سانحہ کوئٹہ

اگر ہم نے دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرنا ہو گا۔


Editorial October 26, 2016
ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم نئے انتہا پسند ذہن تیار کر کے معاشرے کے حوالے کر دے گا۔

کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے 61 زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا جب کہ پاک فوج کا ایک کیپٹن بھی دہشت گردوںکے خلاف آپریشن کے دوران شہید ہو گیا۔

دہشت گردوں کے اس بزدلانہ اور ظالمانہ حملے سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں ممکن ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہو لیکن دہشت گردوں کی لائف لائن ابھی تک نہیں کٹی جس کی بنا پر وہ ابھی تک سانس لے رہے ہیں اور کارروائیاں کر رہے ہیں۔

سانحہ کوئٹہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا سراغ نہیں لگا سکیں حالانکہ سیکیورٹی ادارے ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔ میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی آئی ہیں کہ دہشت گردوں کی کسی ممکنہ کارروائی کے بارے میں اطلاعات موجود تھیں لیکن دہشت گردوں کے حقیقی ہدف کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکااور نہ ہی دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور ان کے ہنڈلرز کو واردات سے پہلے پکڑا جا سکا جس کے نتیجے میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا۔

غور کیا جائے تو سانحہ کوئٹہ میں بھی سیکیورٹی کے نقائص نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ پاکستان عرصے سے دہشت گردوں کا ٹارگٹ ہے۔ ماضی میںبھی انتہائی اہم مقامات پر دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں۔ دہشت گرد فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ جی ایچ کیو اور دیگر انتہائی اہم مقامات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

چند برس پہلے لاہور میں بیدیاں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہو چکا ہے' ایسے حالات میں ملک بھر میں تمام اہم مقامات کی سیکیورٹی فول پروف ہونی چاہیے تھی لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ہماری حکومتیں اور اس کے ذیلی ادارے سیکیورٹی کے حوالے سے اتنے مستعد نہیں ہیں' ہر واردات یا دہشت گردی کے واقعے کے بعد سیکیورٹی اداروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں' لیڈران کی جانب سے مذمتی بیانات بھی جاری ہو جاتے ہیں لیکن چند روز کے بعد پرانی روٹین بحال ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا' یہ یقیناً عوام اور فہمیدہ حلقوں کے لیے پریشان کن سوالات ہیں۔

ویسے بھی بلوچستان اب دہشت گردوں اور ان کے حملوں کا واضح ٹارگٹ ہے' بلوچستان میں دہشت گردوں کے مختلف گروہ سرگرم عمل ہیں جنھیں غیر ملکی دشمنوں کی مدد حاصل ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کے انتظامات بھی بہت ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گرد گروہوں کا سرگرم عمل ہونا سمجھ سے باہر ہے۔

اس سارے کھیل میں بھارت اور افغانستان بھی کود چکے ہیں' خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں اڑی واقعے کے بعد خدشات تھے کہ بھارت' افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان میں کوئی حرکت کر سکتا ہے' ایسی صورت میں چاہیے تو یہ تھا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں اور دیگر سرکاری اداروں کی سیکیورٹی کے انتظامات فول پروف ہوتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔

سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گرد گروہ' ان کے ہمدرد اور ہینڈلرزہیں' لہٰذا اب اچھے یا برے دہشت گردوں کے حوالے سے کسی اسٹرٹیجی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ انتظامی اعتبار سے سانحہ کوئٹہ سیکیورٹی کے نقائص کی بنا پر ہو سکتا ہے لیکن اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہماری پالیسی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے' یہ پالیسی ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے درمیان پنڈولم بن چکی ہے' جس کی بنا پر آئے روز سانحات جنم لے رہے ہیں اور ہم عالمی سطح پر بھی دباؤ کا شکار ہیں۔

اگر ہم نے دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرنا ہو گا۔ ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف واضح نظریات اور یکسو ذہن کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑے گا۔اگر مگر اور کنفیوزڈ پالیسی ہمیں مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طویل المیعاد اور مختصر مدت کی جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ بلاشبہ جہاں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن کی ضرورت ہے' پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ضرورت ہے' عدلیہ کے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے' وہاں ہمیں تعلیمی محاذ پر بھی کام کرنا ہو گا۔

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم انقلابی تبدیلیوں کا متقاضی ہے' موجودہ تعلیمی نظام خصوصاً اردو میڈیم طرز کا نظام محدود اور تنگ نظر سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے' اس میں تبدیلیاں لانا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے' اگر ہم نے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی تبدیلیاں نہ کیں تو ہم قوت استعمال کر کے دہشت گردوں کو وقتی طور پر تو ختم کر سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم نئے انتہا پسند ذہن تیار کر کے معاشرے کے حوالے کر دے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