ماں بولی سے اتنی نفرت کیوں صاحب
گالی توگالی ہوتی ہےچاہے پنجابی میں ہویاپھرانگریزی میں لیکن افسوس کہ ہمارے مفت کےانگریزوں کوگالی صرف پنجابی میں لگتی ہے
تاریخ انسانی کی ابتداء سے ہی جن چیزوں کی انسان کو ضرورت رہی ہے زبان اُن میں سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں جہاں انسان بستے ہیں وہاں کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولی جاتی ہے۔ آپس میں رابطہ قائم کرنا ہو یا گفتگو، پیغام رسانی ہو یا احکام، زبان ہی ایسی چیز ہے جس نے انسانی زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق دنیا میں کم و بیش 6909 زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں سے 230 زبانیں صرف یورپ اور 2197 ایشیاء میں بولی جاتی ہیں۔ ان تمام زبانوں کی اپنے بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے ایک خاص اہمیت ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو یہاں قومی زبان اردو ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی کی اپنی اہمیت ہے اور اگر بات کریں پنجابی کی تو ملک کی 50 فیصد آبادی پنجابی سمجھتی یا بولتی ہے۔ پنجاب بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد دوسری زبانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح دوسری زبانوں کی بات کریں تو سندھی، بلوچی اور پشتو وہاں رہنے والے باسیوں کے لئے رابطے کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ، ادب، اور ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔
پچھلے دنوں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جب پنجاب کے ہی ایک نجی اسکول میں پرنسپل کی جانب سے طلباء کو نوٹس دیا گیا کہ اسکول کی حدود میں ''بیہودہ زبان'' بولنے سے گریز کیا جائے اور بیہودہ زبان کی وضاحت میں پنجاب کی ماں بولی ''پنجابی زبان'' کو بھی شامل کیا گیا۔ طالب علموں سے کہا گیا کہ وہ یہ نوٹس اپنے والدین سے دستخط کروا کر واپس جمع کروایں تاکہ کسی کارروائی کے نتیجے میں والدین کو اس کا علم ہو۔
نوٹس کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد جب عوام کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تو اسکول انتظامیہ کی تردید اس پہلے نوٹس سے بھی زیادہ افسوسناک اور احمقانہ تھی۔ تردید میں یہ کہا گیا کہ طلباء کو پنجابی میں گالیاں دینے سے گریز کرنے کا کہا گیا تھا۔ جی ہاں! آپ نے درست پڑھا کہ ''پنجابی میں گالیاں دینے سے گریز''۔ مگر وہ یہ لکھنا بھول گئے کہ گالی گالی ہوتی ہے پنجابی میں ہو اُردو یا پھر انگریزی میں۔ لیکن کیا کریں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے تئیں انگریزی بولنے والے مفت کے انگریزوں کو گالی صرف پنجابی میں گالی لگتی ہے۔ وگرنہ وہی بات انگریزی میں بہت عام اور قابلِ استعمال سمجھی جاتی ہے۔
تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجابی زبان کی تاریخ قبلِ مسیح تک جاتی ہے، اور ہزاروں برس سے یہ زبان اس خطّے کے لوگوں کے رابطے اور بول چال کی زبان رہی ہے۔ آج بھی بولنے والوں کے حساب سے دنیا کی چند بڑی زبانوں میں پنجابی کا شمار ہوتا ہے۔ اسی لئے غور کریں تو علم و ادب کا ایک خزانہ ملتا ہے۔ جس کے بہت کم حصّے سے جدید دنیا کی واقفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا ہر چھوٹا قصبہ اور بڑا شہر ادب کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔
قصور کی بات کریں تو بابا بُلھے شاہ کا نام صفِ اول کے ادیبوں، شعراء، مصنفّین اور صوفیوں میں لکھا جاتا ہے۔ جن کے کلام کو آج بھی دنیا کے کونے کونے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے پاکپتن کا رُخ کریں تو بابا فرؒید کا نام اور کلام اپنے اندر روشنی اور علم کا پیغام لئے چمک رہا ہے۔
پنجاب کے دارلحکومت لاہور کا تذکرہ ہو تو داتا علی ہجویری سے بات شروع ہوتی ہے، جن کے علم سے فیض یاب ہونے کے لئے برصغیر کے ہر کوچے سے عام لوگ آئے اور خاص بن کر لوٹے۔ شیخوپورہ کی بات کریں تو پنجابی کے شیکسپیئر سید وارث علی شاہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ جن کے کلام کا ترجمہ درجنوں زبانوں میں کیا جاچکا ہے اور دنیا بھر سے علم کے متلاشی ان کی درگاہ پر حاضری دینے کے لئے آتے ہیں۔ ان سب ہستیوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ اپنی ذات اور اپنے کلام میں ایک درسگاہ ہونے کے ساتھ آنے والے عہدوں کے لئے مشعل راہ بنے۔
لیکن حیرت اور افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب انہی کی دھرتی میں ان ہی کی زبان کے ساتھ ایسا سلوک ہو اور اسی پنجاب کے ایک اسکول کی جانب سے طلباء کو ان کی مادری زبان کے بارے میں ایسی ہدایات دی جائیں۔ لیکن کیا کریں کہ یہ اب کوئی نئی بات نہیں رہی بلکہ ہم اس کلچر کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رواج بن گیا ہے کہ اپنی زبان بولنے سے آپ جاہل نہیں تو کم علم، پینڈو، گنوار اور معاشرے میں کم تر لگتے ہیں۔ جبکہ امپورٹڈ زبان بولنے سے آپ کی گئی گزری شخصیت بھی ایک معتبر حیثیت میں نظر آتی ہے اور اس کے علاوہ یہ آپ کو صاحب علم ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ سننے والوں پر آپ کا رعب بھی جما دیتی ہے۔
ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں زیر تعلیم طلباء جتنی تیزی سے اپنے کلچر، تہذیب اور زبان سے دور ہو رہے ہیں اس لحاظ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ چند عشروں تک ہم اپنی شناخت کے بجائے محض دوسروں کی ایک کالونی بن کر رہ جائیں گے۔ ہم ہزاروں میل دور سے آئے کلچر کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ ہمیں اپنے کلچر میں موجود چیزیں اجنبی محسوس ہوتی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کے لکھاری یعقوب بنگش جو کہ استاد بھی ہیں، لکھتے ہیں کہ میں نے کلاس میں موجود طلباء سے مقامی لباس کے حوالے سے سوال کیا تو جواب ملا کہ ہمارا مقامی لباس شلوار قمیض ہے۔ جب میں نے کہا کہ ''دھوتی کرتا'' زیادہ مقامی لگتا ہے تو سب نے حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ وہ تو گاؤں میں پہنتے ہیں۔
ایسے ماحول میں جب آنے والی نسلیں اپنی تاریخ اور ادب کی اہمیت سے لاعلم ہوں گی تو ان کے لئے بھلا زبان کی اہمیت کہاں باقی رہ سکے گی؟
ایک جانب سندھ حکومت کی جانب سے سندھی کو اسکولوں میں لازمی قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب پنجاب کے اسکول پنجابی کو پڑھانا تو دور اسے بولنے سے بھی منع کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی کو مجرمانہ غفلت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ثقافت کے تحفظ کی ذمّہ داری حکومت کی ہے وہاں اس پر یہ پابندی بھی عائد ہوتی ہے کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کی صورت میں جواب طلبی حکومت کی جانب سے ہو۔ مگر لگتا ہے کہ یہ اپنے معاملات میں الجھی ہوئی ہے اور اس کے پاس ان 'فضول' اور غیر اہم کاموں کے لئے وقت کی بہت کمی ہے۔
ہمارے انگریزی بابوؤں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی زبان گھٹیا یا بیہودہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی اہمیت اس کے بولنے والوں کے نزدیک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر زبان کا اپنا مقام ہے۔ پست کوئی بھی نہیں ہوتا سوائے انسان کی سوچ کے، اور جب سوچ پست ہو تو بلندی پر اڑتے پرندے کا تجزیہ اسے بھی پستی پر لے آئے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق دنیا میں کم و بیش 6909 زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں سے 230 زبانیں صرف یورپ اور 2197 ایشیاء میں بولی جاتی ہیں۔ ان تمام زبانوں کی اپنے بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے ایک خاص اہمیت ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو یہاں قومی زبان اردو ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی کی اپنی اہمیت ہے اور اگر بات کریں پنجابی کی تو ملک کی 50 فیصد آبادی پنجابی سمجھتی یا بولتی ہے۔ پنجاب بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد دوسری زبانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح دوسری زبانوں کی بات کریں تو سندھی، بلوچی اور پشتو وہاں رہنے والے باسیوں کے لئے رابطے کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ، ادب، اور ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔
پچھلے دنوں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جب پنجاب کے ہی ایک نجی اسکول میں پرنسپل کی جانب سے طلباء کو نوٹس دیا گیا کہ اسکول کی حدود میں ''بیہودہ زبان'' بولنے سے گریز کیا جائے اور بیہودہ زبان کی وضاحت میں پنجاب کی ماں بولی ''پنجابی زبان'' کو بھی شامل کیا گیا۔ طالب علموں سے کہا گیا کہ وہ یہ نوٹس اپنے والدین سے دستخط کروا کر واپس جمع کروایں تاکہ کسی کارروائی کے نتیجے میں والدین کو اس کا علم ہو۔
نوٹس کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد جب عوام کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تو اسکول انتظامیہ کی تردید اس پہلے نوٹس سے بھی زیادہ افسوسناک اور احمقانہ تھی۔ تردید میں یہ کہا گیا کہ طلباء کو پنجابی میں گالیاں دینے سے گریز کرنے کا کہا گیا تھا۔ جی ہاں! آپ نے درست پڑھا کہ ''پنجابی میں گالیاں دینے سے گریز''۔ مگر وہ یہ لکھنا بھول گئے کہ گالی گالی ہوتی ہے پنجابی میں ہو اُردو یا پھر انگریزی میں۔ لیکن کیا کریں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے تئیں انگریزی بولنے والے مفت کے انگریزوں کو گالی صرف پنجابی میں گالی لگتی ہے۔ وگرنہ وہی بات انگریزی میں بہت عام اور قابلِ استعمال سمجھی جاتی ہے۔
تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجابی زبان کی تاریخ قبلِ مسیح تک جاتی ہے، اور ہزاروں برس سے یہ زبان اس خطّے کے لوگوں کے رابطے اور بول چال کی زبان رہی ہے۔ آج بھی بولنے والوں کے حساب سے دنیا کی چند بڑی زبانوں میں پنجابی کا شمار ہوتا ہے۔ اسی لئے غور کریں تو علم و ادب کا ایک خزانہ ملتا ہے۔ جس کے بہت کم حصّے سے جدید دنیا کی واقفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا ہر چھوٹا قصبہ اور بڑا شہر ادب کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔
قصور کی بات کریں تو بابا بُلھے شاہ کا نام صفِ اول کے ادیبوں، شعراء، مصنفّین اور صوفیوں میں لکھا جاتا ہے۔ جن کے کلام کو آج بھی دنیا کے کونے کونے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے پاکپتن کا رُخ کریں تو بابا فرؒید کا نام اور کلام اپنے اندر روشنی اور علم کا پیغام لئے چمک رہا ہے۔
