لانجائی نس اور شاہ لطیف بھٹائی ؒ

شاہ لطیف کی شاعری کی خوبصورتی سندھی زبان کا خالص اور منفرد لہجہ ہے


Shabnam Gul October 27, 2016
[email protected]

BAHAWALPUR: شاہ لطیف کی شاعری کی خوبصورتی سندھی زبان کا خالص اور منفرد لہجہ ہے۔ انگریزی کے محقق ایچ ٹی سورلے نے 1938ء میں شاہ لطیف کے کلام کا ترجمہ انگریزی میں کیا، تو یورپ کا دھیان شاہ کی شاعری کے حسن کو کھوجنے لگا۔

یہ ترجمہ انتہائی دلکش اور دل نشیں ہے۔ جس میں شاہ کے کلام کا خالص پن برقرار رکھا گیا ہے۔ انگریزی کے صوفی منش شاعر ولیم بلیک، ولیم ورڈز ورتھ، جان ڈن و دیگر شعرا کا خیال اور سوچ کی گہرائی شاہ کے فکر کے قریب دکھائی دیتی ہے۔ لہٰذا سورلے کو شاہ کے پیغام اور گہرائی کو سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔

شاہ لطیف کی ولادت اس وقت ہوئی جب اورنگ زیب کی حکومت کے آخری دن تھے۔ جب کہ سندھ میں کلہوڑو دور حکومت تھا۔ شاہ کے فکر کو سندھ میں تصوف کے سلسلوں کے ساتھ جوگیوں، بھگتوں اور سادھوؤں نے جلابخشی۔ صوفی سلسلوں میں قادریہ، سلسلہ چشتیہ، سلسلہ نقشبندیہ و سلسلہ سہروردیہ نے صوفی منش بزرگوں و ماحول کی تشکیل کی۔

اس دور کے شعرا فارسی، عربی و دیگر زبانوں کے زیر اثر تھے، مگر شاہ نے فقط سندھی زبان کو اظہار کا ذریعہ چنا۔ زبان کی وحدت نے ان کی شاعری کو لازوال حسن عطا کیا۔ مثال کے طور پر حضرت سچل سرمست نے سرائیکی، اردو، فارسی، عربی و دیگر زبانوں میں شعر کہے ہیں مگر ان کے افکار مختلف زبانوں میں تقسیم ہو گئے، مگر شاہ لطیف نے فقط سندھی زبان میں شاعری کی ہے۔ شاہ کی زبان میں روانی، تسلسل اور موسیقی پائی جاتی ہے، وسیع الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ خیال کی گہرائی و ندرت بیک وقت موجود ہیں۔ زبان و خیال میں ہم آہنگی حیران کن ہے۔

یہ زبان الہامی کیفیت کے زیراثر فطری ہے یا اسے شعوری کوشش سے تراشا گیا ہے۔ یہ نقاد ہی بہتر طور پر فیصلہ کر سکتے ہیں مگر یونانی مفکر لانجائی نس نے اپنے مقالے ''ترفع'' میں زبان کی خوبصورتی کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ رفعت کو فن پارے کی روح کہتا ہے۔ لفاظی یا ظاہری چکا چوند سے جس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ رفعت کا رابطہ براہ راست روح سے ہے۔ یہ سننے اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ یہ الفاظ کی خوبصورتی اوراحساس کی گہرائی قاری کو وجد اور رومانی مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں۔

لانجائی نس اعلیٰ اسلوب بیان کے لیے پانچ زاویے وضع کرتا ہے۔

1۔ فکر کی بلندی
2۔ جذبہ
3۔ صنایع بدایع
4۔ محاورے، روزمرہ، استعارے
5۔ موثر انشا پردازی

جہاں تک فکرکی بلندی کا ذکر ہے تو شاہ کی شاعری اس کا منفرد اظہار ہے۔ لانجائی نس کے مطابق سوچ کا انداز اور فکر کی گہرائی، زبان و اظہار کو جلا بخشتے ہیں وہ ماحول جو لطیف اور پراثر سوچ کو پروان چڑھاتا ہے شاہ صاحب نے صوفی منش خاندان میں آنکھ کھولی فطرت کا مشاہدہ ڈوب کر کیا۔ جنگلوں و صحراؤں کی خاموشی کو روح کی گہرائی سے محسوس کیا۔ صحیفہ قدرت کے اوراق کا مطالعہ کیا لہٰذا داخلی و خارجی مشاہدے کی وحدت نے ملکر اچھوتے خیال کی تخلیق کی۔

