عمران خان کووزیر خارجہ بننے کی پیشکش
مگر آج ہمیں چچا چھکن کا نہیں بلکہ ان سے ملتے جلتے ایک کردار کا ذکر کرنا ہے
ہر محلے اور پڑوس میں ایک نہ ایک سب سے الگ تھلگ مخصوص اپنی ذات میں مگن کوئی ''ٹپیکل کیرکٹر'' ہوتا ہے جو خود کو عقل کل اور دوسرے تمام لوگوں کو احمق سمجھتا ہے۔
ہمارے محلے میں بھی ایک ایسے ہی صاحب پائے جاتے ہیں، جو اپنے طورطریقوں، انداز و اطوار اور خیالات میں اردو ادب کے مشہور و معقول کردار چچا چھکن سے ملتے جلتے ہیں جو اپنے دقیانوسی نام کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ورنہ ان کا کوئی انگریزی نما ماڈرن نام ہوتا تو دنیا بھر میں ان کا چرچا ہو رہا ہوتا۔
مگر آج ہمیں چچا چھکن کا نہیں بلکہ ان سے ملتے جلتے ایک کردار کا ذکر کرنا ہے جو ہمارے محلے میں رہتے ہیں اور ہمیں ان کے حضور ''زانوئے ادب'' طے کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے، ہمارے جاننے والے یہ صاحب جن کو ہم سمیت ان سے بڑی عمر کے لوگ بھی ''انکل'' کہتے ہیں دنیا جہان کے ہر موضوع پر اظہار خیال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کی ایک پرانی عادت یہ بھی ہے کہ وہ کوئی موضوع چن لیتے ہیں جس پر ان کی سوئی گویا اٹک سی جاتی ہے۔
آج کل وہ جس موضوع پر لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ نواز شریف اور عمران خان کے باہمی تعلقات ہیں جو ان کے خیال میں چٹکی بجانے میں حل ہو سکتے ہیں اور ہاں وہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا تذکرہ بڑے ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ قومی امور و تنازعات کو بہت سیدھا سادہ اور آسان سمجھتے ہیں جو تھوڑی سی کوشش سے حل ہو سکتے ہیں۔
پچھلے ہفتے ہی وہ کہنے لگے میاں میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی نواز شریف، عمران صاحب کو وزیر خارجہ کیوں نہیں بنا دیتے سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا، عمران خان غیر ملکی دوروں پر چلے جائیں گے اور نواز شریف سکون و اطمینان سے سی پیک پر لگ جائیں گے اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
ہمیں بالآخرکہنا پڑا 'انکل' آپ کے ساتھ پرابلم یہ ہے کہ آپ چیزوں کو بہت آسان سمجھتے ہیں آپ کے خیال میں ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے لیے اقتدار کی قربانی دے دے گا۔
لیکن انکل اپنی بات پر اڑے رہے۔ نواز شریف کو سوچنا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حکومت نہیں کر سکتے ایک نہ ایک دن ضرور انھیں اقتدار چھوڑنا ہے اگر یہ عمل سکون و اطمینان سے ہوتا ہے تو دونوں کو آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ہو گا، انکل کا تیر بہ ہدف نسخہ یہی ہے کہ عمران خان کو وزیر خارجہ بنا دیا جائے۔ اسی تجویز پر عمل کرنے میں دونوں کا فائدہ ہے۔ اچھی صحت کے ساتھ طویل زندگی میسر ہے تو سب کچھ ہے ورنہ ہر چیز بیکار ہے اب آپ کا مقصد بلکہ زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ جائیداد، املاک، بینک بیلنس، جاہ و حشم، شان و شوکت جو کچھ کما لیا ہے اسے بچائیں اور اس کا بہترین طریقہ اپنے کٹر مخالف سے کسی نہ کسی قسم کا سمجھوتہ کر لینا ہے۔
عمران خان کو بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی ہو گی اور اپنا Do Or Die والا طرز عمل چھوڑنا ہو گا۔ہمارے محلے کے انکل کا خیال ہے کہ جیسے ہی نواز شریف ، عمران خان کو آؤٹ آف دی وے جاکر وزیر خارجہ بننے کی دعوت دیں گے عمران میں مطلوبہ تبدیلی آ جائے گی۔ ان کا سارا غصہ، برہمی اور جھنجھلاہٹ شرمندگی بلکہ پچھتاوے میں بدل جائے گا۔
