ہمارا سماجی فکری‘ بانجھ پن
صیہونی سازشوں نے سترہویں صدی کے بعد ہی سے سیاسی خلفشار کو جنم دیا
KARACHI:
ہم بطور قوم کسی ایک نقطے پر جامد ہوچکے ہیں اور چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے لیکن ہماری سماعتوں میں دور سے کسی قوم کی ترقی کی آوازیں آرہی ہیں، کال کوٹھڑیوں میں ان ہی کو ڈالا جاتا ہے جن سے بغاوتوں کا اندیشہ ہو،ایک زمانے میں غالباً ساتویں صدی کے فوراً ہی بعد اورآٹھویں صدی کے بیچ میں یورپ (موجودہ ترقی یافتہ یورپ) جن تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا تو عالمگیر مسلمان تہذیب اپنے پورے شباب اور عروج پر تھی جیسے کہ آج امریکا اور یورپ ہیں۔ اگر 1560 ہی کو بنیاد بنائیں تو انگلستان کی ملکہ الزبتھ اول کا ہندوستان کے اکبر اعظم سے موازنہ کریں تو خود مستند یورپی مورخین کی تحریروں سے اندازہ ہوجائیگا کہ اکبر کا دور ، ملکہ الزبتھ اول کے دور سے اور دربار سے کہیں زیادہ منظم، جدید، ترقی یافتہ اور زور آور تھا۔ برصغیر پاک و ہند اس زمانے میں اپنی تاریخ کے پرامن اور خوشحال دور سے گزر رہے تھے، صیہونی سازشوں نے سترہویں صدی کے بعد ہی سے سیاسی خلفشار کو جنم دیا اور برصغیر میں بعض تبدیلیاں جن سے آج تک ہم باہر نہیں نکلے ہیں وہ وجود میں آنے لگیں۔
مسلمان تہذیب کے تینوں عظیم الشان مراکز یعنی برصغیر (ہندوستان) کی مغلیہ تہذیب، ایران کی صفوی تحریک و تہذیب اور سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوگیا تھا اب کس کے ایماء پر ہوا؟یہ ایک بحث طلب امر ہے، تاریخ کے طالبعلم سب جانتے ہیں، یہیں سے یورپ نے ترقی کی راہ پر اپنی گاڑی دوڑائی۔ ان کا منشا یہ تھا کہ وہ آہستہ آہستہ قدم جماکر ہندوستان یا مشرق وسطیٰ جنوبی ایشیاء پر قبضہ کرے اور ان کو معاشی طور پر کنگال کردے جو اس نے کیا، میر جعفروں کی مدد سے ہم جن دو اہم مسائل سے نبرد آزما ہیں وہ معاشرتی اور سیاسی بگاڑ کا پیش خیمہ ہیں، سیاستدان اپنا قد تو اونچا کرتے ہیں لیکن یہ دو نقطے مجھ جیسے عام آدمی کی سمجھ میں آگئے، فہم و فراست سے پر بدھیوں میں یہ بات نہیں بیٹھی، وہ دو نقطے ہیں سماجی اور سیاسی سطح پر ایک خلفشار، ہم تعلیم کی کمی کا رونا تو روتے ہیں۔
پاکستان جنوبی ایشیاء کا وہ واحد ملک ہے جہاں نہ صرف بالغ لوگوں کی بڑی تعداد ناخواندہ ہے بلکہ پرائمری سطح پر بھی داخلوں کی شرح خطرناک حد تک کم ہے (پاکستان میں چائلڈ لیبرکیوں زیادہ ہے)، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں تعلیم اگر عام ہوجائے تو ہمارے بہت سے معاشرتی مسئلے خود بخود حل ہو جائینگے، ہمارے یہاں تعلیم یافتہ طبقے میں دانشورانہ بانجھ پن intelectual Infertility پائی جاتی ہے، میرا جملہ سخت ضرور ہے لیکن اس میں، میں خود شامل ہوں، ہمارا حکمران طبقہ تعلیم کے حساب سے تعلیم یافتہ کم کہلائے گا لیکن ملکی ذرایع پر اس کی گرفت بہت مضبوط ہے، چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلتا، نظام بدلتا ہے انقلاب آنے سے، چہرے بدل بدل کر قابض رہنے والے یہ طبقہ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کا براہ راست ذمے دار ہیں، رونا رویا جاتا ہے جی وسائل کم ہیں، وسائل کم نہیں ہیں بلکہ ان میں سیاسی بصیرت کے فقدان، طاقت کا بیجا استعمال، دانش اور فکر تازہ کی کمی اور نااہلی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ طبقہ عوام کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلہ گھونٹنے میں مصروف ہے، عوام ہی پاکستان کی تعمیر وترقی کے اصل خالق ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ ہے۔
غربت کے باعث معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں، میں سکتے کے عالم میں تھا جب میں نے سنا کہ راجستھان پلک سٹی میں ڈبل پی۔ایچ۔ ڈی کے پروفیسر ڈی وائیوویدی سڑکوں پر بھیک مانگ رہے تھے، ان کی قوت برداشت کی سطح اور اہداف کا یقین سماج ہی کے کرتا دھرتا کریں گے۔ ہمارے یہاں ریسرچ اور بنیادی اور ذہنی سطح کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی مسائل حل ہی نہیں ہو پارہے ہیں، ہاں ہمارا تعلیمی نظام بہترین سے بہترین نقال ضرور پیدا کر رہا ہے۔ جس پر تعلیمی کمیٹیوں کے سربراہان کو اعزازات سے نوازنا چاہیے۔ ہمارے یہاں اشرافیہ کے لیے بھاری رقوم کے ذریعے بیرونی ممالک میں اسکالرشپ کا اقدام فروغ پارہا ہے جس کے باعث ایک غریب ذہین طالبعلم ذہنی اذیتوں کا شکار ہورہا ہے اور اس موجودہ رائج سسٹم کو کوس رہا ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ امیر اور غریب کے بچوں کی ذہنی پختگی کا امتحان لے کر بلا امتیاز ان کو باہر بھیجا جائے، یہ تو ناممکن ہے کیونکہ ہم نام نہاد اسلامی جمہوریہ میں تو جی رہے ہیں، لیکن مغرب زدہ لوگوں کے پیسوں سے غریب کو دھتکار رہے ہیں، پاکستانی معاشرہ روز بہ روز زبوں حالی کا شکار ہورہاہے۔
