انتہائی المناک

اُمیّد ہے کہ فیصل آباد پولیس کے دیانتدار سربراہ افضال کوثر اس واقعے کی خود تحقیق کریں گے


[email protected]

کالم لکھ چکا تو کوئٹہ کے سانحے کی اطلاع ملی جس میں 61 پولیس افسر' اہلکار اور پاک فوج کے ایک کیپٹن نے جام شہادت نوش کیا۔ اس سانحے پر آیندہ تفصیلاً لکھوں گا۔

وطنِ عزیز کی فضاؤں پر پھر بے یقینی کے سیاہ بادل امڈ آئے ہیں، سی پیک (CPEC) ہمارے لیے گیم چینجر ہی نہیں اس پورے خطے کے لیے ترقی اور خوشحالی کی کنجی ہے یہ نہر سوئز کی طرح پورے خطّے کی قسمت سنوار سکتا ہے۔

سی پیک کے مخالف تو پوری طرح فعاّل ہیں ہی مگر کچھ اپنے سیاسی لیڈر اس نازک مرحلے پر نہ جانے ملک کو عدمِ استحکام کی دلدل میں دھکیلنے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں۔ اسی پریشانی میں کچھ باخبر دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے یہ کہہ کر تسلّی دی کہ اقتدار کے خواہشمند چند افراد تو ہر دور میں ہی ہوتے ہیں مگر فوج بحیثیّت ادارہ ان حالات میں ملک کو عدمِ استحکام کا شکار نہیں ہونے دیگی۔

سب جانتے ہیں ایک سال بعد نگران حکومتیں بننا شروع ہوجائیں گی، ملک کی سالمیّت اور اتحاّد کا تقاضایہی ہے کہ حقّ ِحکمرانی کا فیصلہ عوام کے پاس ہی رہنے دیا جائے وہ جسے چاہیں حکمران منتخب کریں، عوام کی Collective wisdom کبھی غلط فیصلے نہیں کرتی۔ اس سے پہلے کنگ آف کرپشن پانچ سال پورے کرگئے نہ کرپشن کے خلاف کسی کی نفرت جاگی۔نہ کسی کو اسلام آباد پر یلغار کا خیال آیا نہ فوج کی تلوار میان سے باہر آئی۔

موصوف کو سزا دی تو صرف عوام نے دی! سندھ کے سوا تمام صوبوں سے نکال باہر کیا۔ حکومت کی نا اہلیوں اور بری گورننس کے باوجود دارلحکومت پر دھاوے اور قبضے کا کوئی جواز نہیں۔ اس سے ہم اپنے ملک کو دسویں گیارہویں صدی میں دھکیل دیں گے۔کسی پارٹی کی یلغار سے یا کسی جرنیل کی تلوار سے جمہوریّت کا سراترتا ہے تو ملک کو بے پناہ نقصان پہنچے گااور اس کا الزام فوج پر لگے گا جس کا داغ دھونا آسان نہ ہوگا۔ اﷲتعالیٰ پاکستان کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھّے اور اسے ہر طرح کی تتّی ہوا سے محفوظ رکھے۔

ملکی حالات کی سنگینی پر کچھ بیان کرنے کے لیے قلم نکالا تو ایک خبر سامنے آگئی جس نے بیان اور عنوان دونوں بدل کر رکھ دیے اخباری خبر موجودہ حالات سے زیادہ سنگین ہے جسے پڑھنے والے ہر انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ خبر کے مطابق سلطان ٹاؤن کے رہائشی غلام محمد کے بیٹے شکیل کو چیکیرہ پولیس نے حوالات میں بند کر رکھا تھا۔ ملزم کی دادی موناں بی بی اس سے ملاقات کے لیے آئی تو تھانیدار اور محرّر نے اسے ملاقات سے روکا اور دھکیّ مارے جسکے نتیجے میں معمّر خاتون زخمی ہوگئی اور گھر پہنچ کر جاں بحق ہوگئی۔

اہلِ خانہ نے لاش سڑک پر رکھ کر پولیس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ خبر پڑھ کر اخبار پھینک دیا ہے اسقدر دکھ ہوا ہے کہ کچھ بھی مزید پڑھنے کو دل نہیں چاہ رہا۔کاش بیگناہ خاتون پر ہاتھ اٹھانے والے بدبختوں کے ہاتھ اٹھنے سے پہلے شل ہوجاتے۔ ماں جیسی عورت کو مارنے والوں کے ہاتھ ٹوٹ کیوں نہیںجاتے!