ہمارے انکل کی یہ ''بے پر کی'' اپنی جگہ مگر بعض باخبر ذرایع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بقول شاعر دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ ایسے خطوط پر کام ہو رہا ہے۔ کچھ درمیان کے لوگ یہ نیک کام کر رہے ہیں یوں تو ''درمیان کے لوگوں'' کو برا سمجھا جاتا ہے مگر جب سیاست میں ''پولرائزیشن'' بہت بڑھ جائے تو درمیان کے لوگوں کا کردار خاصا اہم ہو جاتا ہے چنانچہ موجودہ صورتحال میں بھی بیچ کے لوگ نواز شریف کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ جی کڑا کر کے عمران کو وزیر خارجہ بننے کی دعوت دے ڈالیں جب کہ ایسے ہی کچھ لوگ خان صاحب کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں وزارت خارجہ قبول کر لیں۔ وہ ایک مرتبہ سرکاری ٹینٹ میں داخل ہوکر بنفس نفیس یہ دیکھ سکتے ہیں کہ واقعی کرپشن ہو رہی ہے یا نہیں۔ بھٹو صاحب نے بھی ابتدا وزارت خارجہ سے کی تھی اور وہ بعد میں وزیر اعظم بن گئے تھے۔
درمیان کے لوگ موجودہ وزیراعظم کو یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ وہ عمران خان کو ایک ایسا عہدہ پیش کر رہے ہیں جو اس وقت وجود ہی نہیں رکھتا۔ وہ تھوڑی سی قربانی دے کر ایک بہت بڑے خطرے کو ٹال سکتے ہیں اور ایک سمجھدار جرنیل وہی ہوتا ہے جو آیندہ چل کر ہونے والے نفع و نقصان کا اندازہ کر کے وقتی طور پر RETREAT کر کے جوابی حملہ کرتا ہے اور سامنے نظر آنے والی شکست کو فتح میں بدل دیتا ہے۔
سچی بات ہے یہ پیشکش عمران خان کو بھی ایک بڑے امتحان سے دوچار کر دے گی ایک دفعہ کو تو وہ بھی سکتے میں آجائیں گے کہ یہ پیشکش قبول کریں یا نہیں۔ ایک وزیر خارجہ کو دنیا کی اہم شخصیات سے ملنے کا موقع ملتا ہے ورلڈ میڈیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے موقعے پر وہ Extempore اچھی بین الاقوامی معیار کی انگریزی بول کر دنیا بھرکو متاثر کر سکتے ہیں اور خود کو وزیراعظم کا ایک طاقتور امیدوار ثابت کر سکتے ہیں۔
طویل میعاد میں یہ پیشکش میاں صاحب کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسا کہ ہم نے دور سے انھیں اسٹڈی کیا ہے وہ خاصے فراخدل اور نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے خدانخواستہ کرپشن کی بھی ہو گی (جس کے بڑے چرچے ہیں) تو جی کڑا کر کے دوسروں کے کہنے پر گھر والوں کے فائدے کے لیے کی ہو گی۔ زیادہ تر زمیندار، جاگیردار اور صنعتکار یہی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ملک ایسے ہی لوگوں کے لیے بنا تھا ہم جیسے لوگ تو تماشا دیکھنے آ گئے تھے اور جو لوگ اس سلسلے میں تبدیلی لانا چاہتے تھے ان کا حشر ہم سب کے سامنے ہے جن کو دنیا بھر کے لیے مثال بنا دیا گیا۔
تو ہم میاں صاحب کی بات کر رہے تھے ان میں پوری پوری صلاحیت ہے کہ وہ عمران کو اس قسم کی پیشکش کر سکتے ہیں کہ خان صاحب آئیے! کچھ کر کے دکھائیے اور ہمارے قریب آ کر ذرا دیکھیے کہ کیا ہم واقعی وہ کچھ لوٹ مارکر رہے ہیں جس کے آپ رات دن دعوے کرتے ہیں۔ آپ کو بہت جلد یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے۔
اگر میاں صاحب واقعی عمران خان کو منانے اور وزیر خارجہ بنانے میں کامیاب ہو گئے اور آیندہ چل کر عمران خان نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے کچھ کارنامے انجام دیے تو یقینا اس کا کریڈٹ میاں صاحب کو بھی جائے گا کہ انھوں نے اس اہم ذمے داری کے لیے ایک صحیح شخصیت کا چناؤ کیا تھا اور یہ ان کا لگایا ہوا پودا ہی ہے جو تناور درخت بن گیا ہے۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ خان صاحب یہ پیشکش قبول نہ کریں اور جوابی حملہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کریں کہ میاں صاحب کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے اور انھوں نے اپنے ناگزیر حشر کے پیش نظر اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے یا انھوں نے اپنے بدترین مخالف کو Bribe کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ردعمل پر بھی زیادہ تر لوگ میاں صاحب کی تعریف اور ان سے ہمدردی کریں گے کہ ان کے مثبت رویے اور اچھے اور نیک جذبے کا اتنا غلط جواب دیا جا رہا ہے۔ بہرحال ہمارے انکل کے نزدیک ملک جس بحران سے دوچار ہے اس کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