ریگستان میں بہار
27 اور28 اکتوبر کو دوحہ قطر کے صحراؤں میں بہار کا سا سماں ہو گا
27 اور28 اکتوبر کو دوحہ قطر کے صحراؤں میں بہار کا سا سماں ہو گا' ادب کی قندیلیں روشن ہوں گی اور شاعری کے سر فضاؤں میں پھیلیں گے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس سے وہاں کی عالمی سطح پر جائی جانے والی ادبی تنظیم مجلس فروغ اردو ادب بغیر کسی تعطل کے دو عالمی ادبی ایوارڈز اور ایک عدد بین الاقوامی اردو مشاعرے کا اہتمام کرتی چلی آ رہی ہے جن کی گونج ادب کے ایوانوں میں سارا سال سنائی دیتی ہے یہاں تک کے اس کی جگہ اگلا ادبی میلہ لے لیتا ہے۔
اب تو یہ پودا ایک چھتنار درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر بائیس برس پہلے جب ملک مصیب الرحمن مرحوم نے برادرم محمد عتیق اور اپنے کچھ رفقاء کے ساتھ مل کر اس کا بیج ڈالا تھا تو اس وقت کسی کو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ آگے چل کر یہ دو روزہ ادبی تقریبات پوری اردو دنیا میں ایک حوالے کی چیز بن جائیں گی اور پاکستان اور بھارت سے باہر کی پوری اردو دنیا میں اس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکے گی۔
مجھے پہلی بار 1986 میں دوحہ یاترا کا اتفاق اس وقت ہوا جب مجھے وہاں کے پاکستانی اسکول کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا، اس وقت گل حنیف صاحب وہاں سفیر پاکستان تھے اور موجودہ سیکریٹری خارجہ برادر عزیز اعزاز چوہدری قونصلر کی ذمے داریاں نبھا رہے تھے، اس وقت بھی اگرچہ وہاں رشید نیاز' قاضی اصغر' نعیم بھائی' عدیل اکبر' ممتاز راشد اور کچھ دیگر احباب چھوٹی موٹی مقامی سطح کی ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے تھے مگر ادبی حوالے سے دوحہ قطر کو کوئی نہیں جانتا تھا۔
اب یاد نہیں کہ ملک مصیب الرحمن سے پہلی ملاقات کس تقریب میں ہوئی مگر ان کی محبت اور ادب کے ساتھ غیر معمولی وابستگی نے بہت متاثر کیا، معلوم ہوا کہ موصوف گوالمنڈی لاہور کے رہنے والے' سابق کھلاڑی اور حالیہ ایک بڑی مقامی کمپنی کے ورکس منیجر ہیں۔ شادی کا جھنجھٹ نہیں پالا، کتابیں پڑھنے' دوستوں کو کھلانے پلانے اور ہنسنے ہنسانے کے شوقین ہیں اور ادب سے متعلق لوگوں کی خدمت کر کے خوش ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اپنی قدرے تیز اور صاف گو طبیعت کی وجہ سے وہاں کے ادبی حلقوں میں زیادہ مقبول نہیں ہیں۔
ایک دو سرسری سی ملاقاتوں میں ہی ان سے ایک ایسا رشتۂ الفت قائم ہو گیا جو آج ان کی وفات کے تقریباً دس برس بعد بھی نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد انھوں نے مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت سالانہ مشاعروں اور شاعروں کے جشن منانے کا سلسلہ شروع کیا، طریقہ یہ تھا کہ ایک برس پاکستان کے کسی شاعر کا جشن ہوتا اور اگلے برس بھارت سے کسی شاعر کو یہ اعزاز دیا جاتا البتہ مشاعرے میں دونوں ملکوں سے شعرا مدعو کیے جاتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دوبئی میں سلیم جعفری مرحوم نے ادبی شخصیات کے جشن منانے کا سلسلہ نیا نیا شروع کیا تھا۔ ملک مصیب الرحمن نے اولاً سلیم جعفری سے مل کر اور اس کی وفات کے بعد اس کی بیوہ (شاہدہ بھابی) کے تعاون سے دوحہ قطر میں بھی اس سلسلے کو جاری کیا اور کچھ عرصے کے بعد نثر نگاروں کے لیے خصوصی عالمی ادبی ایوارڈ کا اجراء کیا جس کی جیوری کے سربراہ پاکستان میں مشتاق احمد یوسفی اور بھارت میں ڈاکو گوپی چند نارنگ تھے اور جو اپنی نوعیت کا ایک بالکل منفرد ایوارڈ تھا۔ اب تک دونوں ملکوں سے چالیس ادیب یہ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ہر بار ایک ایوارڈ کسی پاکستانی اور دوسرا کسی بھارتی ادیب کو دیا جاتا ہے۔ سلیم جعفری' ملک معیب الرحمن اور شاہدہ جعفری کے یکے بعد دیگرے انتقال کے بعد خدشہ تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر محمد عتیق صاحب نے جو کچھ عرصہ قبل ہی دوحہ بینک کے افسر اعلیٰ کے عہدے سے ریٹائر ہوتے ہیں اسے اپنی نگرانی میں لے لیا اور اب تک بہت وقار اور سلیقے سے اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایوارڈ کی شیلڈ کے ساتھ اعزاز یافتگان کو ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس اور سچ مچ کے گولڈ میڈل بھی پیش کیے جاتے ہیں اس بار یہ ایوارڈ مجھے اور جاوید اختر کو دیا جا رہا ہے۔ حسب روایت مشاعرے سے ایک رات قبل ایوارڈ کی تقریب (27اکتوبر) ہو گی جب کہ مشاعرے میں دونوں ملکوں سے چھ چھ شعرا کے علاوہ امریکا' جرمنی اور انگلینڈ سے ایک ایک اور گلف ایریا سے تین شعرا اپنا کلام پیش کریں گے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور شبانہ اعظمی کو بطور مہمان خصوصی اور پاکستان میں مجلس کے سربراہ داؤد ملک' ان کی بیگم نبیلہ بھابی اور میری نصف بہتر یعنی فردوس امجد مہمانان اعزاز کے طور پر تقریب کا حصہ ہوں گے۔ لاہور سے ایوب خاور' شعیب بن عزیز اور خالد مسعود ہمارے شریک سفر ہوں گے جب کہ کراچی سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور قیصر وجدی براہ راست دوحہ پہنچیں گے جہاں مجلس کے چیئرمین محمد عتیق اپنے رفقا فرقان پراچہ' جاوید ہمایوں' فہیم الدین' امین موتی والا اور فرتاش سید سمیت اپنے مہمانوں کے قیام کو حسب سابق بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کئی مہینوں سے انتظامات میں مصروف ہیں۔
ملک معیب الرحمن کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ سب احباب رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں جب کہ محمد عتیق تو ایوارڈ کی شام کے شاندار ڈنر اور داؤد ملک لاہور کی خصوصی تقریب کا انتہائی عمدہ انتظام اپنی جیب خاص سے کرتے ہیں۔ ان بے غرض اور ادب دوست احباب کی یہ محبت اور محنت آج کی اردو دنیا میں اگر نایاب نہیں تو بے حد کمیاب ضرور ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب دوحہ قطر کی ساری ادبی تنظیمیں اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد بھی تمام تر مقامی اختلافات کو بھلا کر ان تقریبات میں شامل ہوتے ہیں اور یوں اپنے سے بہت زیادہ اردو دان آبادی والے ممالک کے مقابلے میں دوحہ قطر کی یہ تقریب اپنی مثال آپ بن گئی ہے ۔