کیا وہ غدار تھا
ملک میں بولی جانی والی ہر زبان قومی زبان قرار پائے گی
لاہور کے منٹو پارک میں 22سے 24مارچ 1940 کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کے سہ روزہ سیشن میں 20برس کاایک نوجوان بھی بنگال کے ضلع گوپال گنج سے شریک ہونے آیا تھا۔وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (MSF) کا سرگرم کارکن تھا اور ایک آزاد مسلم ریاست کا خواب آنکھوں میں سجائے لاہور پہنچا تھا۔ قرارداد لاہورکی منظوری دراصل اس کی آرزوؤںاور تمناؤں کی قبولیت تھی۔ اس نے واپس پہنچ کر پاکستان کے لیے مہم کو اپنا مشن بنا لیا۔
Baکے امتحانات سرپر تھے، مگر اس کے سامنے بڑا مشن تھا۔ اس نے امتحان نہیں دیا۔ سائیکل اٹھائی اور ضلع گوپال گنج کے ہر محلے ہر گلی کے صبح سے شام تک پھیرے لگاتا اور لوگوں کو نئے ملک پاکستان کے بارے میں آگہی دیتا رہا۔ اس کی تقریر جذباتی ہونے کے ساتھ مدلل اور جامع ہوتی۔ سات برس تک اسے نہ کھانے کی فکر تھی نہ سونے کی، بس ایک ہی لگن سمائی ہوئی تھی کہ جلد ازجلد نیا ملک بنے جہاں جناح کے تصورات کے مطابق صوبوں کو مکمل خود مختاری ہو اوراقلیتوںکومساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہ نوجوان شیخ مجیب الرحمان تھا۔
اس کی آرزوئیں اور امیدیں بر آئیں اور 14 اور 15 اگست کی درمیان شب نیا ملک وجود میں آگیا۔ دیگر ان گنت نوجوانوں کی طرح شیخ مجیب کو بھی پورا یقین تھا کہ نئے ملک میں جمہوریت ہوگی، وفاقیت ہوگی اور صوبائی خود مختاری ہوگی۔ ہر وفاقی اکائی کو اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبانوں کو فروغ دینے کا موقع ملے گا۔
ملک میں بولی جانی والی ہر زبان قومی زبان قرار پائے گی۔ جب کہ اس دھرتی پر مختلف زبانوں کی آمیزش سے جنم لینے والی خوبصورت زبان اردو ان سب کے درمیان رابطے کی زبان قرار پائے گی، مگر جلد ہی اس کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ اس کی آرزؤیں خاک میں مل گئیں، جب بیوروکریسی کے سرخیلوں نے بزورطاقت اردو کو قومی زبان بنانے کا یک طرفہ اعلان کردیا۔
اسے کیا معلوم تھا کہ وہ محمد علی جناح جو متحدہ ہندوستان میں جمہوریت، وفاقیت اور اقلیتوں کے حقوق کے سب سے بڑے چمپئین تھے، تقسیم کا فیصلہ ہوتے ہی بے دست و پا کر دیے جائیں گے، بلکہ ملک کے سپید و سیاہ کا مالک انھی کا ہم نام ایک بیوروکریٹ ہوجائے گا۔
تحفظات صرف بنگالی عوام ہی کو نہیں تھے، بلکہ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو بھی تھے کیونکہ 1946میں جس وفاقیت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس سے انحراف کرتے ہوئے، جبراً وحدانی نظام مسلط کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں حالانکہ پاکستان ایک وفاق کی شکل میں وجود میں آیا تھا جس میں پاکستان میں شامل ہونے والے صوبوں کی اسمبلیوں نے اپنی آزادی کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا تھا، سوائے NWFP، جہاں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔
بیوروکریسی نے جمہوریت کا گلا قیام پاکستان سے تین روز قبل یعنی 11اگست1947کو بانی ملک کی تقریر سنسر کرکے گھونٹ دیا تھا۔ یہی کچھ معاملہ ملک کے پہلے وزیراعظم کا تھا،جو فیصلہ سازی میں سیکریٹری جنرل کی منظوری کے رحم و کرم پر تھے۔
ایک ایسے ماحول میں جہاں جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری قوتیں نظم حکمرانی پر حاوی ہوجائیں، عوام کے جمہوری حقوق کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ مجیب الرحمان جس نے قیام پاکستان کے لیے دن رات جدوجہد کی تھی، جب اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کے لیے آواز اٹھاتا ہے، تو وطن دشمن قرار پاتا ہے۔ اسے 1948 میں دیگر بے شمار نوجوانوں کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان بنانے کے لیے احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی شیر بنگال مولوی فضل الحق سمیت کئی رہنما بھی حراست میں لے لیے جاتے ہیں۔
یہ وہی مولوی فضل الحق تھے، جنہوں نے لاہور میں پاکستان کی قرارداد پیش کی تھی۔ معاملہ صرف قومی زبان تک محدود نہیں تھا، بلکہ سرکاری ملازمتوں میں بنگالیوں کے ساتھ امتیاز اور دوسرے درجے کے شہری والا سلوک بھی تھا حد یہ کہ چوہدری محمد علی کی ہدایت پر انفارمیشن ڈپارٹمنٹ بنگالی صحافیوں کو خبریں تک دیر سے دیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے سابقہ مشرقی پاکستان کے اخبارات میں سرکاری خبریں ایک دن تاخیر سے شایع ہوا کرتی تھیں۔
جب زیادتیاں ناقابل قبول ہوگئیں، تو جون1949 میں بنگال سے تعلق رکھنے والے بیشتر رہنماؤں نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ''آل پاکستان عوامی مسلم لیگ'' قائم کی جس کی قیادت حسین شہید سہروردی، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی اور شمس الحق سمیت کئی بڑے رہنما کررہے تھے۔ 1953میں مسلم اور آل پاکستان کے الفاظ حذف کردیے گئے۔ یوں عوامی لیگ وجود میں آئی۔
1954میں جگتو فرنٹ (یونائیٹڈ فرنٹ) کے نام سے کئی جماعتی اتحاد قائم ہوا جس نے 21نکاتی ایجنڈے پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ کو بدترین شکست سے دوچار کردیا، مگر ہوا کے رخ کا ادراک کرنے کے بجائے اسکندر مرزا (میر جعفر کے لکڑ پوتے) کو گورنر مقرر کر کے ان کے ذریعے بنگالی رہنماؤں کو گرفتار کر کے بنگالی عوام کو کچلنے کانیا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد بنگالیوں کی سیاسی قوت ختم کرنے کے لیے1955میں پیرٹی کے اصول کے تحت بنگال کی عددی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کی گئی، لیکن ساتھ ہی مغربی حصے کے چھوٹے صوبوں کی وفاقی یونٹوں والی حیثیت ختم کردی گئی۔
اقتدار پر قابض حکمران اشرافیہ نے روز اول ہی سی مشرقی پاکستان کو ایک بوجھ سمجھا۔1962میں چین بھارت جنگ کے موقعے پر ایوب خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت اگر کشمیردے کر اس کے بدلے بیشک مشرقی بنگال لے لے، تو تعلقات بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ 1965کی جنگ میں سابقہ مشرقی پاکستان کو اللہ توکل بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔
تسلسل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ردعمل میں1966میں عوامی لیگ نے چھ نکات پیش کیے، تو ایوب خان نے شیخ مجیب سمیت عوامی لیگ کے کئی رہنماؤں کو اگرتلہ سازش کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔ مگر 1968میںجب عوامی احتجاج کے باعث ان کے اقتدار کی چولیں ہلنے لگیں، تو بھارت سے روابط جیسے الزامات واپس لے کر تمام رہنماؤں کو رہا کردیا۔
یہ بات بھی طے ہے کہ شیخ مجیب الرحمان سمیت عوامی لیگی قیادت علیحدگی پسند نہیں تھی۔ وہ پاکستان کے جغرافیے کے اندر رہتے ہوئے بنگالی عوام کے حقوق کے خواہاں تھے۔ مگر طالع آزما حکمرانوں نے حالات کو اس نہج تک پہنچادیا جہاں سے واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔ اس دعوے کے کئی ثبوت ہیں۔ سیارہ ڈائجسٹ نے1978 کے ایک شمارے میں شیخ مجیب مرحوم کا تفصیلی انٹرویو شایع کیا تھا جو لندن میں لیا گیا تھا جس میں شیخ مجیب مرحوم نے واضح طور پرکہا تھا کہ بنگالی عوام آزادی نہیں پاکستان کے جغرافیے میں اپنا حق چاہتے تھے۔ انھیں علیحدگی پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے مجبورکیا۔
ائیر مارشل ظفر چوہدری مرحوم جو شیخ مجیب الرحمان کو لے کر لندن گئے تھے خود راقم کوبتایا کہ دوران پرواز مجیب جہازکے کاک پٹ میں آگئے ۔ وہ مسلسل رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جس ملک کو بنانے میں میری جوانی لگی ہے، میں اسے کس طرح توڑ سکتا ہوں۔ ان کا اصرار تھا کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ اگر بنگالی عوام سے ظلم و زیادتی کی معافی مانگ لے، تو کم ازکم کنفیڈریشن کی شکل میں اب بھی دوبارہ ملاپ کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل سکتا ہے، مگر نخوت، تکبر اور جعلی طاقت کے زعم میں مبتلا پاکستانی اشرافیہ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا۔
داستانیں بہت طویل ہیں۔ لیکن وقت اور حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جن رہنماؤں پر حکمران اشرافیہ نے غداری کے الزام عائد کیے، عوام نے انھی کو سر آنکھوں پر بٹھایا، لیکن ان افراد کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا، جنہوں نے آئین شکنی کی، مقبول قیادت پر غداری جیسے قبیح الزامات عائد کرکے ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا رہا۔
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ان لوگوں پر کوئی مقدمہ قائم ہوسکے گا جنہوں نے مارچ1971میں اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد میں رخنے ڈالے جنہوں نے دانستہ ڈھاکا میں متوقع قومی اسمبلی کے سیشن کو موخر کر کے ملک کی تقسیم کا ذریعہ بنے، مگر شاید ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جن رہنماؤں نے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، وہ غدار قرار پائے۔ سوال صرف اتنا سا ہے کہ آیا باچا خان، سائیںجی ایم سید، میر غوث بخش بزنجو اور شیخ مجیب غدار تھے یامغربی پاکستان کی وہ اشرافیہ جس نے ان کی آواز دبا کر ملک کے وجود کو نقصان پہنچایا؟