اس درندگی کا ارتکاب کرنے والوں کو کوئی کیا کہے اور کیا سمجھائے کہ 'شرم' تو معمولی سا لفظ ہے اور شرم تو انسانوں کا وصف ہے۔ عمر رسیدہ عورت پر ہاتھ اٹھانے والے انسان نہیں درندے ہوتے ہیں۔ اور جس چوکی میں ایسے درندوں کا راج ہو جو معمّر عورتوں کا احترام کرنے کے بجائے انھیں دھکّے ماریں، بے عزّت کریں یا تشدّد کریں ایسی چوکی کو آگ لگادینی چاہیے۔

نہ جانے پولیس کے سینئر افسران تھانوں اور چوکیوں میں تعینات اہلکاروں کو انسانیّت کے بنیادی وصف سے روشناس کیوں نہیں کراتے؟ وہ انھیں عام شہریوں اور عمر رسیدہ افراد کو عزّت دینے کے بارے میں Sensitise کیوں نہیں کرتے؟ ایک بار نہیں، بیسیوں بھی نہیں، ہزاروں مرتبہ پولیس کے چھوٹے بڑے اجلاسوں میں راقم ان پر واشگاف الفاظ میں واضح کرتا رہا کہ "جس افسر کا ہاتھ یا چھڑی کسی استاد، ڈاکٹر یا خاتون پر اٹھی اسے ایک لمحے کے لیے بھی پولیس سروس میں نہیں رہنے دیا جائیگا "۔

برسوں پہلے کی بات ہے راقم لاہور میں ایس پی سٹی کے طور پر تعینات تھا کہ ٹیچرز کا جلوس مال روڈ پر آگیا، ڈی ایس پی نے آکر بتایا ''سر! اوپر سے حکم آیاہے کہ جلوس کو سیکریٹریٹ آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے چاہے کتنی ہی فورس ا ستعمال کرنا پڑے''۔ میں نے فوراً جیپ سے وائرلیس کے ذریعے ہدایات دیں کہ ''ٹیچرز کا جلوس ہے جو معاشرے کا سب سے قابلِ احترام طبقہ ہے، ہم ان سے مذاکرات کے ذریعے ان کی شکایات پوچھیں گے ،کسی قیمت پر پولیس ان کے ساتھ سختی نہیں کرے گی اور فورس استعمال نہیں کی جائے گی''۔ خواتین کے جلوسوں میں پولیس کو انھیں ہاتھ تک لگانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

پولیس سروس میں بارہا یہ بحث چھڑتی رہی کہ پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ کونسا ہے۔کچھ افسر سمجھتے ہیں کہ پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ نفری (فورس) کی کمی ہے ۔کچھ افسروں کے خیال میں سیاسی یا حکومتی مداخلت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے افسروسائل کی کمیابی کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہیں۔ میرا شروع سے ہی واضح موقّف رہا ہے کہ پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ "Trust Deficit " ہے۔ نفری یا وسائل کی کمی نہیںبلکہ اعتمادکی کمی پولیس کا سب سے بڑا چیلنج ہے، عوام کا پولیس پر اعتماد نہیں ہے۔

پولیس اور ان کے Clientیعنی عوام کے درمیا ن گہری خلیج ہے۔ کلائنٹ کے تصّور میں بھی اختلاف ہے۔ بہت سے نوکری باز افسر حکومت یا حکمرانوں کو ہی اپنا کلائنٹ سمجھتے ہیں اور وہ انھی کی خوشنودی کے لیے مصروف رہتے ہیں، پولیس افسروں کو اس بارے میں educateکرنے کی ضرورت ہے۔ نیچے سے اوپر تک سب کو یہ بتانا ضروری ہے کہ پولیس کے اصل کلائنٹ عوام ہیں اور پولیس کو انھی کی خوشنودی کے لیے دن رات کوشش کرنی چاہیے۔

حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں مگر پولیس لیڈر شپ کو اپنی ترجیحات کا تعیّن خود کرنا چاہیے اور 'عوام کے اعتماد کا حصول ' اُنکا ہدف اور ترجیحِ اوّل ہونی چاہیے۔ پولیس کے دفاتر اور لائینز میں جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن آلات (Gadgetry)کی تنصیب سے مواصلات کے شعبے میں بڑی بہتری آئی ہے۔ مگر اپنے کلائنٹس کے ساتھ طرزِ عمل میں بہتری لانے کے لیے ٹیکنالوجی نہیں ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

