ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور زیتون کی شاخ

عشرے گزر گئے کشمیریوں کو ان کا حق نہیں ملا بلکہ الٹا وہ بربریت، درندگی اور ظلم و ستم کا بدستور شکار ہیں


Editorial October 26, 2016
، فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD: وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت میں منعقد ہونے والی ''ہارٹ آف ایشیا'' کانفرنس میں شرکت کریگا۔یہ بات انھوں نے اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دن کے حوالے سے منعقدہ لوک ورثہ کی ایک نمائش میں شرکت کے بعد اخباری نمایندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، ان کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں ان کی شرکت وزارتی سطح پر ہوگی۔

بلاشبہ پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے تناظر میں یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی جس کے بعد ہوسکتا ہے کہ دوطرفہ ڈپلومیسی اور کشمیر کی اندوہ ناک صورتحال کے ادراک میں مزید بریک تھرو ہو تاہم اسے بعض مبصرین نے درد انگیز، جنگجویانہ، مخاصمانہ بھارتی رویے اور پاکستان کے خلاف لگاتار الزام تراشیوں کے گورکھ دھندے میں پاکستان کا ماسٹر اسٹروک قراردیا ہے۔

واضح رہے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان سمیت افغانستان، چین، بھارت، آذر بائیجان، تاجکستان، ترکمانستان ، قازقستان، روس، سعودی عرب، ایران، ترکی اور متحدہ عرب امارات شرکت کررہے ہیں، یہ کانفرنس قلب ایشیا کے نام سے ایشیا کو درپیش جن مسائل کا احاطہ کریگی اس کے اثرات و مضمرات عالمی ہونگے۔

دہشتگردی کے عفریت نے تقریباً دنیا کے تمام ممالک کو مشترکہ خواب اور ان کی تعبیروں کے حوالے سے ہارٹ آف ایشیا کے فورم پر اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا ہے تاہم اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کا فیصلہ حکومت پاکستان کا غیر معمولی فیصلہ ہے جو خطے کے دہکتی ہوئے منظر نامہ کے پیش نظر بھارت کے لیے چشم کشا اور خود احتسابی کا پیغام لیے ہوئے ہے۔

مودی سرکار زود پشیماں نہ بھی ہو تب بھی پاکستان نے دہشتگردی، خطے میں امن و سلامتی کی جانب جو پیش قدمی کی ہے امید یہی ہے کہ اس کا بھارت زمینی حقائق کے تناظر میں خندہ پیشانی سے خیر مقدم کریگا کیونکہ ایشیا کانفرنس کی کامیابی کا انحصار بھی حقیقت پسندی پر ہے، ورنہ اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ سارک کانفرنس میں پیدا ہونے والی بد مزگی، ناکامی اور بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ کی کانفرنس ادھوری چھوڑ کر دہلی روانگی افسوس ناک اور ہمیشہ زیر بحث رہے گی۔ تاہم سرتاج عزیز کے بیان سے برف پگھلنے کا امکان روشن ہوا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کی وسیع النظری، کشادہ دلی اور خطے کے دیرینہ تنازعات و مسائل کے پر امن اور پائیدار حل کی مسلسل بے لوث جستجو ہے کہ وہ ایشیا کانفرنس میں شرکت کررہا ہے۔ ایشیا کانفرنس کا تصور 2011ء میں پیش کیا گیا جس کا مقصد افغانستان کی شورش زدہ صورتحال کے مدنظر عمومی طور پر خطے کی سلامتی، اقتصادی ترقی، معاشی اشتراک و تعاون، غربت کے خاتمہ، دہشتگردی، انتہاپسندی سمیت عام آدمی کو درپیش مصائب کے حل کی اجتماعی کوششوں پر اتفاق تھا۔

اس اتفاق و تعاون کے خواب کی تعبیر کسی ایک ملک کے ہاتھ میں نہیں۔ اسے پاک بھارت تعلقات، افغانستان کے اندرونی حالات، دہشتگردی کے عفریت کی تباہ کاریوں کے آئینہ میں کشمیر ساز تاریخی پیش رفت پر منتج ہونا چاہیے۔

سرتاج عزیز نے افغان المیہ کو فراموش نہیں کیا بلکہ انھوں نے حال ہی میں طالبان وفد کے پاکستان آنے کی اطلاعات کی تصدیق کی اور اس بات کا یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی ہر ممکن حمایت کریگا ۔اسی طرح انھوں نے افغانستان میں چار ملکی تعاون گروپ سے رابطہ کا اعادہ کیا اور اور افغان ایشو کے حل کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔

اس خیر سگالی کا مقصد کیا ہے بجز خطے کو مجموعی ترقی ، خوش حالی ، دیرپا امن اور کثیر جہتی مفاہمت اور عملیت پسندی کے ، تاکہ امن دوست ہم خیال ممالک ایک دوسرے کے دکھ سکھ مین شریک ہوں اور خطے کے ایشوز منصفانہ طریقے سے حل کیے جاسکیں۔ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے فوجی مشن کو کشمیر کی صورتحال اور اس سے متعلق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کی اپیل کی۔

بھارت کو خود کشمیر کا باب حقیقت کھولنا چاہیے تاکہ دنیا اس کی کشمیر یوں کے خون سے تر سیکولرازم اور جمہوریت کا نظارہ کرسکے۔ حریت پسند لیڈر یٰسین ملک کی حالت خطرے میں ہے، ان کی اہلیہ مشعل ملک فریاد کناں ہیں کہ ان کی جان خطرے میں ہے ۔سیکڑوں نوجوان،معصوم بچے اور خواتین کے چہرے ان کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے چھلنی ہیں۔ یہ انسانیت سوز اقدامات ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا میزبان ہوتے ہوئے یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کی سلگتی ہوئی غیر انسانی صورتحال کا فوری ادراک کرے، کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو خود بھارت نے تسلیم کیا اور وہ استصواب رائے کو تسلیم کیا، مگر عالمی برادری کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہ رک سکی۔

عشرے گزر گئے کشمیریوں کو ان کا حق نہیں ملا بلکہ الٹا وہ بربریت، درندگی اور ظلم و ستم کا بدستور شکار ہیں، ن کی نئی نسل ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے فیصلہ کن مرحلہ میں ہے۔ اس لیے بھارت کے لیے ایشیا کانفرنس ایک داخلی خود احتسابی اور زیتون کی شاخ لے کر کانفرنس میں آنے کا زرین موقع ہے ۔وقت کا تقاضہ ہے مودی سرکار پاکستان کی کشادہ نظری اور خطے میں امن کے کاز کا مثبت جواب دے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں