منٹو کی حنیف محمد کا کھیل دیکھنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی

ایک کرکٹرکا نام اخبارمیں پڑھ کرمنٹو نے ہپ ٹلا کی اصطلاح ایجاد کرلی.

فوٹو : فائل

منٹو کا ذکر کرکٹ کی کتاب میں پڑھ کرتھوڑی حیرت ہوئی اور وہ بھی ایسی ویسی کتاب میں نہیں بلکہ وہ کتاب ، جس کومعروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو نے اپنے ایک سروے میںکرکٹ پر لکھی گئیں، بہترین کتابوں میں دوسرا نمبر دیا ہے۔یہ بھارتی تاریخ دان رام چندر گوہا کی کتاب"A Corner of a Foreign Field" ہے، جس میں بڑے موثر اور دل نشین پیرائے میں برصغیر میں کرکٹ کے ارتقاء اور ترقی کی داستان بیان ہوئی ہے۔

ایسی کتاب جس کو پڑھنا شروع کردیں تو اسے رکھنا دشوار ہو جائے۔ اس قابل قدر کتاب میںمنٹو کا ذکر اس مناسبت سے آیا ہے کہ منٹونے مرنے سے ایک دن قبل دوستوں کی بزم میںیہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لاہور میں ہونے والے ٹیسٹ میں حنیف محمد کی بیٹنگ دیکھنے جائیں گے۔ افسوس! منٹو کی یہ خواہش ناتمام رہی اوردونوں ٹیموں کے درمیان جاری بہاولپور ٹیسٹ کے پہلے روزیعنی 15جنور ی1955 ء کو ان کی سنائونی آگئی ۔رام چندر گوہا نے منٹو سے متعلق جوذکر کیا ہے، اس کا حوالہ حامد جلال کے مضمون کو بنایا ہے۔ہم نے یہ حوالہ پڑھا تو مناسب جانا کہ اصل ماخذ نقل کردیں ، اس لیے ہم حامد جلال کے مضمون''منٹو ماموں کی موت ''کا وہ اقتباس نقل کررہے ہیں، جس میں منٹو کے ٹیسٹ میچ دیکھنے کی خواہش کا پتا چلتا ہے۔حامد جلال لکھتے ہیں ''بہاول پورمیں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ کا دوسرا ٹیسٹ میچ ہورہا تھااور ڈرنگ اسٹیڈیم میں بیٹھاطالع یار خاں کو صبح کا چشم دیدحال نشرکرنے میںمدد دے رہا تھاکہ لاہورسے میرے نام ایک ٹرنک کال آئی اور مجھے بتایا گیاکہ آج صبح سعادت حسن منٹوکا انتقال ہوگیا۔میں فوراًغم سے بے قابونہیں ہوگیا۔بلکہ مجھ میں شدیدبرافروختگی پیدا ہوگئی۔مجھے منٹو ماموں پر انتہائی شدید غصہ آرہا تھاکہ وہ اپنے بیوی بچوںکے ساتھ یہ سلوک کس طرح کرسکتے ہیں؟لیکن میں نے اس کا اظہار نہیں کیا اور جب میں بولا تو میری آواز سے غیرمعمولی تشویش نمایاں تھی۔میں نے پوچھا ''کہاں انتقال ہوا؟''جواب ملا ''گھر پر'' اس جواب سے مجھے بڑا اطمینان ہوا کیونکہ مجھے ڈر تھاکہ کہیں وہ اچانک گھر سے باہر کسی اور مقام پر موت سے ہم آغوش نہ ہوگئے ہوں۔ عین ممکن تھا کسی تانگے پر، کسی ریستوران میں، کسی پبلشر کے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یا کسی فلم اسٹوڈیو میںانھیں اچانک موت آگئی ہو۔ جب میں اپنی جگہ پر واپس پہنچ گیا تو میچ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے ساتھیوں نے اشاروں سے پوچھا کہ کیا بات تھی۔میں نے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا۔ ''امپائر نے سعادت حسن منٹو کو آخرآئوٹ دے ہی دیا۔آج صبح ان کا انتقال ہوگیا۔''

منٹو ماموں کو آئوٹ دینے کے لیے امپائر سے کئی بار اپیلیں کی جاچکی تھیں لیکن ہر بار اپیل مسترد کردی گئی تھی۔اب ان کی بے صبر اور ڈانواں ڈول اننگز ختم ہوگئی تھی۔وہ کرکٹ کے کھلاڑی ہوتے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ وہ کبھی حنیف محمد کی طرح ہوشیاراور محتاط کھلاڑی نہیں بن سکتے تھے، جسے وہ لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کے بے حد مشتاق تھے۔اس کا علم مجھے ان کی موت سے چوبیس گھنٹے بعد گھر پہنچ کر ہوا۔درحقیقت ان کی زندگی کی آخری دو خواہشوںمیں سے ایک خواہش یہ بھی تھی۔اپنی موت سے ایک دن پہلے انھوں نے ایک ریستوران میں اپنے دوستوں سے کہا تھا ''حامد جلال کو واپس آجانے دو۔میں اسی کے ساتھ ٹیسٹ میچ میں حنیف کا کھیل دیکھنے جائو ں گا۔''



منٹو کو جس ٹیسٹ میچ کا بیتابی سے انتظار تھا، اس کے بارے میں لوگوں کے جوش وخروش کی خبریں جیل میں فیض احمد فیض تک پہنچیں تو انھیں یہ رویہ قابل افسوس نظرآیا۔اپنے خیالات کا اظہار انھوں نے اپنی بیوی کے نام خط میں کیا، اسی خط میں انھوں نے منٹو کی وفات پر اپنے دکھ کا اظہار بھی کیا ہے۔فیض لکھتے ہیں '' غالباً لاہور شہر آج کل کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہوگا(بھارتی کرکٹ ٹیم پہلی بار پاکستان کا دورہ کررہی تھی) یہ Displacement کی بہت اچھی مثال ہے۔ اس سے مراد ہے دبی ہوئی اور ناآسودہ خواہشات کی تسکین کے لیے کسی بالکل مختلف دائرہ عمل میں سرگرم ہونا جس کا ان خواہشات سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی قومی مسئلہ ایسا نہیں جسے کسی غریب کلرک نے وہ اہمیت دی ہو جو آج کل کرکٹ کو حاصل ہے۔ گویا اس نے کرکٹ کے میدان کو زندگی کے میدان کا بدل بنا لیا ہے۔ اس لیے کہ زندگی کے محنت طلب میدان میں اس کے لیے کیف و ولولے کا کوئی سامان موجود نہیں لیکن کرکٹ میچ کے ہر سنسنی خیز مرحلے میں وہ کلرک برابر کا شریک ہوسکتا ہے۔ خیر اگر بیچارے کو اسی میں مزہ ملتا ہے تو ہم حرف گیری کیوں کریں لیکن مجھے یہ رویہ کچھ غیر صحت مند اور قابل افسوس نظر آتا ہے۔ شایدبڑھاپے کا اثر ہے۔''

منٹو کی وفات کا سن کر بہت دکھ ہوا ۔سب کمزوریوں کے باوجود مجھے نہایت عزیز تھے اور اس بات پر مجھے کچھ فخر بھی ہے کہ وہ امرتسر میں میرے شاگرد تھے۔ اگرچہ یہ شاگردی کچھ برائے نام ہی تھی اس لیے کہ وہ کلاس میں تو شاید ہی کبھی آتے ہوں۔البتہ میرے گھر پر اکثر صحبت رہتی تھی اور چیخوف فرائڈ اور موپساں اور نہ جانے کس کس موضوع پر گرم مباحثے ہوتے تھے۔ بیس برس گزر چکے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہے۔ ہمارے شرفاء جنھیں دورِ حاضر کے فنکار کی شکستہ دلی کا نہ احساس ہے نہ اس سے کوئی ہمدردی غالباً یہی کہیں گے کہ منٹو مر گیا تو اس کا اپنا قصور ہے۔ بہت پیتا تھا۔ بہت بے قاعدہ زندگی بسر کرتا تھا۔ صحت کا ستیاناس کرلیا تھا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا؟ ایسے ہی کیٹس نے بھی اپنے کو مار رکھا تھا۔ برنز نے بھی۔ موزارٹ نے بھی۔ اور بھی کئی نام گنوائے جاسکتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ جب معاشرتی حالات کی وجہ سے فن اور زندگی ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوں تو دونوں میں سے ایک کی قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔ دوسری صورت سمجھوتہ بازی کی ہے جس میں دونوں کا کچھ حصہ قربان کرنا پڑتا ہے اور تیسری صورت ان دونوں کو یکجا کرکے جدوجہد کے مضمون پیدا کرنے کی ہے جو صرف عظیم فنکاروں کا حصہ ہے۔ منٹو عظیم نہیں تھا لیکن بہت دیانتدار' بہت ہنر مند اور قطعی راست گو ضرور تھا۔''


منٹونے ایک کرکٹر کے نام سے مدد لے کر''ہپ ٹلا''کی اصطلاح بھی گھڑی، جس کا پس منظر جاننے کے لیے منٹو کا اپنے عزیزدوست شیام پر لکھے خاکے کا یہ اقتباس پڑھنا ضروری ہے۔ ''ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے،میں نے ٹرین میںاخبارکا اسپورٹس کالم کھولا۔برے برن اسٹیڈیم میںکرکٹ میچ ہورہے تھے۔ایک کھلاڑی کا نام کچھ عجیب وغریب تھا۔''ہپ ٹلا'' ایچ،ای پی،ٹی یو، ایل ایل ، ایچ اے۔۔۔ہپ ٹلا۔۔۔میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہوسکتاہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔شاید یہ ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔اسٹوڈیوپہنچا توکمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔کمال نے اپنے مخصوص ادبیانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی''کیوںمنٹو''معلوم نہیں کیوں میرے منہ سے نکلا۔ ٹھیک ہے۔ مگر ہپ ٹلا نہیں!بات کچھ بن ہی گئی۔ہپ ٹلا۔

میرا مطلب بیان کرگیا۔میں کہنا یہ چاہتا تھاکہ سیکونس زوردارنہیں ہے۔کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کوایک نئے طریقے سے پیش کیا۔میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا۔بھئی حسرت بات نہیں بنی۔۔۔۔کوئی ہپ ٹلا چیز پیش کرو۔ ہپ ٹلا۔دوسری مرتبہ،ہپ ٹلاکہہ کر میںنے سب کی طرف ردعمل معلوم کرنے کے لیے دیکھا۔یہ لفظ اب معنی اختیارکرچکا تھا۔چنانچہ اس نشست میں بلا تکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹیلٹی نہیں۔ ہپ ٹولائزکرنا چاہیے،وغیرہ وغیرہ، لیکن اچانک ایک بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا''ہپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟کس زبان کا لفظ ہے!''شیام اس وقت موجود تھا، جب اشوک نے مجھ سے سوال کیا۔ اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا۔جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب وغریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کر دوہرا ہوتے ہوئے،اس نے سب کو بتایاکہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا۔تو ہپ ٹلا کو کھینچ کرفلمی دنیا میں لے آیا۔مگر کھینچا تانی کے بغیر لفظ بمبئے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔ 29جولائی 1948ء کے خط میں شیام مجھے لکھتاہے:

''پیارے منٹو!اب کی دفعہ تم پھرخاموش ہو، تمھاری یہ خاموشی مجھے بہت دق کرتی ہے۔اس کے باوجودکہ میں تمھارے دماغی تساہل سے بخوبی واقف ہوں۔میں غصے سے دیوانہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جبکہ تم یکلخت چپ سادھ لیتے ہو۔اس میں شک نہیںکہ میں بھی کوئی بہت بڑا خط باز نہیں ہوں۔لیکن مجھے ایسے خط لکھنے اور وصول کرنے میں لطف حاصل ہوتا ہے، جو ذرا الگ قسم کے ہوں۔۔۔ یعنی ہپ ٹلا۔لیکن ہپ ٹلایہاں بہت ہی نایاب چیز ہوگئی ہے۔۔۔ اسے کاغذ پر لکھوتو کم بخت ''ہپ ٹلی''بن جاتی ہے اور اگر یہ ہپ ٹلی بھی دستیاب نہ ہو تو بتائو کتنی کوفت ہوتی ہے۔معاف کرنا ، اگر میں نے ہپٹولائز کرنا شروع کردیا ہو۔۔۔ لیکن کیاکروں۔ جب حقیقتیں گم ہوجائیں تو انسان ہپٹولیٹ ہی کرتا ہے مگر مجھے کچھ پروا نہیں کہ تم کیا کہوگے کیا نہیں کہوگے۔میں اتناجانتاہوں اور تمھیں اس کا علم ہوگا کہ تم ایسے بڑے ہپ ٹلا کو اس میدان میں شکست دینے کا سہرا صرف میرے سرہے۔''

