تصویر… جس کی اصل شناخت چھن گئی

جب لیکچرر ندا سلطانی کو احتجاجی تحریک کا ’’شہید‘‘ بنا دیا گیا.

فوٹو : فائل

اس کہانی کا آغاز ایک تصویر سے ہوتا ہے' جسے پوری دنیا میں ایک ایسی عورت کی تصویر کے طور پر دکھایا گیا' جو ہلاک ہو گئی تھی۔

لیکن ندا سلطانی' جس کی تصویر دکھائی جا رہی تھی' زندہ تھی۔ ندا سلطانی نے نام اور شکل میں مشابہت کی وجہ سے ہونے والی اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہا' ہلاک شدہ خاتون کے ورثاء نے اصل تصویر جاری کی' مگر کسی نے مان کر نہ دیا۔ جب اس واقعے کے کئی ماہ بعد بھی CNN نے ایک رپورٹ میں ندا سلطانی کی تصویر نشر کی، تو اس نے ای میل کر کے مذکورہ رپورٹ سے اپنی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ سسٹم میں فیڈ کئے گئے خودکار نظام کے تحت اسے جواب موصول ہوا کہ ذاتی طور پر تمام سوالوں کے جواب نہیں دئیے جا سکتے۔ جواب کے نیچے لکھا تھا:

''CNN ... خبروں کی دنیا میں سب سے معتبر نام''

اب اس کی تصویر بھی' اس کی ا پنی تصویر نہیں رہی تھی۔ یہ CNN اور دوسرے تمام میڈیا گروپس کی ملکیت ہو چکی تھی۔

جون 2009ء میں ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد کچھ لوگ مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے۔ ان دنوں گولی لگنے سے ایک خاتون ہلاک ہو گئی' جس کی موبائل فون سے بنائی گئی فوٹیج پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اپوزیشن نے قتل کا الزام سرکاری سکیورٹی اہلکاروں پر تھوپ دیا۔ یوں اس خاتون کی صورت میں حکومت کے مخالفین کو ایک 'شہید' خاتون مل گی' جس کے نام کو استعمال کر کے وہ اپنی تحریک چلا سکتے تھے۔ ہلاک ہونے والی خاتون کی ابتدائی طور پر ندا کے نام سے شناخت کی گئی۔ جس کے متعلق یہ پتا چلایا گیا کہ وہ تہران کی آزاد یونیورسٹی کی طالب علم تھی۔ جب ان معلومات کے ساتھ فیس بک پر اس نام کی تلاش کی گئی تو ندا سلطانی کے پروفائل تک رسائی ہوئی' جس کی تصویر ہلاک ہونے والی خاتون سے مشابہت رکھتی تھی۔ کسی نے اس تصویر کو وہاں سے کاپی کیا اور یوں یہ تصویر جلد ہی سوشل نیٹ ورکس اور بلاگز میں استعمال ہونے لگی۔ اس کی دیکھا دیکھی بڑے ٹی وی چینلز CNN'BBC'CBS اور دوسری کئی ٹی وی چینلوں نے اس تصویر کو نشر کرنا شروع کر دیا۔ یہ تصویر مختلف ممالک کے درجنوں اخباروں اور میگزینوں میں بھی شائع ہوئی۔ اس وقت کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ مرنے والی خاتون کا مکمل نام ندا آغا سلطان ہے' اور اس کے بجائے کسی ندا سلطانی کی تصویر میڈیا پر نشر اور شائع کی جا رہی ہے۔

21 جون 2009ء کی صبح ندا سلطانی فیس بک پر ان لوگوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئی' جو اس کے فرینڈ بننا چاہتے تھے۔ ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسے اپنے دوستوں اور عزیزواقارب کی طرف سے ٹیلی فون کالز بھی موصول ہوئیں۔ اب اسے حقیقت کا پتا چلا تو وہ سرپیٹ کر رہ گئی۔ پہلے پہل اس کا خیال تھا کہ کسی نے اس کے ساتھ بھیانک مذاق کیا ہے، جس کا وہ دو' تین وضاحتی فون کالز اور ای میلز سے ازالہ کر سکتی ہے۔ اس نے اصل صورتحال کی وضاحت کے لئے ای میلز کرنا شروع کر دیں۔ اس سلسلے میں اس نے ایران کے ایک مقبول سٹیشن ''وائس آف امریکا'' کو بھی ای میل کی۔ اس نے لکھا کہ غلط فہمی کی وجہ سے میڈیا پر غلط تصویر چلائی جا رہی ہے۔ ثبوت کے طور پر اس نے اپنی ایک دوسری تصویر بھی بھجوائی' تاکہ دونوں تصویروں کا آپس میں موازانہ کیا جا سکے۔

