ایک اہم مسئلہ

مسلمان کانگریس پارٹی کی پالیسیوں سے مایوس ہو گئے تھے

''ریڈیئنس'' (یعنی ضوفشانی) بھارت کی جماعت اسلامی کا ایک جریدہ ہے۔ اس جریدے کے تازہ شمارے میں صفحہ اول پر تین طلاقوں کے عنوان سے ایک مضمون شایع ہوا ہے۔ ہندو پرسنل لاء بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی مداخلت پر نافذ کیا گیا تھا جس میں ہندووں کو بھی طلاق کا حق دے دیا گیا جس کا قبل ازیں ہندوؤں میں کوئی رواج نہیں تھا۔

پنڈت نہرو نے ہندوؤں کی شادی میں بھی پہلی مرتبہ طلاق کی گنجائش پیدا کی گو کہ آئین ساز اسمبلی کے چیئرمین ڈاکٹر رجندرا پرشاد ہندوؤں کی شادی کے روائتی قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی کے خلاف تھے، لیکن چونکہ بطور چیف ایگزیکٹو سرکاری مشینری پر پنڈت نہرو کا اختیار تھا لہٰذا انھوں نے ہندوؤں کو بھی طلاق کی اجازت کا قانون پاس کر دیا۔

مسلمانوں کو بھی بیک وقت تین طلاقوں کے اصول کا مسئلہ درپیش تھا ۔طویل عرصے سے اس پر عمل درآمد ہو رہا تھا۔ چند مسلم خواتین نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا کیونکہ بھارتی آئین و قانون مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کا داعی تھا۔ حکومت نے سوچا کہ اس حوالے سے رائے عامہ کا جائزہ لینے کے لیے ایک سوال نامہ جاری کیا جائے۔ لیکن بعد ازاں اس خیال کو ترک کر دیا گیا کیونکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس تحریک کی سختی سے مخالفت کی تھی۔

اس بورڈ کے ارکان میں کوئی خاتون رکن موجود نہیں تھی مگر خواتین سے کوئی رائے طلب نہیں کی گئی لہذا خواتین کی طرف سے اس کی مخالفت موجود رہی مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے دیرینہ موقف پر مصر رہا۔ بعدازاں یہ سوال پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوا جس میں مسلم معاشرے کے مختلف طبقات کو نمایندگی حاصل ہے، تاہم یہ معاشرہ بھی مردوں کی بالادستی کا حامل ہے۔

دنیا کے زیادہ تر اسلامی ممالک میں جن میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں بیک وقت تین طلاقوں کو ایک زمرے میں شامل کیا جائے لیکن بھارت میں یہ عالم ہے کہ اس مسئلے پر بحث مباحثہ کرانا بھی ممکن نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مسلم پرسنل لاء بورڈ اس بارے میں کسی بحث کے حق میں نہیں ہے تو اس صورت میں اس کا حل کیسے نکالا جا سکتا ہے؟

مسلم خواتین جن کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے تھاان کا موقف ہے کہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خواتین سے بھی مشورہ لیا جائے لیکن نریندرا مودی کی حکومت اس معاملے میں کوئی قدم اٹھانے سے ہچکچاتی ہے کہ کہیں اس کا کوئی غلط مطلب نہ لے لیا جائے جب کہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی علمی قدم اٹھایا جائے۔


ہمارے خیال میں یہ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلے پر دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں بحث کروائے اور خواتین کی علمی نوعیت کی آراء کو بھی برابر کی اہمیت دی جائے۔ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے ان انتخابی تقاضوں کے پیش نظر خاموش رہنے میں بہتری سمجھتی ہیں۔ واضح رہے کہ اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں آیندہ سال کے آغاز میں عام انتخابات شروع ہو رہے ہیں جن میں متوقع طور پر مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔

سماج وادی پارٹی کے لیڈر ملائم سنگھ یادیو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں کیونکہ مسلمان کانگریس پارٹی کی پالیسیوں سے مایوس ہو گئے تھے۔کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی اپنی انتخابی تقریروں میں مسلمان ووٹروں کو راغب کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی کامیابی نظر نہیں آ رہی لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ سونیا گاندھی خود اپنی پارٹی کی قیادت کریں۔

اب سونیا کے ساتھ اطالوی نژاد ہونے کا لیبل اتنا نمایاں نہیں رہا جتنا کہ پہلے تھا اور ان کے جلسے میں اس سے کہیں زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں جتنے کہ ان کے صاحبزادے راہول کے جلسے میں آتے ہیں گویا کانگریس پارٹی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج کھڑا ہو گیا ہے جو راہول کو مستقبل کے لیڈر کے طور پر پروموٹ کرنا چاہتی ہے جہاں تک عوام میں مقبولیت کا تعلق ہے تو ہمارے خیال میں راہول کے بجائے اس کی بہن پریانکا اس سے کہیں زیادہ مقبول ہے۔

آنجہانی وزیراعظم راجیوگاندھی نے مسلمانوں کی ہمدردیاں جیتنے کی خاطر بیوہ مسلمان خواتین کے لیے سرکاری وظیفے کا قانون پاس کرایا تھا لیکن ان کے بعد آنے والے وزیراعظم نرسیمہا راؤ کی حکومت کے دوران بابری مسجد کے انہدام کے معاملے نے مسلمانوں کو سخت ناراض کر دیا۔ اسی طرح تین طلاق کا مسئلہ بھی زیادہ عرصے تک حل کیے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔

یکے بعد دیگرے آنے والی بھارتی حکومتوں نے اس معاملے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی اور مودی کی حکومت بھی ایسے ہی کر رہی ہے لیکن یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اس کا فیصلہ یقینی طور پر کیا جانا چاہیے۔ جس مضمون کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا اس میں بھی کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ ہمارے خیال میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اعتراضات کے باوجود حکومت کو اس حوالے سے رائے عامہ کے جائزے کے لیے سوالنامہ ضرور جاری کر دینا چاہیے ۔ امکان ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے موسم سرما کے اجلاس میں اس سوال پر ضرور بحث ہو گی۔

یہ درست ہے کہ اس کا کوئی حتمی فیصلہ مسلمانوں کو ہی کرنا ہے لیکن وہ اب تک نہیں کر سکے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ سیکولر جمہوری ملک اس قدیمی مسئلے پر کوئی فیصلہ کرنے میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہے جو 60 سال سے زیربحث نہیں آ سکا۔ مودی کی حکومت خواہ اپنے آپ کو جتنا بھی بے بس محسوس کرے لیکن اسے حقیقت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا اور اس مسئلے کا حل نکالنا پڑے گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story