منٹوکی تحریرپڑھی تو خیال گزرا کہ گوگل پر ہپ ٹلا لکھ کر دیکھا جائے، تو شاید اس نام کے کرکٹر کے بارے میں کچھ جانکاری ہو سکے، ایسا کیاتوایک ایسا مضمون سامنے آگیا، جس میں ہپ ٹلاکا اچھی طرح سراغ لگایا گیاتھا۔ چند ماہ قبل مضمون نگارایوروک سین نے دہلی میں معروف داستان گو، محمودفاروقی اور دانش حسین کی زبانی منٹوکی کہانی سنی اور اس پر کالم باندھا ۔ منٹو کہانی میں ہپ ٹلا کا ذکر بھی تھا تو انھوں نے پھر اس کے بارے میں پڑھنے والوں کو بتایا۔ان کی معلومات کے مطابق، ہپ ٹلا کا پورا نام صالح بھائی ہپ ٹلاتھااور اس نے اپنے پہلے فرسٹ کلاس میچ میں گجرات کی نمائندگی کرتے ہوئے وجے ہزارے کو آئوٹ بھی کیا۔یہ میچ مضمون نگار کے خیال میںاس وقت کھیلا گیا، جب منٹوبمبئی میں نہیں تھے، اس لیے منٹو نے اس میچ کے بارے میں اخبار میں نہیں پڑھا ہوگا۔ان کے خیال میں، ہپ ٹلا نے 1947/48ئمیں بمبئی فیسٹیول ٹورنامنٹ میں بمبئی کے برے برن اسٹیڈیم میں،کے۔

سی۔ابراہیم الیون کی طرف سے جو دو میچوں کھیلے ان میں سے کسی کا احوال پڑھتے ہوئے، منٹو کی نظر سے ہپ ٹلا کا نام گزرا ہوگا۔ہپ ٹلا، بمبئی اور مسلمز کی ٹیم کی طرف سے بھی کھیلا۔ کرک انفو کے مطابق، ہپ ٹلا نے 1934ء سے 1948تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔1966ء میں بمبئی میںاس کا انتقال ہوا۔شیام پر منٹو کے خاکے میں یہ اقتباس بھی ملاحظہ کیجئے ''مے نوشی کے معاملے میں بھی شیام اعتدال پسندنہیں تھا۔وہ کھل کھیلنے کا قائل تھا۔مگر اپنے سامنے میدان کی وسعت دیکھ لیتاتھا۔اس کی لمبائی چوڑائی کو اچھی طرح جانچ لیتاتھا، تاکہ حدودسے آگے نہ نکل جائے، وہ مجھ سے کہا کرتاتھا۔''میں چوکے پسند کرتا ہوں۔چھکے محض اتفاق سے لگ جاتے ہیں۔''

اور اب آخر میں عصمت چغتائی کے منٹو پرتحریرکردہ خاکے کا چھوٹا سا ٹکڑا : ''ایک دن دفتر میں گرمی سے پریشان ہوکرمیں نے سوچا جا کر منٹو کے یہاں آرام کرلوںپھر واپس ملاد جائوں۔ دروازہ حسب معمول کھلا ہوا تھا، جاکر دیکھا تو صفیہ منہ پھلائے لیٹی ہے۔ منٹو ہاتھ میں جاڑو لیے سٹاسٹ پلنگ کے نیچے ہاتھ مار رہا ہے۔ اور ناک پر کُرتے کا دامن رکھے میز کے نیچے جھاڑو چلا رہا تھا۔

''یہ کیا کررہے ہیں۔''میں نے میزکے نیچے جھانک کر پوچھا۔
''کرکٹ کھیل رہا ہوں۔''منٹونے بڑی بڑی مورپنکھ جیسی پتلیاں گھماکر جواب دیا۔
Load Next Story