آپ کے لیے کوئی پریشان نہیں ہے
اسلام آباد کے پُر فضا اقتدار کے ایوانوں میں کوئی آپ کے بارے میں فکرمند اور پریشان ہے
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کے پُر فضا اقتدار کے ایوانوں میں کوئی آپ کے بارے میں فکرمند اور پریشان ہے تو براہِ مہربانی آپ اس بات پر فکرمند اور پریشان ہونا چھوڑ دیجیے اور اپنی جان بلاوجہ ہلکان مت کیجیے، اس لیے کہ ان ایوانوں میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ اسے سمجھ لیں اور جاننے کے لیے پہلے عظیم جرمن شاعر اور ناول نگار گوئٹے کا تجربہ ملاحظہ فرماتے ہیں۔ 1775ء میں گوئٹے کو ڈیوک کارل آگسٹس کی فرمائش پر ویمر کے دربار میں کچھ عرصہ قیام کرنے کی دعوت دی گئی۔
ڈیوک کے فیملی ممبرز چاہتے تھے کہ دیمر کی ریاست کو ایک بڑے ادبی مرکز کی شناخت ملے اور ان کے خیال میں گوئٹے کے قیام سے ان کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ گوئٹے کی آمد کے فوراً بعد ڈیوک نے اسے اپنی کابینہ میں عہدہ دے کر اپنا ذاتی مشیر بنا لیا، چنانچہ گوئٹے نے وہاں ٹکنے کا فیصلہ کر لیا۔ گوئٹے کا خیال تھا کہ وہاں قیام کر نے سے دنیاوی امور کے بارے میں اس کے ویژن اور تجربات میں اضافہ ہو گا، جسے وہ ویمر حکومت کی بہتری کے لیے بروئے کار لا سکے گا۔
گوئٹے کا تعلق مڈل کلاس پس منظر سے تھا اور اسے درباری اشرافیہ کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دربار میں معزز رکن کی حیثیت سے اسے شاہی آداب اور طور طریقے سیکھنا تھے مگر چند ماہ قیام کے بعد ہی گوئٹے کے دربار کی زندگی ناقابل برداشت ہو گئی۔
شاہی درباریوں کی زندگی تاش کھیلنے شکار کھیلنے اور لایعنی گپ شپ کے گرد گھومتی تھی مثلاً کوئی اسٹیج ڈراما دیکھنے کے بعد ایک طویل اور بے مقصد بحث شروع ہو جاتی کہ ڈرامے میں کونسا اداکار کس کے ساتھ اسٹیج پر آیا تھا فلاں اداکارہ سین میں کیسی لگ رہی تھی وغیرہ، مگر وہ ڈرامے پر کبھی گفتگو نہ کرتے تھے وہاں بیٹھا گوئٹے کبھی دربار میں اصلاحات کی بات کر دیتا تو سب بھڑک اٹھتے کہ ان اصلاحات کا فلاں وزیر پر کیا اثر پڑے گا اور فلاں وزیر کی وزارت کا کیا بنے گا اور تھوڑی دیر بعد گوئٹے کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی۔
اگرچہ گوئٹے اپنے وقت کے مشہور ناول The Sorrows of Young Wertherکا مصنف تھا مگر کسی کو اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ان کی کو شش ہوتی کہ وقت کے ناول نگار کے روبرو اپنے خیالات کا اظہار کریں اور پھر ان پر اس کی رائے جانیں، آخر میں ان کی باتیں درباری سازشوں تک محدود ہو جاتیں۔
گوئٹے کو لگا کہ وہ پھنس گیا ہے اس نے تو بڑی سنجیدگی سے ڈیوک کی دعوت قبول کی تھی مگر اب اس کے لیے درباری زندگی ناقابل برداشت ہو گئی تھی وہ ایک حقیقت پسند انسان تھا سو چا کہ جس ماحول کو وہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس کے بارے میں شکوے شکایتیں بے سود ہیں گوئٹے نے ایک حکمت عملی اپنائی اور اس میں سے خیر کا پہلو نکال لیا اس نے درباری مصاحبین کو اپنا دوست بنا لیا، وہ بہت کم بولتا اور شاید ہی کسی معاملے پر اپنی رائے دیتا وہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کو اپنے پسندیدہ موضوع پر بات کرنے کا موقع دیتا وہ اپنے چہرے پر خوش مزاجی کا نقاب اوڑھے بس دوسروں کو سنتا رہتا مگر درحقیقت وہ اس شخص کا یوں مشاہدہ کرتا جیسے وہ اسٹیج پر کوئی اداکاری کر رہا ہو۔
ہر شخص اپنے راز اپنے منصوبے اور لایعنی خیالات اس کے سامنے اگل دیتا و ہ بس مسکراتا رہتا اور ان کو ہاں میں ہاں ملاتا رہتا۔ درباری امراء کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کس طرح اس مستقبل میں لکھے جانے والے ڈراموں اور ناول کے لیے کردار، مکالمے اور کہانیوں کا مواد فراہم کر رہے تھے۔
آپ گوئٹے کا تجربہ پڑھنے کے بعد بھی اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے آپ کی پر یشانیوں اور آپ کے مسائل پر پریشان ہیں تو پھر آپ خود ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔ آپ اسی وقت اٹھیے اور اپنا رخ اپنے علاقے کی کباڑیوں کی دکانوں کی طرف کر دیجیے اور پہلی دکان پاتے ہی زور سے نعر ہ مارکر اس کے کاڑکباڑ میں گھس جائیے۔
امید نہیں یقین ہے کہ آپ کے ہاتھ میں تھوڑی ہی دیر بعد وہ عظیم طلسمی انگوٹھی لگ چکی ہو گی کہ جسے پہن کر آپ غائب ہو سکتے ہیں اور آپ سب کو دیکھ سکتے ہیں اور انھیں سن سکتے ہیں لیکن کوئی آپ کو نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے اور پھر وہ انگوٹھی آپ حفاظت سے اپنی جیب میں ڈال کر اپنا رخ سیدھا اپنے علاقے کے ریلوے اسٹیشن کی طرف کر دیجیے۔
ریلو ے اسٹیشن پہنچ کر آپ فوراً اسی قلی کو پکڑ لیجیے جو اپنا کام کرنے کے بجائے بینچ پر آرام سے بیٹھا ہوا ہو اور سگریٹ کے کش پر کش لگا رہا ہو۔ اس کے ہاتھ میں کرارے کرارے چند نوٹ رکھ دیجیے اور پنڈی جانے والی پہلی ٹرین کا ٹکٹ حاصل کر لیجیے اور پھر پنڈی پہنچ کر آپ پہلے ریلوے اسٹیشن پر نہائیے اور پھر آپ سیدھا ٹیکسی اسٹینڈ کا رخ کر لیجیے اور بھاؤ طے کر کے اس میں آرام سے بیٹھ جایے، جب ٹیکسی آپ کو اقتدار کے ایوانوں سے بہت دور اتار چکے تو آپ اترنے کے بعد جاسوسوں کی طرح چاروں طرف اچھی طرح سے دیکھیے کہ کوئی مشتبہ آدمی آپ کو دیکھ تو نہیں رہا ہے اور پھر فوراً اپنی جیب سے وہ انگوٹھی نکالیے اورآپ ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اسے پہن لیجیے اور جب آپ اسے پہن چکے ہوں گے تو دوسرے لمحے آپ غائب ہو چکے ہوں گے اور پھر آپ اپنا پسندیدہ گانا گنگنا تے ہوئے اپنا رخ سیدھا ایوانوں کی طرف کر دیجیے اور تھوڑی ہی دیر بعد آ پ ان ایوانوں میں اپنے گھر کی طرح گھوم پھر رہے ہونگے جس میں آپ انگوٹھی پہنے بغیر ساری زندگی دروازوں کی پا س بھی نہیں پھٹک سکتے تھے۔
اب آپ خود ان ایوانوں میں سارا دن کیا کچھ ہوتا ہے، دیکھ ہی لیجیے ان کی سوچ، ان کے خیالات ان کے کارنامے ان کے اقدامات اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں سے دیکھ اور سن بھی لیجیے اور پھر چند گھنٹوں بعد آپ اپنی جوتی ان ایوانوں میں چھوڑ کر توبہ توبہ کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی طرف اندھا دھند بھاگ رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی برا بھلا کہہ رہے ہوں گے کہ میں اپنے اس تجربے سے پہلے ہی گوئٹے کی بات پر ایمان کیوں نہ لے آیا اور جب آپ بھاگتے بھاگے ریلو ے اسٹیشن پہنچ جائیں تو پھر آپ اطمینان اور چین سے کسی بھی بینچ پر بیٹھ کر اپنا سانس درست کیجیے پھر کسی بھی ٹھیلے سے تمام بیماریوں کے جراثیم سے بھرپور پانی کا ایک گلاس پیجیے۔ اب خدارا آپ اپنے کو اور دوسروں کو بر ا بھلا کہنا بند کر دیجیے۔
طلسمی انگوٹھی کو اتار کر کسی بھی فقیر کو دے دیجیے اور مفت میں دو چار دعائیں حاصل کر لیجیے اورسیدھا قلی بادشاہ کو ڈھونڈیے اور پھر گھر پہنچ کر اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے دوبارہ سے پر یشان اور فکرمند ہونا شروع کر دیجیے۔
ڈیوک کے فیملی ممبرز چاہتے تھے کہ دیمر کی ریاست کو ایک بڑے ادبی مرکز کی شناخت ملے اور ان کے خیال میں گوئٹے کے قیام سے ان کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ گوئٹے کی آمد کے فوراً بعد ڈیوک نے اسے اپنی کابینہ میں عہدہ دے کر اپنا ذاتی مشیر بنا لیا، چنانچہ گوئٹے نے وہاں ٹکنے کا فیصلہ کر لیا۔ گوئٹے کا خیال تھا کہ وہاں قیام کر نے سے دنیاوی امور کے بارے میں اس کے ویژن اور تجربات میں اضافہ ہو گا، جسے وہ ویمر حکومت کی بہتری کے لیے بروئے کار لا سکے گا۔
گوئٹے کا تعلق مڈل کلاس پس منظر سے تھا اور اسے درباری اشرافیہ کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دربار میں معزز رکن کی حیثیت سے اسے شاہی آداب اور طور طریقے سیکھنا تھے مگر چند ماہ قیام کے بعد ہی گوئٹے کے دربار کی زندگی ناقابل برداشت ہو گئی۔
شاہی درباریوں کی زندگی تاش کھیلنے شکار کھیلنے اور لایعنی گپ شپ کے گرد گھومتی تھی مثلاً کوئی اسٹیج ڈراما دیکھنے کے بعد ایک طویل اور بے مقصد بحث شروع ہو جاتی کہ ڈرامے میں کونسا اداکار کس کے ساتھ اسٹیج پر آیا تھا فلاں اداکارہ سین میں کیسی لگ رہی تھی وغیرہ، مگر وہ ڈرامے پر کبھی گفتگو نہ کرتے تھے وہاں بیٹھا گوئٹے کبھی دربار میں اصلاحات کی بات کر دیتا تو سب بھڑک اٹھتے کہ ان اصلاحات کا فلاں وزیر پر کیا اثر پڑے گا اور فلاں وزیر کی وزارت کا کیا بنے گا اور تھوڑی دیر بعد گوئٹے کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی۔
اگرچہ گوئٹے اپنے وقت کے مشہور ناول The Sorrows of Young Wertherکا مصنف تھا مگر کسی کو اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ان کی کو شش ہوتی کہ وقت کے ناول نگار کے روبرو اپنے خیالات کا اظہار کریں اور پھر ان پر اس کی رائے جانیں، آخر میں ان کی باتیں درباری سازشوں تک محدود ہو جاتیں۔
گوئٹے کو لگا کہ وہ پھنس گیا ہے اس نے تو بڑی سنجیدگی سے ڈیوک کی دعوت قبول کی تھی مگر اب اس کے لیے درباری زندگی ناقابل برداشت ہو گئی تھی وہ ایک حقیقت پسند انسان تھا سو چا کہ جس ماحول کو وہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس کے بارے میں شکوے شکایتیں بے سود ہیں گوئٹے نے ایک حکمت عملی اپنائی اور اس میں سے خیر کا پہلو نکال لیا اس نے درباری مصاحبین کو اپنا دوست بنا لیا، وہ بہت کم بولتا اور شاید ہی کسی معاملے پر اپنی رائے دیتا وہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کو اپنے پسندیدہ موضوع پر بات کرنے کا موقع دیتا وہ اپنے چہرے پر خوش مزاجی کا نقاب اوڑھے بس دوسروں کو سنتا رہتا مگر درحقیقت وہ اس شخص کا یوں مشاہدہ کرتا جیسے وہ اسٹیج پر کوئی اداکاری کر رہا ہو۔
ہر شخص اپنے راز اپنے منصوبے اور لایعنی خیالات اس کے سامنے اگل دیتا و ہ بس مسکراتا رہتا اور ان کو ہاں میں ہاں ملاتا رہتا۔ درباری امراء کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کس طرح اس مستقبل میں لکھے جانے والے ڈراموں اور ناول کے لیے کردار، مکالمے اور کہانیوں کا مواد فراہم کر رہے تھے۔