یہ جگ سارا خودبینی کے کیا کیا رنگ دکھائے
کوئی سمجھ نہ پائے' کیسی یہ جادو نگری ہے
(شاہ)

حسیاتی طور پر فعال ہونے سے مشاہدے کا جوہر ہاتھ آتا ہے۔

دوسرا محور لانجائی نس نے جذبہ بتایا ہے۔ یعنی Vehement and inspired passion جو اعلیٰ و ارفع تخیل کو ترتیب دیتا ہے۔ شاہ رابطے کے ہنر سے واقف تھے۔ وجود سے زندگی اور کائنات تک رابطے کا عرفان جذبے کی سچائی کو جنم دیتا ہے۔ احساس کے سُر جذبوں سے سرشار گیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ شاہ کے پاس جذبے کی شدت و حسن یکساں طور پر پائے جاتے ہیں۔ جو حسیاتی تحرک کا نچوڑ ہیں۔ پھول، صحرا، بادلوں کو شاہ نے من کے اندر محسوس کر کے بیان کیا ہے۔ ریگزاروں کو روح میں بسایا ہے تو کبھی من کی شاخیں مہکی ہیں۔

جہاں تک لانجائی نس نے صنایع بدایع کا ذکر کیا ہے تو وہ اسے شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں سمجھتا۔ خارجی شاعری، شعوری کوشش کا نتیجہ ہو سکتی ہے مگر داخلی مشاہدہ، لاشعور کی دین ہے۔ الہامی شاعری، داخلی مشاہدے کا ثمر کہلاتی ہے۔ انسان جو کچھ بھی دریافت کرتا ہے۔ وہ من کی راہ پر چل کر اسے حاصل ہوتا ہے۔ یہ سوچ کا وہ داخلی دروازہ ہے جو ہر کسی کے لیے نہیں کھلتا۔ جس کے لیے جذبے کی گہرائی اور تپش درکار ہے۔

میخانے میں آئیں گے تو کریں گے خالی خُم
بھر بھر دینا تم' اور بڑھے گی پیاس
(شاہ)

خوبصورتی اس کائنات کا لامتناہی سلسلہ ہے، جس سے شاعر کا دل کبھی نہیں بھرتا۔ جس کی خاطر روح میں جذب کی چاشنی چاہیے۔ حسن کو اپنے اندر جذب کرنے کا سلیقہ اور ہنر درکار ہے۔ طالب کے پاس کس قدر پیاس اور شدت ہے، جو اسے زندگی کے ساحل پر معنی کے موتی چننے میں مدد کرتی ہے۔ جہاں تک محاوروں اور روزمرہ کے استعاروں کا تعلق ہے جس کی لانجائی نس نے وضاحت کی ہے تو شاہ کا کلام اس انوکھی رمز کا بہترین عکاس ہے۔ شاہ فطرت کو انسانی جذبوں سے تشبیہہ دینے کا ہنر رکھتے ہیں۔

پئے نہ اجلا پانی' نہ ہی چندن کھائے
چھوڑ دیے ہیں مشک و عنبر خوشبو اسے نہ جائے

''لانو'' اسے لبھائے' کیا جانے کس کارن

یعنی اونٹ خوشبو چھوڑ کر کڑوی بیلیں کھاتا ہے۔ کڑواہٹ سے یہ رغبت اس کے من میں دھرنا مار کے بیٹھی ہے۔ ایک لحاظ سے چیزیں فطری انداز میں پھلتی و پھولتی ہیں مگر انسان نے بناوٹ کا جال اپنے اردگرد بن لیا ہے، لیکن من کے اجلے کبھی ظاہری آرائش کی طرف نہیں بڑھتے۔

شاہ کی شاعری میں عام زندگی سے منفرد محاورے اور استعارے خیال کو مزید گہرائی عطا کرتے ہیں۔ زبان کی خوبصورتی فطری خیال اور چیزوں سے جڑی ہوئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاعر زمین کے رنگوں سے کس قدر جڑا ہوا ہے۔

آخر میں مرحلہ آتا ہے اس سوچ اور خیال کی ترتیب کا۔ تخلیق میں جب تک ترتیب کا عنصر نہ ہو وہ مکمل نہیں ہوپاتی۔ موضوع کو الفاظ کی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے جا لفاظی سے اکثر خیال کی گہرائی اور خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔ لفظ، موضوع کی مناسبت سے ہونے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں