نورستان، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائل میں شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب، یمن، مصر، کویت، عرب امارات، قطر، اردن، بحرین، لیبیا، عراق، شام، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغانستان کے جنوبی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ مراکو، الجیریا، چیچنیا، ازبکستان، تاجکستان، آزربائیجان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغانستان کے مشرقی علاقوں اور قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک طالبان سردار کے بقول جب غیر ملکی فورسز افغانستان سے چلی جائیں گی اس کے بعد ہم اپنے غیر ملکی مسلمان بھائیوں (جنگجوؤں) کو اپنے علاقوں سے جانے کا کہیں گے اور اگر حکمران ہم سے لڑائی پر آمادہ ہیں تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ گویا افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور غیر ملکی افواج کی واپسی تک پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھلسنا پڑے گا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں دینی جماعتوں اور مذہبی گروپوں کی بابت سے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے حکومتی اقدامات کی حمایت نہیں کی جاتی۔ اگرچہ مذہبی حلقے بظاہر دہشت گردی، بم دھماکوں، خودکش حملوں، فرقہ واریت اور ٹارگٹ کلنگ جیسے خون آشام واقعات کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن جب ایسے سفاکانہ واقعات کے پس پردہ عناصر علی الاعلان ان سانحات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں جیساکہ تحریک طالبان نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمے داری قبول کی تو مذہبی رہنما ایسے عناصر کے خلاف فوجی کارروائی کی کھل کر حمایت کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور مختلف تاویلوں اور دلائل کا سہارا لے کر اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں۔
جیسے طالبان اپنے فہم اسلام کے حوالے سے کمزور حوالوں کو جواز بناکر پیش کرتے ہیں، اپنے احکامات کو شرعی گردانتے ہوئے ان کی ہر قیمت پر تعمیل کے لیے بندوق کی زبان میں ''سمجھانے'' کو بھی درست اقدام قرر دیتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ طالبان کی اسی منفی اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا عکاس ہے۔ ملالہ کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ اسلامی شعار کے عین مطابق لڑکیوں کی بھی تعلیم کے حق میں تھی اور اس حوالے سے طالبان کے مذہبی عقائد و نظریات کی مخالف تھی اور یہ بات طالبان کو ناقابل قبول تھی۔ صدر رداری نے بالکل درست کہا کہ ''دہشت گرد عناصر کو مل کر شکست دینا ہوگی، ہمارے بچوں پر حملہ ہو تو ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے، دہشت گردوں کا ملالہ پر حملہ درحقیقت پاکستان پر حملے کی کوشش ہے۔'' تمام مکاتب فکر کے اکابرین اور پیروکاروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے ہی میں وطن عزیز کی بقا ہے، یہ ملک ہماری پہچان ہے اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