بھوک وافلاس کے نوحے
دولت وجائیداد کا نشہ ہی بہت ہوتا ہے بلکہ آسائشات کا ہونا اور بے شمار ہونا ہی ان کی زندگی میں لطف پیدا کرتا ہے
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا کو جہاں دیگر بہت سے مسائل کا سامنا ہے، وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ بھوک اورافلاس کا بھی ہے، یعنی دنیا کی بہت بڑی آبادی ایسی ہے جسے دووقت کی روٹی تو درکنار ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں گلوبل ہنگری انڈیکس کی حالیہ رپورٹ دنیا بھر کے صاحبان اقتدارکے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جس کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے بھوک کا شکار 118 ممالک کی جو فہرست جاری کی گئی ہے، اس میں پاکستان 11 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے 33.4 پوائنٹس ہیں، رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8 اعشاریہ ایک فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
بھوک اور غربت کا عفریت ہمارے بچوں کو ان کے بچپن ہی سے گھن کی طرح چاٹنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے یونیسیف نے بھی پاکستان میں غربت کی شرح کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا تھا کہ غذائی قلت کے شکار 5 سال سے کم عمر 44 فیصد بچے کبھی مکمل انسان نہیں بن پائیں گے۔ رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق یہ بچے بڑے ہوکر اپنی اگلی نسل جیسی قامت اختیار نہیں کر پائیں گے یعنی صرف 15سال بعد پاکستان کی آدھی آبادی کے قد اپنی نسل کے باقی افراد کی نسبت چھوٹے ہونگے۔
پاکستان میں غربت کے خاتمے کے نعروں کے ساتھ حکمران اقتدارکے سنگھاسن تک پہنچتے رہے مگر آج بھی ہر سوغربت کا وہی عالم، غریبوں کا وہی حال ہے۔ سیاست دانوں کے دلفریب نعرے، جھوٹے وعدے اور دعوے باطل، یہ کیسا سماج ہے جو آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ امیر، امیر تر،غریب،غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے حکمراں اب یہ نعرہ زیادہ شدت سے لگانے لگے ہیں کہ ملک سے غربت جلد ختم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب غریب ہی نہیں رہے گا تو غربت کیسے باقی رہے گی؟
حاکموں کی زبانیں یہ کہتے نہیں تھکتیں کہ ہم نے ریکارڈ مدت میں اتنے پل بنا دیے، سائیکلوں کی جگہ موٹر سائیکلوں نے لے لی، اتنی بڑی تعداد میں موبائل فونز فروخت ہو رہے ہیں، ایئرکنڈشنرز کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، معیشت سنبھل گئی ہے، لوڈشیڈنگ کا جلد خاتمہ کردینگے۔ مگر عالی جاہ! اعداد وشمار مرتب کرنیوالوں کو یہ بھی بتلادیجیے کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے۔ خود کو قوم کا لیڈر کہلانے والے ہمارے سیاستدانوں سے ماضی میں کیا کچھ سرزد نہیں ہوا۔ ایک بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان کی سیاست نظریاتی طور پر بانجھ ہے۔
ہمارے سیاستدان اصل میں سیاسی مہم جو ہیں یا سیاسی سٹے باز، سیاسی بازی گر ہیں یا سیاسی شارپرز، اگر یہ واقعی سیاستدان ہوتے تو پاکستانیوں اور پاکستان کی حالت یہ نہ ہوتی۔ عذاب در عذاب اور سراب در سراب کا ڈراؤنا کھیل کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ یہ نام نہاد قائدین جو اپنی ساکھ سنبھالنے کے قابل بھی نہیں پاکستان جیسے مشکل ملک کو کیسے سنبھال سکتے ہیں؟ ہمارے سب سیاستدان مطلب پرست ہیں، ان میں سے جو بھی آتا ہے عوام کو مزید بد حال اور نڈھال کر دیتا ہے، شاید ان کے درمیان مقابلہ ہی اسی بات کا ہوتا ہے کہ عوام کو زیادہ ذلیل و رسواکون کر سکتا ہے۔
خود کو عوامی حکومت کہلوانے والی ہر حکومت نے عوام دشمنی اور عوام کشی کی تمام اخلاقی حدود عبور کی، حکمرانوں نے اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کے بجائے اثاثوں میں مسلسل اضافے کے لیے عوام کا خون نچوڑا ہے۔ آج ہم حزب اقتدار اور حزب اختلاف والوں پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ سب کے سب ہشاش بشاش نظر آتے ہیں اور پلٹ کر بے چارے عوام پر نگاہ ڈالے تو ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑتی نظر آتی ہے۔
جمہوریت کا مطلب عوام کی خدمت، عوام کے مسائل حل کرنا، عوام کی بدتر زندگی میں بہتری لانا اور حکومتی فیصلوں میں عوام کو شریک کرنا ہے لیکن پاکستان کی پوری جمہوری تاریخ جمہوریت کے ان مقاصد سے متصادم رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے جمہوریت کو کمائی کا طریقہ سمجھ لیا ہے۔ اپنی اپنی باری کے چکر میں قوم مجموعی طور پر جس گرداب میں پھنس چکی ہے، اس کا احساس کسی لیڈر،کسی حکمراں کو نہیں، پاکستان میں یہ روایت پڑ چکی ہے کہ جس ادارے سے وابستہ رہو، اس کو کھوکھلا کر دو کہ آیندہ موقع ملے یا نہ ملے۔
جب کوئی نئی حکومت آتی ہے سب سے پہلا راگ یہی الاپتی ہے کہ خزانہ خالی ہے پھر اس خالی خزانے میں جادوئی طاقت سے اتنا کچھ آ جاتا ہے کہ بیرون ممالک کے بینکوں میں نئے کھاتے کھل جاتے ہیں جنہوں نے دو کمروں کے صحن کی شکل بھی نہ دیکھی تھی، ان کے گھر جا کر دیکھے تو صرف سوئمنگ پول دیکھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جمہوریت میں بڑی برکت ہوتی ہے، یہ کروڑ پتیوں کو ارب پتی اور ارب پتیوں کوکھرب پتی بنا دیتی ہے، اس میدان کے صف اول کے تمام کھلاڑی انیس بیس کے فرق کے ساتھ ارب پتیوں کی فہرست میں ہی شامل ہیں۔موجودہ حکمرانوں اور سیاست دانوں پر نظر ڈالیے، ان کے اثاثوں کا جائزہ لیجیے، ان کی دولت کا شمار ممکن نہیں، ان کی جائیدادوں کا حساب آسان نہیں، ان کے کتنے گھر ہیں اورکن کن ممالک میں ہیں،کتنی کوٹھیاں ہیں، کتنی آف شورکمپنیاں ہیں، کتنے فلیٹ ہیں، کتنے زرعی فارمزہیں اور کتنی حویلیاں، کتنی گاڑیاں ہیں۔
کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں اور دنیا کے کس کس حصے میں ہیں، اندازہ ممکن ہی نہیں، مال بڑھانے کی تگ و دوکرتے ہیں، اس کے علاوہ انھیں کچھ سوجھتا ہی نہیں، دولت کی کثرت نے ان کا یہ حال کر رکھا ہے کہ اس کی چکا چوند میں انھیں کچھ بھی نظر آنا بند ہو گیا ہے، ماسوائے دولت کے۔ انھوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ہوس کی توکوئی حد نہیں لیکن زندگی کی حد تو ہے۔
یہ صحیح ہے کہ دولت وجائیداد کا نشہ ہی بہت ہوتا ہے بلکہ آسائشات کا ہونا اور بے شمار ہونا ہی ان کی زندگی میں لطف پیدا کرتا ہے، لیکن کب تک۔ موت پکارتی ہے تو انسان پیچھے مڑ کر دیکھ ہی نہیں پاتا، کچھ بھی ساتھ لے کر نہیں جا سکتا، خالی ہاتھ اس مٹی کے گھر میں جانا پڑتا ہے، جس کا رقبہ دوگز زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے۔
تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ میں لکھوانا، لوگوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لیے مسخرکر لینا، یہ موقع ہرکسی کو نہیں ملتا اور جس کو ملتا ہے وہ بے حد خوش نصیب ہوتا ہے لیکن ہمارے حکمران اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے بجائے دولت اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں، یہ تو صرف اپنی ہوس کے غلام ہیں، گھر، فیکٹریاں، محل، زرعی فارمز، بینک اکاؤنٹس، بھوک سے مرتی قوم کی طرف تو یہ آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے، ان کے زخموں کے مرہم کے طور پر ان کے پاس صرف بیانات ہیں اور یہ کھوکھلے بیانات عوام کے غم کا مداوا نہیں لیکن آخر کب تک۔