آپ گوئٹے کا تجربہ پڑھنے کے بعد بھی اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے آپ کی پر یشانیوں اور آپ کے مسائل پر پریشان ہیں تو پھر آپ خود ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔ آپ اسی وقت اٹھیے اور اپنا رخ اپنے علاقے کی کباڑیوں کی دکانوں کی طرف کر دیجیے اور پہلی دکان پاتے ہی زور سے نعر ہ مارکر اس کے کاڑکباڑ میں گھس جائیے۔
امید نہیں یقین ہے کہ آپ کے ہاتھ میں تھوڑی ہی دیر بعد وہ عظیم طلسمی انگوٹھی لگ چکی ہو گی کہ جسے پہن کر آپ غائب ہو سکتے ہیں اور آپ سب کو دیکھ سکتے ہیں اور انھیں سن سکتے ہیں لیکن کوئی آپ کو نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے اور پھر وہ انگوٹھی آپ حفاظت سے اپنی جیب میں ڈال کر اپنا رخ سیدھا اپنے علاقے کے ریلوے اسٹیشن کی طرف کر دیجیے۔
ریلو ے اسٹیشن پہنچ کر آپ فوراً اسی قلی کو پکڑ لیجیے جو اپنا کام کرنے کے بجائے بینچ پر آرام سے بیٹھا ہوا ہو اور سگریٹ کے کش پر کش لگا رہا ہو۔ اس کے ہاتھ میں کرارے کرارے چند نوٹ رکھ دیجیے اور پنڈی جانے والی پہلی ٹرین کا ٹکٹ حاصل کر لیجیے اور پھر پنڈی پہنچ کر آپ پہلے ریلوے اسٹیشن پر نہائیے اور پھر آپ سیدھا ٹیکسی اسٹینڈ کا رخ کر لیجیے اور بھاؤ طے کر کے اس میں آرام سے بیٹھ جایے، جب ٹیکسی آپ کو اقتدار کے ایوانوں سے بہت دور اتار چکے تو آپ اترنے کے بعد جاسوسوں کی طرح چاروں طرف اچھی طرح سے دیکھیے کہ کوئی مشتبہ آدمی آپ کو دیکھ تو نہیں رہا ہے اور پھر فوراً اپنی جیب سے وہ انگوٹھی نکالیے اورآپ ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اسے پہن لیجیے اور جب آپ اسے پہن چکے ہوں گے تو دوسرے لمحے آپ غائب ہو چکے ہوں گے اور پھر آپ اپنا پسندیدہ گانا گنگنا تے ہوئے اپنا رخ سیدھا ایوانوں کی طرف کر دیجیے اور تھوڑی ہی دیر بعد آ پ ان ایوانوں میں اپنے گھر کی طرح گھوم پھر رہے ہونگے جس میں آپ انگوٹھی پہنے بغیر ساری زندگی دروازوں کی پا س بھی نہیں پھٹک سکتے تھے۔
اب آپ خود ان ایوانوں میں سارا دن کیا کچھ ہوتا ہے، دیکھ ہی لیجیے ان کی سوچ، ان کے خیالات ان کے کارنامے ان کے اقدامات اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں سے دیکھ اور سن بھی لیجیے اور پھر چند گھنٹوں بعد آپ اپنی جوتی ان ایوانوں میں چھوڑ کر توبہ توبہ کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی طرف اندھا دھند بھاگ رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی برا بھلا کہہ رہے ہوں گے کہ میں اپنے اس تجربے سے پہلے ہی گوئٹے کی بات پر ایمان کیوں نہ لے آیا اور جب آپ بھاگتے بھاگے ریلو ے اسٹیشن پہنچ جائیں تو پھر آپ اطمینان اور چین سے کسی بھی بینچ پر بیٹھ کر اپنا سانس درست کیجیے پھر کسی بھی ٹھیلے سے تمام بیماریوں کے جراثیم سے بھرپور پانی کا ایک گلاس پیجیے۔ اب خدارا آپ اپنے کو اور دوسروں کو بر ا بھلا کہنا بند کر دیجیے۔
طلسمی انگوٹھی کو اتار کر کسی بھی فقیر کو دے دیجیے اور مفت میں دو چار دعائیں حاصل کر لیجیے اورسیدھا قلی بادشاہ کو ڈھونڈیے اور پھر گھر پہنچ کر اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے دوبارہ سے پر یشان اور فکرمند ہونا شروع کر دیجیے۔