مسلسل ٹریننگ کے ذریعے شہریوں کے احترام، خصوصاً عورتوں کے بے پناہ احترام اور مظلو موں کے ساتھ ہمدردی اور مدد کی اہمیّت ہر رینک کے پولیس افسروں کی رگ و پے میں اتار نے کی ضرورت ہے۔ راقم پولیس کے اجتماعات میں اُن سے سوال کیا کرتا تھا کہ''اگر تمہارے والد کسی اسپتال یا دفتر جائیں اور انھیں وہاں نظر انداز کیا جائے، کوئی توجہ نہ دے بلکہ توہین آمیز لہجے میں کہے چل اوئے بابا باہر جاکے بیٹھ ۔ تو تمہیں کیسا لگے گا ؟ بہت برا لگے گا ناں۔

اگر تم چاہتے ہو تمہارے والد یا بھائی کو دوسرے دفتروں میں عزّت ملے تو دوسروں کو بھی اپنے دفتر اور تھانوں میں عزّت دو ، دنیا کی کوئی عورت نہیں چاہتی کہ اسکابیٹا یا خاوند مجرم بن جائے اس لیے کوئی عورت چاہے وہ کسی مجرم کی ماں یا بیوی ہواسے تھانے میں عزّت سے ملو، اسے عزّت دو، اس سے توہین آمیز سلوک مت کرو''۔

چند روز قبل راقم کو موٹروے پولیس کے ٹریننگ کالج میں لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا، وہاں بھی زیرِ تربیّت افسروں کے سامنے اسی بات پر زور دیا کہ ''بلاشبہ سرکاری محکموں اور اداروں میں موٹروے پولیس سب سے نیک نام ادارہ ہے مگر یہ نیک نامی اور عوام کا اعتماد اس ادارے کو گاڑیوں یا عمارتوں کی وجہ سے نہیں ملا یہ اُن امتیازی اوصاف کی وجہ سے ملا ہے جنھیں اس ادارے نے اپنی بنیاد یا core valuesقرار دے دیا ہے''۔

اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کلاس میں، میس میں، کھیل کے میدان اور پریڈ گراؤنڈ ہر جگہ انھیں بتایا اور سکھایا جاتا ہے اور ان کے دل و دماغ میں اتارا جاتا ہے کہ 'دیانتداری ہمارا ایمان ہے'۔ 'خوش اخلاقی ہماری پہچان ہے'۔ 'مسافروں کی مدد ہماری شان ہے'۔ اور' ہم نے سڑک پر بلاخوف اور بلا امتیاز قانون نافذ کرنا ہے'۔ ایمانداری، خوش اخلاقی اور ضرورتمندوں کی مدد جیسے اوصاف خالقِ کائنات کو بے حد پسند ہیں اس لیے جنہوں نے اِن خوبیوں کو حرزِجاں بنایا، خالق و مالک نے ان کی جھولی عزّت اور نیک نامی سے بھردی۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹریننگ ، پولیس اور دیگر سول اداروں کا کمزور ترین پہلو ہے ، زیادہ تر اداروں میں ٹریننگ بے سمت اور بے سود ہے اور معیار انتہائی پست ہے۔ پولیس لیڈر شپ کو ٹریننگ کا معیار بلند کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجّہ دینی چاہیے اور موٹروے پولیس کی طرح ایمانداری اور خوش اخلاقی کو اپنی core values قرار دینا چاہیے۔

ہر رینک کے پولیس افسر کے دل و دماغ میں یہ بات اتارنے کی ضرورت ہے کہ' تمہاری چھڑی شہریوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے تحفظ کے لیے ہے'۔ تمہیں کمزور طبقوں کی حفاظت کے لیے سائبان بنناہے۔ تمہارے ہاتھ صرف اور صرف مجرموں پر ، یا کمزور طبقوں خصوصاً عورتوں کی عزّت و ناموس کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو توڑنے کے لیے اٹھنے چاہئیں۔

اُمیّد ہے کہ فیصل آباد پولیس کے دیانتدار سربراہ افضال کوثر اس واقعے کی خود تحقیق کریں گے اور اس وحشیانہ فعل کے مرتکب اہلکاروں کو عبرتناک سزا دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں