2 نومبر آر یا پار
قابل احترام چیف جسٹس کے Remarks اورنج لائن ٹرین کیس میں منظر عام پرآ چکے
ایک چینل پر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین الیکشن کمیشن میں اپنے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس میں پیش نہیں ہوں گے۔ کیونکہ 2 نومبر کو اسلام آباد Lock Down کرنا ہے، وہاں مصروف ہوں گے۔ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر بلا کا اعتماد واطمینان تھا۔ کم ازکم مجھے ایسا قطعاً محسوس نہیں ہوا کہ انھیں ایک اعلیٰ ترین ادارے کوکوئی حیثیت یا اہمیت نہ دینے پرکسی طرح کی پشیمانی تھی۔
صاف لگ رہا تھا کہ وہ ملک کے اداروں کو کیا سمجھتے ہیں۔ میں نے اکثر عدالتوں میں پیش ہونے والے عادی مجرموں کے چہروں پر بھی ایسی ہی بے خوفی دیکھی ہے۔ جنھیں یقین ہوتا ہے کہ سسٹم انھیں سزا نہیں ہونے دے گا، لیکن اگر اداروں کی ضرورت نہیں تو انھیں ختم کر دیجیے تا کہ ملکی خزانے پر ان کے ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ نہ پڑے۔
قابل احترام چیف جسٹس کے Remarks اورنج لائن ٹرین کیس میں منظر عام پرآ چکے لہٰذا ان پر ہلکی پھلکی سی گفتگو کر لینے میں مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ انھوں نے فرمایا ''ملک میں جمہوریت کی جگہ بادشاہت قائم ہے۔'' درست ہے کسی شک و شبے کے بغیر حقیقت یہی ہے لیکن حضور اس کے پس منظر میں 32 سال کی فوجی حکومتیں بھی ہیں۔ بیوروکریسی کی مسلسل ریشہ دوانیاں بھی۔ آج حقیقی جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
آپ سوچیے حکومت خود سے وجود میں نہیں آ جاتی۔ کروڑوں لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ غور فرمائیں گے تو ہمارے ووٹرز کا مزاج جمہوریت کم مارشل لا جیسا ہے۔ کیونکہ انھیں ابتدا ہی سے کبھی مارشل لا کبھی جمہوریت کبھی بلدیات، کبھی غیر جماعتی جمہوریت کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا وہ جو حکمران چنتے ہیں اپنے غیر جمہوری مزاج کے باعث کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہ کر سکے جس کی بدولت ان کے مسائل حل ہو پاتے۔
میرے محترم کسی سماج پر طنزکرنا آسان ہے، لیکن بہت مشکل ہے اس میں سدھار لانا اور اگر طنز بھی ایسا شخص کرے جو خود اسی معاشرے کا فرد ہو۔ تو سوائے افسوس کیا کیا جائے۔ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کس کا کام کیا ہے؟ اگر آپ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پیشہ بدل لیجیے، آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میں یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں میں
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
یہ وقت نہیں طعن وتشنیع کا۔ حل کی طرف آئیے۔ ملک کو ایسے سریع الاثر فیصلوں کی ضرورت ہے، جن میں وقت کم صرف ہو، لیکن انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ ان دنوں بھی آپ کی زیر سماعت ملک کا سب سے بڑا اور حساس مقدمہ ہے، امکانی طور پراس کے اثرات بہت دوررس ہوں گے۔ ہم جناب سے امید کرتے ہیں کہ جیسے وہ ماضی میں اپنے فرائض کی بجا آوری بہترین انداز میں کرتے رہے اس مرتبہ بھی کریں گے۔
قارئین کرام ! آج کل میڈیا کے پاس مختلف النوع خبروں کا انبار ہے۔ ہر دن ایک نئی خبر، ہر پل، ہر آن بدلتی ہوئی سیاسی فضا ۔ بادلوں کی گھن گرج، بجلی کی کڑک، آندھی، طوفان،گرد، باد وباراں سب کچھ ہے۔ سمجھ سے بالاترکہ کس خبرکو زیر بحث لایا جائے۔
گورنر عشرت العباد اور PSP رہنما مصطفیٰ کمال کے ایک دوسرے پر الزامات کے تابڑ توڑ حملوں پر بات کی جائے یا MQM لندن کی واپسی کے بعد فاروق ستار واحباب کی پراسرار خاموشی کو ٹٹولا جائے، لیکن پرنٹ میڈیا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم لکھیں، اخبارکو دیں، تب تک تو الیکٹرانک میڈیا خبر کا 100 مرتبہ آپریشن کر چکا ہوتا ہے۔ مثلاً مصطفیٰ کمال اور گورنر کے تنازعے میں آپ کی اکثریت کو وہ الزامات حفظ ہو چکے ہوں گے جو وہ روزانہ کی بنیاد پر عائدکر رہے ہیں کیونکہ میڈیا انھیں دن میں درجنوں بار چینلز پر دکھاتا ہے تو بھائی! ہمیں کون پڑھے؟
کون صبح اخبارخریدے، اسے کھولے، خبریں تلاش کرے، پھر ادارتی صفحہ جہاں مجھ جیسے کم علم حضرات جو کسی قدر بور بھی ہیں انھیں پڑھے تو مان لینا چاہیے کہ ہم ماضی ہیں بلکہ بوسیدہ اوراق۔ جنھیں زمانے کی ہوا اڑائے پھرتی ہے یا اخباری شکل میں گھر کا سودا سلف باندھنے کے کام آتے ہیں۔ دوستوں سے معذرت کے ساتھ براہ کرم برا مت مانیے گا۔ جو حقیقت لگی اسے بیان کر دیا۔ لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ کوشش ترک نہ کیجیے۔ قلم سنبھالے رہیے کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، ہمیں سنا جائے گا، پڑھا جائے گا۔ بس ذرا معاشرے کو استوار ہو لینے دیجیے۔
سیاسی موسم کا ذکر میں عرض ہے، ایک بہت بڑے اینکر دو روز قبل اپنی چڑیا بٹھاتے بٹھاتے باز بھی بٹھا گئے۔ ان کے بقول 2 نومبر پہلے سے تحریر شدہ ہے۔ بات آدمیوں کے جمع جوڑ کی ہے کہ عمران خان کتنے بڑے لشکرکے ساتھ اپنے ہی ملک کے دارالحکومت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ تعداد اگر متاثرکن ہوئی یعنی لاکھوں میں تو بڑی سرکار وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں وہ MQM کے دھڑوں میں جاری رسہ کشی کو بھی دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر ماضی نما ہاتھ رکھ دیا جائے گا۔
میں ان سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنی دانست میں سمجھتا ہوں کہ وہ چڑیا چڑیا کھیلیں۔ شاہین اور باز نہ پالیں۔ یہ مہنگے شوق اور خطرناک پرندے ہیں۔ ہمارے سپہ سالار واقعی سپاہی ہیں۔ وہ سپاہی جس کی تلوار ضرب عضب شافی، جس کی دھار دہشتگردوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتی ہے۔ لیکن جس کے اصول ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا غیر قانونی، غیرآئینی اقدام کرے گا، جو ملک اورقوم کے لیے مضر ہو۔ مجھے اس کی قطعاً توقع نہیں۔ ہاں اپنے حکمرانوں سے ہے۔ سیاستدانوں سے ہے کہ وہ ملک سے کھیلتے رہے اب تک کھیلتے رہے اور اب بھی اپنے اپنے شوق کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
عمران خان کو وزیراعظم تو صرف اللہ ہی بنا سکتا ہے، انسانوں کے بس کا یہ کام نہیں۔ کیونکہ ان کی ضد ان ہی کی راہ کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ ان کی انا انھیں ایک اچھا انسان، ایماندار رہنما ہونے کے باوجود خود سے نکلنے نہیں دیتی۔ ان کے گرد و پیش میں موجود ان کے Left, Right اب ان پر کی گئی سرمایہ کاری کا ثمر چاہتے ہیں۔ انھیں نہیں پرواہ کہ 2 نومبر کی ناکامی عمران خان کو کہاں سے کہاں لے جائے گی۔ ملک گیر جماعت کا کیا مستقبل رہ جائے گا۔ وہ سرمایہ دار و سرمایہ کار ہیں۔ انھیں اب نتیجہ چاہیے۔ آر...یا پار...! بدقسمتی یہ ہے کہ کہانی کے دونوں انجام خیرکی طرف نہیں جاتے۔
صاف لگ رہا تھا کہ وہ ملک کے اداروں کو کیا سمجھتے ہیں۔ میں نے اکثر عدالتوں میں پیش ہونے والے عادی مجرموں کے چہروں پر بھی ایسی ہی بے خوفی دیکھی ہے۔ جنھیں یقین ہوتا ہے کہ سسٹم انھیں سزا نہیں ہونے دے گا، لیکن اگر اداروں کی ضرورت نہیں تو انھیں ختم کر دیجیے تا کہ ملکی خزانے پر ان کے ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ نہ پڑے۔
قابل احترام چیف جسٹس کے Remarks اورنج لائن ٹرین کیس میں منظر عام پرآ چکے لہٰذا ان پر ہلکی پھلکی سی گفتگو کر لینے میں مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ انھوں نے فرمایا ''ملک میں جمہوریت کی جگہ بادشاہت قائم ہے۔'' درست ہے کسی شک و شبے کے بغیر حقیقت یہی ہے لیکن حضور اس کے پس منظر میں 32 سال کی فوجی حکومتیں بھی ہیں۔ بیوروکریسی کی مسلسل ریشہ دوانیاں بھی۔ آج حقیقی جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
آپ سوچیے حکومت خود سے وجود میں نہیں آ جاتی۔ کروڑوں لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ غور فرمائیں گے تو ہمارے ووٹرز کا مزاج جمہوریت کم مارشل لا جیسا ہے۔ کیونکہ انھیں ابتدا ہی سے کبھی مارشل لا کبھی جمہوریت کبھی بلدیات، کبھی غیر جماعتی جمہوریت کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا وہ جو حکمران چنتے ہیں اپنے غیر جمہوری مزاج کے باعث کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہ کر سکے جس کی بدولت ان کے مسائل حل ہو پاتے۔
میرے محترم کسی سماج پر طنزکرنا آسان ہے، لیکن بہت مشکل ہے اس میں سدھار لانا اور اگر طنز بھی ایسا شخص کرے جو خود اسی معاشرے کا فرد ہو۔ تو سوائے افسوس کیا کیا جائے۔ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کس کا کام کیا ہے؟ اگر آپ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پیشہ بدل لیجیے، آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میں یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں میں
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
یہ وقت نہیں طعن وتشنیع کا۔ حل کی طرف آئیے۔ ملک کو ایسے سریع الاثر فیصلوں کی ضرورت ہے، جن میں وقت کم صرف ہو، لیکن انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ ان دنوں بھی آپ کی زیر سماعت ملک کا سب سے بڑا اور حساس مقدمہ ہے، امکانی طور پراس کے اثرات بہت دوررس ہوں گے۔ ہم جناب سے امید کرتے ہیں کہ جیسے وہ ماضی میں اپنے فرائض کی بجا آوری بہترین انداز میں کرتے رہے اس مرتبہ بھی کریں گے۔
قارئین کرام ! آج کل میڈیا کے پاس مختلف النوع خبروں کا انبار ہے۔ ہر دن ایک نئی خبر، ہر پل، ہر آن بدلتی ہوئی سیاسی فضا ۔ بادلوں کی گھن گرج، بجلی کی کڑک، آندھی، طوفان،گرد، باد وباراں سب کچھ ہے۔ سمجھ سے بالاترکہ کس خبرکو زیر بحث لایا جائے۔