پنجاب کے دارلحکومت لاہور کا تذکرہ ہو تو داتا علی ہجویری سے بات شروع ہوتی ہے، جن کے علم سے فیض یاب ہونے کے لئے برصغیر کے ہر کوچے سے عام لوگ آئے اور خاص بن کر لوٹے۔ شیخوپورہ کی بات کریں تو پنجابی کے شیکسپیئر سید وارث علی شاہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ جن کے کلام کا ترجمہ درجنوں زبانوں میں کیا جاچکا ہے اور دنیا بھر سے علم کے متلاشی ان کی درگاہ پر حاضری دینے کے لئے آتے ہیں۔ ان سب ہستیوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ اپنی ذات اور اپنے کلام میں ایک درسگاہ ہونے کے ساتھ آنے والے عہدوں کے لئے مشعل راہ بنے۔
لیکن حیرت اور افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب انہی کی دھرتی میں ان ہی کی زبان کے ساتھ ایسا سلوک ہو اور اسی پنجاب کے ایک اسکول کی جانب سے طلباء کو ان کی مادری زبان کے بارے میں ایسی ہدایات دی جائیں۔ لیکن کیا کریں کہ یہ اب کوئی نئی بات نہیں رہی بلکہ ہم اس کلچر کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رواج بن گیا ہے کہ اپنی زبان بولنے سے آپ جاہل نہیں تو کم علم، پینڈو، گنوار اور معاشرے میں کم تر لگتے ہیں۔ جبکہ امپورٹڈ زبان بولنے سے آپ کی گئی گزری شخصیت بھی ایک معتبر حیثیت میں نظر آتی ہے اور اس کے علاوہ یہ آپ کو صاحب علم ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ سننے والوں پر آپ کا رعب بھی جما دیتی ہے۔
ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں زیر تعلیم طلباء جتنی تیزی سے اپنے کلچر، تہذیب اور زبان سے دور ہو رہے ہیں اس لحاظ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ چند عشروں تک ہم اپنی شناخت کے بجائے محض دوسروں کی ایک کالونی بن کر رہ جائیں گے۔ ہم ہزاروں میل دور سے آئے کلچر کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ ہمیں اپنے کلچر میں موجود چیزیں اجنبی محسوس ہوتی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کے لکھاری یعقوب بنگش جو کہ استاد بھی ہیں، لکھتے ہیں کہ میں نے کلاس میں موجود طلباء سے مقامی لباس کے حوالے سے سوال کیا تو جواب ملا کہ ہمارا مقامی لباس شلوار قمیض ہے۔ جب میں نے کہا کہ ''دھوتی کرتا'' زیادہ مقامی لگتا ہے تو سب نے حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ وہ تو گاؤں میں پہنتے ہیں۔
ایسے ماحول میں جب آنے والی نسلیں اپنی تاریخ اور ادب کی اہمیت سے لاعلم ہوں گی تو ان کے لئے بھلا زبان کی اہمیت کہاں باقی رہ سکے گی؟
ایک جانب سندھ حکومت کی جانب سے سندھی کو اسکولوں میں لازمی قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب پنجاب کے اسکول پنجابی کو پڑھانا تو دور اسے بولنے سے بھی منع کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی کو مجرمانہ غفلت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ثقافت کے تحفظ کی ذمّہ داری حکومت کی ہے وہاں اس پر یہ پابندی بھی عائد ہوتی ہے کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کی صورت میں جواب طلبی حکومت کی جانب سے ہو۔ مگر لگتا ہے کہ یہ اپنے معاملات میں الجھی ہوئی ہے اور اس کے پاس ان 'فضول' اور غیر اہم کاموں کے لئے وقت کی بہت کمی ہے۔
ہمارے انگریزی بابوؤں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی زبان گھٹیا یا بیہودہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی اہمیت اس کے بولنے والوں کے نزدیک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر زبان کا اپنا مقام ہے۔ پست کوئی بھی نہیں ہوتا سوائے انسان کی سوچ کے، اور جب سوچ پست ہو تو بلندی پر اڑتے پرندے کا تجزیہ اسے بھی پستی پر لے آئے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