یہاں کی ضروریات، عوامل اور اسٹیک ہولڈرز سب مایا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ابھرتے ہوئے عالمی افق پر نئے نئے طبقات کے نئے نئے تصورات جنم لے رہے ہیں اور لوگوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ ہماری 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس پر آپ ان سے کسی مثبت رویے یا کام کی امید کر رہے ہیں جب کہ ان کا استحصال ہورہا ہے، اس معاشرے میں جو بات ہوسکتی ہے وہ یہ ہوسکتی ہے کہ نئے مسائل پر معقول تجزیاتی تحقیق کرکے لمبے عرصے تک نئی مربوط حکمت عملیاں مربوط کی جائیں۔ لیکن شومئی قسمت ان تمام پالیسیوں پر ہماری حکمران اشرافیہ پرائی سوچ پر اڑی ہوئی ہے اور وہ قوانین جو رد ہوچکے ہیں ان کو بروئے کار لایا جارہا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس معاشرے کو بدلا جاسکتا ہے، اس عمل پر اب تک لاکھوں بلکہ اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بنیاد پرست ہے اور ان کے افکار پانی پر جمی کائی کی مانند ہیں انھیں جدت پسندی کا سرے سے پتہ ہی نہیں ہے، وہ اپنے ماضی میں کھوئے ہوئے ہیں، قرون وسطیٰ کے زمانے کے لوگ ہیں، اور ان کے تصورات نہایت ہی بے معنی اور فرسودہ ہیں ایسے میں پاکستان میں کون انقلاب لائے گا؟اور جو یہ کہتا ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے شاید اس کا ہاتھ ہماری تھوڑی تعداد میں موجود جدت پسند لوگوں کی رگوں پر ہے وگرنہ اگر من حیث القوم ہوتی تو وہ بھی پتھروں کے دور میں جی رہا ہوتا۔ تعلیم یافتہ طبقہ بھی جمہوریت اور جمہوری اقتدار پر یقین نہیں رکھتا وہ بھی جمہوری حکومت کو پٹڑی سے اترتے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے اور بعد میں یہی عوام فوجی اقتدار سے نالاں بھی ہوتے ہیں۔ سو پیاز بھی، سو جوتے بھی اور پھر جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، اور یہ ایمان بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے مسائل ایک مضبوط، مطلق العنان اور ایماندار آدمی ہی حل کرسکتا ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ تو کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے امراء ہمارے نظام صحت پر یقین نہیں رکھتے۔
وہ دہری شہریت کے حامل لوگ ہیں جو مغرب کے اسپتالوں میں علاج معالجہ کراتے ہیں، اور کسی بھی نامساعد حالات میں ڈوبتے ہوئے جہاز کو دیکھ کر وہ جہاز ہی چھوڑ دیتے ہیں لیکن مغرب کی طرز زندگی سے نالاں بھی نہیں، وہاں پھیلی بے حیائی کا رونا روتے ہیں ہرچندکہ ایسے لوگ کم ہیں، وہ مغرب کی عریانیت سے بھی خائف ہیں، وہ مخلوط تعلیمی نظام سے بھی پریشان ہیں، وہ وہاں کی طرز زندگی سے بھی بیزار ہیں لیکن پاکستان کے اعلیٰ سرجنز اور ڈاکٹرز جو یورپ میں بڑی مانگ رکھتے ہیں اور اپنا علاج یہاں کے اسپتالوں میں نہیں مغرب کے اسپتالوں میں پاکستانی ڈاکٹروں سے ہی کرواتے ہیں، لہٰذا تھوڑی بہت قومی غیرت کا عنصر ان بھی ہوتا ہے، لیکن یہ فکری اور سماجی بانجھ پن کا شکار قوم کب اورکیسے اس دور میں داخل ہوگی جب ہر کوئی، ہر کوئی سے مراد ہر ذی شعور، ذی علم شخص یہ کہنے پر مجبور ہوگا، آیندہ ہماری فصلیں سونا اگلیں گی، آیندہ ہمارا کسان خوشحال ہوگا،آیندہ ہم چین کے برابر تو نہیں، چین جیسے ہو جائیں گے، آیندہ ہمارے حکمران گرانٹ دینے کے وعدے کے ساتھ ہی گرانٹ دیں گے۔ جب ایک ہی حوض میں بکری اور شیر پانی پئیںگے، آخر کب؟
پاکستانی قوم ایک بہترین قوم بن کر ابھر سکتی ہے لیکن تب جب اس کو اپنے آپ ہی پر بھروسہ ہو۔ اندھی تقلید سے حلیہ تو بدل جائے گا لیکن شخصیت داغدار ہوجائے گی۔
بقول حسن عابد:
پھر نہ زندگی ہوگی' اور نہ آرزوئے گل
یہ ہماری وحشت کا آخری زمانہ ہے