گورنر عشرت العباد اور PSP رہنما مصطفیٰ کمال کے ایک دوسرے پر الزامات کے تابڑ توڑ حملوں پر بات کی جائے یا MQM لندن کی واپسی کے بعد فاروق ستار واحباب کی پراسرار خاموشی کو ٹٹولا جائے، لیکن پرنٹ میڈیا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم لکھیں، اخبارکو دیں، تب تک تو الیکٹرانک میڈیا خبر کا 100 مرتبہ آپریشن کر چکا ہوتا ہے۔ مثلاً مصطفیٰ کمال اور گورنر کے تنازعے میں آپ کی اکثریت کو وہ الزامات حفظ ہو چکے ہوں گے جو وہ روزانہ کی بنیاد پر عائدکر رہے ہیں کیونکہ میڈیا انھیں دن میں درجنوں بار چینلز پر دکھاتا ہے تو بھائی! ہمیں کون پڑھے؟
کون صبح اخبارخریدے، اسے کھولے، خبریں تلاش کرے، پھر ادارتی صفحہ جہاں مجھ جیسے کم علم حضرات جو کسی قدر بور بھی ہیں انھیں پڑھے تو مان لینا چاہیے کہ ہم ماضی ہیں بلکہ بوسیدہ اوراق۔ جنھیں زمانے کی ہوا اڑائے پھرتی ہے یا اخباری شکل میں گھر کا سودا سلف باندھنے کے کام آتے ہیں۔ دوستوں سے معذرت کے ساتھ براہ کرم برا مت مانیے گا۔ جو حقیقت لگی اسے بیان کر دیا۔ لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ کوشش ترک نہ کیجیے۔ قلم سنبھالے رہیے کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، ہمیں سنا جائے گا، پڑھا جائے گا۔ بس ذرا معاشرے کو استوار ہو لینے دیجیے۔
سیاسی موسم کا ذکر میں عرض ہے، ایک بہت بڑے اینکر دو روز قبل اپنی چڑیا بٹھاتے بٹھاتے باز بھی بٹھا گئے۔ ان کے بقول 2 نومبر پہلے سے تحریر شدہ ہے۔ بات آدمیوں کے جمع جوڑ کی ہے کہ عمران خان کتنے بڑے لشکرکے ساتھ اپنے ہی ملک کے دارالحکومت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ تعداد اگر متاثرکن ہوئی یعنی لاکھوں میں تو بڑی سرکار وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں وہ MQM کے دھڑوں میں جاری رسہ کشی کو بھی دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر ماضی نما ہاتھ رکھ دیا جائے گا۔
میں ان سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنی دانست میں سمجھتا ہوں کہ وہ چڑیا چڑیا کھیلیں۔ شاہین اور باز نہ پالیں۔ یہ مہنگے شوق اور خطرناک پرندے ہیں۔ ہمارے سپہ سالار واقعی سپاہی ہیں۔ وہ سپاہی جس کی تلوار ضرب عضب شافی، جس کی دھار دہشتگردوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتی ہے۔ لیکن جس کے اصول ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا غیر قانونی، غیرآئینی اقدام کرے گا، جو ملک اورقوم کے لیے مضر ہو۔ مجھے اس کی قطعاً توقع نہیں۔ ہاں اپنے حکمرانوں سے ہے۔ سیاستدانوں سے ہے کہ وہ ملک سے کھیلتے رہے اب تک کھیلتے رہے اور اب بھی اپنے اپنے شوق کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
عمران خان کو وزیراعظم تو صرف اللہ ہی بنا سکتا ہے، انسانوں کے بس کا یہ کام نہیں۔ کیونکہ ان کی ضد ان ہی کی راہ کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ ان کی انا انھیں ایک اچھا انسان، ایماندار رہنما ہونے کے باوجود خود سے نکلنے نہیں دیتی۔ ان کے گرد و پیش میں موجود ان کے Left, Right اب ان پر کی گئی سرمایہ کاری کا ثمر چاہتے ہیں۔ انھیں نہیں پرواہ کہ 2 نومبر کی ناکامی عمران خان کو کہاں سے کہاں لے جائے گی۔ ملک گیر جماعت کا کیا مستقبل رہ جائے گا۔ وہ سرمایہ دار و سرمایہ کار ہیں۔ انھیں اب نتیجہ چاہیے۔ آر...یا پار...! بدقسمتی یہ ہے کہ کہانی کے دونوں انجام خیرکی طرف نہیں جاتے۔