آگے جو کچھ ہوا' وہ ندا کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ وائس آف امریکا نے اس کی بھیجی ہوئی تصویر' مقتول ندا کی نئی تصویر کے طور پر چلانا شروع کر دی۔ دوسرے میڈیا گروپس بھی یہ تصویر استعمال کرنے لگے۔ اس نے اپنی فیس بک پروفائل سے اپنا فوٹو ہٹا لیا تاکہ لوگ اس کی مزید کاپی نہ کر سکیں۔ احتیاط کے پیش نظر کیا گیا یہ اقدام بھی اسے مہنگا پڑا۔ لوگوں نے اس کو حکومت کی طرف سے سنسر شپ کا نتیجہ سمجھا۔ یکا یک سیکڑوں فیس بک پیجز پر اس کی تصویر کاپی کی جانے لگی' بلاگز میں اس کو جگہ دی گئی اور ٹوئٹر کے ذریعے بھیجا جانے لگا۔ ندا سلطانی خوفزدہ ہو گئی۔ حقیقت بتانے کی اس کی ہر کوشش رائیگاں ہوتی چلی گئی۔


دوسری طرف مقتولہ ندا آغا سلطان کے والدین بھی یہ سب دیکھ کر فطری طور پر پریشان ہوئے۔ 23 جون 2009ء کو انہوں نے ندا آغا سلطان کی اصل تصاویر جاری کیں تاکہ اس غلطی کو دور کیا جا سکے۔ لیکن ان کے اس عمل سے بھی ندا سلطانی کو کوئی مدد نہ ملی۔ اس کی تصویر مسلسل استعمال کی جاتی رہی۔ اس کے دوستوں نے بھی اپنے طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر انہیں جواب موصول ہوتا، ''تم ہم سے احتجاجی تحریک کا ہیرو نہیں چھین سکتے''۔

ندا سلطانی کو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کی تصویر سے' اس کی اپنی شناخت چھین لی گئی ہے، اور اب یہ محض کچھ لوگوں کے جذبات کا مظہر بن چکی ہے۔ چند ایک صحافیوں نے اس کی فیس بک پروفائل اور اس کی شناخت کے حوالے سے رابطہ بھی کیا' لیکن ان میں سے کوئی اس غلط فہمی کو پھیلنے سے نہ روک سکا، یا پھر وہ روکنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس مرحلے پر اسے صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہوا۔ حکومت کی طرف سے اسے لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا تھا، اور وہ اسے ''زندہ'' دکھا کر ندا آغا سلطان کی موت کو جھٹلا بھی سکتے تھے۔

اب وہ مزید ایران میں قیام نہیں کر سکتی تھی۔ وہ خفیہ طور پر اپنے والدین کو الوداع کہے بغیر، 2 جولائی 2009ء کو ایران سے بذریعہ جہاز ترکی چلی گئی۔ بالآخر 3 جولائی 2009ء کو BBC آن لائن نے باضابطہ طور پر پہلی دفعہ اس غلط شناخت کا اپنے ایک کالم میں ذکر کیا۔ بیرون ملک جانے کے لئے ضروری انتظامات اور اخراجات پورے کرنے کے لئے اس نے اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر ڈالی تھی۔ ترکی پہنچ کر اسکو سیاسی پناہ حاصل کرنے کا خیال آیا۔ اس سلسلے میں وہ پہلے یونان پہنچی اور پھر یونان سے جرمنی چلی گئی۔ جرمنی پہنچ کر اس نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے ڈالی۔ ندا سلطانی کا کہنا ہے: ''ایک مہاجر کی زندگی گزارنا' ہوا میں اڑنے والے پتے کی مانند ہے۔ آپ اپنی جڑوں سے کٹ کر ہوا میں معلق ہو جاتے ہو، اور واپس نہیں جا سکتے۔ جب میں گزشتہ حالات پر نظر ڈالتی ہوں تو مجھے سب سے زیادہ مغربی میڈیا پر غصہ آتا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ یہ مرنے والی خاتون کی تصویر نہیں ' انہوں نے جان بوجھ کر بار بار میری تصویر میڈیا پر چلائی، اور اس طرح مجھے سنگین خطرات سے دو چار کیا۔ اب میں کبھی پہلے کی طرح ندا سلطانی نہیں بن سکتی، جیسا کہ اس حادثہ کے رونما ہونے سے قبل میں تھی''۔

یہ کہانی صرف میڈیا کی طرف سے برتی جانے والی غیر ذمہ داری کو آشکار نہیں کرتی۔ اس سے سوشل میڈیا کی طاقت کا بھی پتا چلتا ہے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے سوشل میڈیا پر جہاں لوگ جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں' وہاں لوگ اپنا ''سچ'' بھی تخلیق کر سکتے ہیں، اور اس کے دفاع میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ یہ سوچے بغیرکہ وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ ابتدا میں چند ایک بلاگز میں اس غلطی کا ذکر ہوا' لیکن ان لکھنے والوں میں کوئی بھی اتنا بڑا نام نہیں تھا کہ لوگ اس کی بات کو سنجیدگی سے لیتے۔

حکومتی موقف:

ندا آغا سلطان کی موت کو ایرانی حکومت نے مشکوک قرار دیا۔ صدر احمدی نژاد نے ایرانی عدلیہ کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ اس حادثے کی تحقیقات کریں اور تحقیقاتی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ صدراحمدی نژاد کا کہنا تھا: ''غیر ملکی میڈیا کے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے اور کچھ دوسرے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اس واقعہ میں ایرانی قوم کے دشمنوں کا ہاتھ ہے' جو کہ اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور اسلامی جمہوریہ ایران کے چہرے کو مسخ کرنا چاہتے ہیں''۔ ایک ایرانی ٹی وی چینل پروضاحتی رپورٹ پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا' جیسے اپوزیشن جماعتیں دعویٰ کر رہی ہیں۔

ندا کو ہسپتال پہنچانے میں مدد دینے والے ایک شخص نے میڈیا کو بتایا کہ اس جگہ سکیورٹی فورسز اور سرکاری پولیس کے اہلکار موجود نہیں تھے۔ اس کے ساتھی میوزک ٹیچر نے میڈیا کو بتایا کہ ''گلی میں احتجاج کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ 30-20 کے قریب لوگ وہاں موجود تھے۔ ہم گاڑی تک جانے کیلئے گلی سے گزر رہے تھے''۔ ٹی وی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جس پستول سے ندا پر گولی چلائی گئی' وہ ایرانی سکیورٹی فورسز استعمال نہیں کرتیں۔

میکسیکو میں ایرانی سفیر نے اس ایشو پر سی این این سے باضابطہ بات کرتے ہوئے اس امکان کی طرف اشارہ کیا کہ امریکا اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ''ندا کی یہ موت بہت مشکوک ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ندا کو کئی کیمروں کے سامنے گولی کا نشانہ بنایا گیا، اور یہ ایک ایسے علاقے میں ہوا' جہاں کوئی قابل ذکر احتجاجی مظاہرہ نہیں ہوا تھا۔ ہاں، اگر سی آئی اے کسی کو مروا کر اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانا چاہتی تھی' تو اس کے لئے ایک خاتون کا انتخاب کرنا بہت موزوں تھا' کیونکہ ایک خاتون کی ہلاکت سے زیادہ ہمدردیاں سمیٹی جا سکتی تھیں۔'' سی آئی اے کے ترجمان نے اس بیان کو جھوٹ اور بے معنی قرار دیا۔
Load Next Story