سیاسی ڈگڈگی کا کھیل 

پاکستان میں سیاسی ڈگڈگی کا کھیل ہمیشہ سے طاقت کے مراکز میں آنکھ مچولی کی صورت میں موجود رہا ہے


سلمان عابد October 27, 2016
[email protected]

KARACHI: پاکستان میں سیاسی ڈگڈگی کا کھیل ہمیشہ سے طاقت کے مراکز میں آنکھ مچولی کی صورت میں موجود رہا ہے ۔ اس ڈگڈگی کے کھیل کے نتیجے میں ملک کی سیاست عدم استحکام، انتشار، غیر یقینی کیفیت اور محاذ آرائی کی صورت میں موجود رہی ہے۔ جب بھی حکومت کو کسی بڑی سیاسی محاذ آرائی یا سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے پیچھے پس پردہ قوتوں کی حمایت کی صورت میں سیاسی بیان بازی کا مقابلہ بھی شروع ہوجاتا ہے ۔منطق یہ دی جاتی ہے کہ حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اس کے پیچھے طاقت کے مراکز نہ ہوں۔

اس وقت عمران خان یا تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف دونومبر کو اسلام آباد پر سیاسی چڑھائی کا اعلان کررکھا ہے۔ عمران خان اس پر خاصے پرجوش اور بھرپور مزاحمت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول یہ ان کا اس حکومت کے خلاف آخری دھرنا ہے اور اس کو منطقی نتیجے پر پہنچا کر ہی دم لیا جائے گا ۔اگرچہ عمران خان اس سیاسی لڑائی میں سیاسی طور پر تنہا نظر آتے ہیں۔ لیکن عمران خان بضد ہیں کہ اگر ان کو یہ لڑائی تنہا بھی لڑنا پڑی تو وہ لڑیں گے۔ لیکن اب مسلم لیگ(ق) اورعوامی تحریک نے عمران خان کی حمایت کرکے حکومتی مشکلات میں اور زیادہ اضافہ کردیا ہے۔

عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پر سیاسی چڑھائی پر حکومت اور ان کے حمایت یافتہ سب ہی ایک سخت ردعمل کے ساتھ عمران خان کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ اس کی حکومتی رٹ چیلنج ہو۔لیکن حکومت اور ان کے اتحادیوں میں تحریک انصاف کے خلاف جو مزاحمت چل رہی ہے ،اس کا ایک نقطہ '' ڈگڈگی بجانے والا'' بھی ہے۔

حکومت اور اس کے اتحادی اس '' ڈگڈگی بجانے والے کو پس پردہ قوتوں کی سازش سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان کے بقول جو سیاسی اسٹیج عمران خان اسلام آباد میں سجانا چاہتے ہیں وہ بڑی طاقتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے قبل کے دھرنے میں بھی حکومتی ارکان سمیت اتحادی جماعتوں نے پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کو ساتھ جوڑا تھا۔ اگرچہ وہ نتیجہ نہیں نکل سکا جو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی صورت میں سامنے آنا چاہیے تھا، لیکن اس کے باوجود آج بھی یہ سیاسی منطق موجود ہے کہ سابقہ دھرنا اسٹیبلیشمنٹ کے کھیل کا حصہ تھا۔

وزیر اعظم نے بعض جلسوں میں طنزیہ انداز میں سیاسی ڈگڈگی بجانے والوں کی جانب جو اشارہ کیا ہے وہ محض عمران خان تک ہی موجود نہیں تھا ، بلکہ ان کا اشارہ ان ہی کی جانب تھا جہاں وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے۔

پیپلز پارٹی کے بعض راہنما بھی یہ ہی اشارہ کررہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو عمران خان کے پیچھے کھڑا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی پنڈت بڑی مہم جوئی کے ساتھ جمہوری نظام کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان اٹھارہے ہیں۔ جو لب و لہجہ ہمیں حکومت اور ان کے اتحادیوں کی زبان سے دکھائی دے رہا ہے اس میں بھی ایک طرف مایوسی ہے تو دوسری طرف غیر یقینی صورتحال کو بنیاد بنا کر کئی سیاسی اشارے بھی موجود ہیں، جو کسی سیاسی مہم جوئی کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ بات تو تسلیم کرنی ہوگی کہ اگر کوئی '' ڈگڈگی '' بج رہی ہے تو اس کے پیچھے بھی حکومت کا بڑا ہاتھ اپنا نظر آتا ہے ۔ کیونکہ جب حکمران طبقہ سیاسی فیصلے نہیں کرے گا اور فیصلوں میں تاخیری حربے اختیار کرکے معاملات کو لٹکا کر آگے بڑھے گا تو حکومت مخالف قوتوں کو خود ہی اپنے طور پر سیاسی ڈگڈگی بجانے کا موقع مل جاتا ہے۔

اگر حکومت فہم وفراست اور تدبر کے ساتھ پانامہ کے معاملے پر محض عمران خان ہی نہیں دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کے ٹی او آر پر کوئی سیاسی اتفاق رائے پیدا کرلیتی تو آج کی غیر یقینی صورتحال کافی مختلف ہوتی۔لیکن اس معاملے پر حکومتی طرزعمل نے بلاوجہ ایسا جواز اپنے مخالفین کو تھما دیا جو اب ان کے گلے پڑ رہا ہے۔

مسئلہ محض عمران خان کا نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی بھی عمران خان کے بعد لانگ مارچ کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ اس لیے حکومت عمران خان سے باہر نکلے گی تو اسے کسی اور صورت میں بھی اپنے مخالفین کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ مسئلہ تو سارا حکمت عملی کا ہے، عمران خان زیادہ جارحانہ انداز میں باہر نکل پڑے ہیں ، جب کہ دیگر مخالفین ابھی حکومت کو کچھ وقت دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں ۔اگرچہ اس وقت حکومت کے سامنے ایک بڑی سیاسی ڈگڈگی کا کھیل جاری ہے۔

حکومت تو بضد ہے کہ اس وقت سول ملٹری تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں تو پھر اپنے سیاسی ساتھیوں کی مدد سے کیوں بلاوجہ اس تعلقات میں بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے۔ کیا عمران خان کو جواز بنا کر ہم بلاوجہ اداروں کو دوبارہ سیاست میں ملوث کرنے کی خود کوشش نہیں کر رہے ۔ اس کے برعکس اگر حکومت سمجھتی ہے کہ واقعی کوئی قوت عمران خان کے پیچھے کھڑی ہے تو پھر اس پر حکومت کو اپنا دو ٹوک موقف پیش کرنا چاہیے ۔سیاسی ڈگڈگی کا کھیل ہمیشہ سے ہماری سیاست میں موضوع بحث رہا ہے۔

ہر حکومت سمجھتی ہے کہ اس کو اسٹیبلیشمنٹ دباؤ میں رکھ کر ان کے مخالفین کو استعمال کرتی ہے ۔مسئلہ یہ نہیں اس وقت سیاسی ماحول میں ڈگڈگی کون بجا رہا ہے، بلکہ اصل بحران تو یہ ہے کہ اس ڈگڈگی کے کھیل کو بنیاد بنا کر طاقت ور سیاسی و انتظامی طبقہ عوام کو حقیقی معنوں میں بے وقوف بنا رہا ہے۔ حکومت ترقی اور خوشحالی کے دعوے اور نئے منصوبوں کا اعلان کرکے واقعی قوم کی ڈگڈگی بھی بجا رہی ہے۔ اس ڈگڈگی کے کھیل میں اگر حکمرانوں کو آنسو بھی نکالنے پڑیں ،تو یہ جذباتی سیاست میں گھاٹے کا سودا نہیں۔

بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ جب ہم اپنی سیاسی حکمت عملیوں سے خلا پیدا کرتے ہیں تو اس میں جائز یا ناجائز غیر ریاستی قوتیں بھی سیاسی ڈگڈگی کو بنیاد بناکر اپنا رنگ بھی جمانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ہمارے ادارے بھی اپنی ڈگڈگی سے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے اپنی بے بسی کی ڈگڈگی بجا کر بہتری کے امکانات کو طاقت دینے کے بجائے لوگوں کے اعتماد کو اور زیادہ کمزور کرتے ہیں۔

لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ شائد کچھ نہیں بدل سکے گا اور اسی سیاسی ڈگڈگی میں چاہے وہ کوئی بھی بجائے ہمیں زندہ رہنا ہے۔ لیکن لوگوں کو اس مفاداتی سیاست کو سمجھ کر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا ۔ کیونکہ سیاسی ڈگڈگی کا یہ جو نظام ہمارا طاقت ورطبقہ چلارہا ہے اس کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت اور دباؤ کی سیاست کو طاقت فراہم کرکے ہی ہم بہتر منصفانہ اور شفاف نظام کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں