پاکستان کا سیاسی حمام
تمام دنیا میں کمرشل فنون اور کامرس نے گھر کر لیا
KARACHI:
بڑے افسوس کا مقام ہے کہ بانیان پاکستان تو پڑھے لکھے صاحبان تدبر تھے، مگر ان کے جانے کے بعد جو حکمران آتے رہے، لگتا ہے ان کا دور سے بھی تعلق علم سے نہیں۔ وہ تمام لوگ دولت کمانے میں تو مشاق ہیں مگر علم، ادب اور تہذیب سے ان کی کوئی نسبت نہیں۔ وہ نسل کیا زمین دوز ہوئی، تمام اصول و ضوابط بھی ان کے بعد مردہ ہو گئے۔
تمام دنیا میں کمرشل فنون اور کامرس نے گھر کر لیا، مگر ایسا نہیں ہے کہ تہذیب کے تمام اصولوں کو بھی دفن کر دیا گیا ہو۔ تاہم پاکستان میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آزادی اظہار کی آڑ میں لوگ میڈیا پر آ کر جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں، نہ سامنے والے کا لحاظ اور نہ کوئی عزت نفس کا خیال۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں سخت سے سخت گفتگو ہوتی ہے مگر پگڑی اچھالنے کا رواج پاکستان میں ہی ہے۔ کراچی میں 22 اگست کو کیا کچھ ہوا اور کس کے اشارے پر ہوا۔ پھر میڈیا پر کس قسم کا شور برپا ہوا؟
ہفتوں ٹی وی پر یہی مواد اچھالا جاتا رہا۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کے مابین ٹی وی پر ایک زبانی کلامی جنگ جاری رہی اور کسی قسم کی تہذیب کو درمیان میں نہ رکھا گیا اور اب یہ عمل تھمتا نظر نہیں آ رہا، بلکہ ایک ہیجانی کیفیت کو ہی اب ٹی وی پر سیاسی گفتگو اور تجزیہ کاری کا نام دیا جاتا ہے۔ 22 اگست کے بعد رینجرز کا ایکشن متوقع تھا، سو ہوا۔ ایم کیو ایم کے آفس مسمار ہوئے۔ مگر جب ایم کیو ایم لندن کے لوگوں نے کراچی میں پریس کانفرنس کی تو کوئی قدغن نہ تھی۔ اس پر لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیسی سیاست ہے کہ ہر وقت نئی کروٹ ہے اور لوگ کنفیوزڈ ہیں۔
ابھی یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ گورنر سندھ عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نے ایک نئے منظرنامے کو جنم دیا، جس نے عوام میں مایوسی اور بے چینی پیدا کر دی کہ یا الٰہی کیا ہونے جا رہا ہے۔ اللہ اللہ کر کے لوگوں نے امن کا سانس لیا تھا اور اب لوگ پھر آبلہ پا ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں عدلیہ اتنے عرصے سے خاموش تھی اور عمران خان کا دھرنا بھی سر پر آ رہا ہے۔ امن و امان کی صورت حال کا کیا ہو گا؟ سیاسی پارٹیاں اپنی کامیابی اور اسٹیبلشمنٹ کی ہر دلعزیزی میں لگی ہوئی ہیں، مگر عوام کی کسی کو فکر نہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، قانون پر بدعملی اور ملک کی اقتصادی صورت کس طرف جا رہی ہے، عوام کے نام پر ملک کو لوٹا جا رہا ہے، ملک کے ساتھ غداری کا عمل جاری ہے۔ عذیر بلوچ کا مقدمہ تاحال حل نہ ہوا، ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ کسی کروٹ نہ بیٹھا، فرد جرم عائد کرنے کے دن گزرتے جا رہے ہیں۔ بالآخر 22 اگست کے بعد ایم کیو ایم لندن سے ظفر عارف نے پریس کانفرنس کے بعد 22 اکتوبر کی شام کو جو پریس کانفرنس کرنی چاہی، اس میں ان کو اور ان کے ہمنواؤں کوروک کر پس زنداں کر دیا۔
حسن ظفر عارف 70ء کی دہائی میں جامعہ کراچی میں شعبہ فلسفہ میں لیکچرر تھے، اس کے علاوہ وہ ازخود ان طلبا کے قریب تر تھے جو این ایس ایف سے وابستہ تھے، مگر این ایس ایف کی قومیتوں کی بنیاد پر لوگوں کی تقسیم پر یقین نہ رکھتے تھے۔ یہ بات 60-70ء کی ہے، جب میں این ایس ایف کا جنرل سیکریٹری تھا۔ ان دنوں این ایس ایف نے ایڈمن کی سرزمین پر بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔ لہٰذا اتنے عرصے کے بعد انھیں سربکف دیکھ کر محسوس ہوا کہ اتنی عمر میں بھی ماشا اللہ سیاسی طور پر وہ متحرک ہیں اور انھوں نے اس زمانے کے سیاسی کارکنوں سے رابطے شروع کر دیے تھے اور یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ انھوں نے سوشلسٹ نظریات کے باوجود کیونکر متحدہ قومی موومنٹ لندن کا پرچم اٹھا لیا۔
دوسرے این ایس ایف کے سرگرم رکن اور سالار مومن خان مومن جو کامریڈ مومن کے نام سے مشہور ہیں وہ بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنے دور کے جانے پہچانے لوگ ہیں۔ مومن خان مومن گزشتہ کئی برس سے این ایس ایف کے احیا کے لیے کام کر رہے تھے اور ایک جلسہ پی ایم اے ہاؤس میں منعقد کرتے تھے، جس میں 8 جنوری 1953ء کے ڈی ایس ایف کے شہدا کی یاد بھی مناتے تھے۔ مگر گزشتہ چند ماہ سے انھوں نے ایم کیو ایم کا لندن ونگ اپنا لیا ہے۔
ایم کیو ایم سے بعض سوشلسٹوں کا الطاف حسین کی قیادت پر اعتماد کرنے کا عمل تیزی سے بڑھا ہے، حالانکہ ایم کیو ایم لندن نے پاکستان میں نظام حکومت کی تشکیل کے خدوخال پر کوئی خاص روشنی نہیں ڈالی۔ پاکستان میں سیاست کے خدوخال نمایاں نہیں ہیں اور مرکزی حکومت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، جیسا کہ ٹی وی پر گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے عوام الناس تذبذب کا شکار ہیں۔ کچھ دن تو پاک سرزمین کا زور رہا پھر جلد ہی یہ پارٹی اپنی قوت کھو بیٹھی اور فاروق ستار نے جگہ لے لی، مگر ایم کیو ایم لندن نے جب کراچی میں اپنے پیر پھیلائے تو فاروق ستار کی پوزیشن کمزور ہوئی، اب گومگو کا عالم ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اب ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے آپس میں ہی مسابقت کی جنگ میں شامل ہو گئے ہیں۔ بقول پی پی کے لیڈروں کے، جو سندھ کی تقسیم چاہتے تھے اب وہ خود تقسیم ہو چکے ہیں۔ مگر سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندی ملک کے لیے سودمند نہیں ہے۔ کیونکہ دھڑے بندیاں اور تفریق تصادم کی جانب لے جاتی ہیں، جو اگر تنگ نظری سے دیکھا جائے تو یہ مخالف کے لیے فائدہ مند ہے مگر تفریق اور تقسیم کسی طرح بھی عوام کے مفاد میں نہیں جاتی۔
پیپلز پارٹی کا قیام وڈیروں کی فلاح کے لیے ہرگز نہ تھا، جب ذوالفقار علی بھٹو قریہ بہ قریہ پھرتے تھے تو وہ کسانوں کے مفاد میں مارچ کر رہے تھے، مگر افسوس آج انھی کی پارٹی ہاریوں کے نام سے کتراتی ہے اور پارٹی پر عملاً وڈیرہ شاہی کا راج ہو چکا ہے۔ مزدور، کسان، دانشوروں کے دائرے سے پارٹی نکل چکی ہے۔ اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ ملک خوں ریزی کی زد میں آ چکا ہے۔ ہماری خارجہ حکمت عملی کی ناقص پلاننگ کی بدولت ہم ہر طرف دشمنوں میں گھر چکے ہیں۔
ابھی حال کی بات ہے بلوچستان میں جو خوں ریزی ہوئی اطلاعات کے مطابق افغانستان سے ہدایات موصول ہو رہی تھیں جس میں ہمارے 66 جوان شہید ہوئے مگر ملک میں اتحاد کا مصنوعی جال بچھا ہوا ہے۔ ظاہری طور پر ملک کی باتیں ہو رہی ہیں ورنہ حکمرانوں کے الگ الگ راستے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر اینکر اپنی زبان بول رہا ہے۔ جس کو جس عمل میں فائدہ ہے وہ اسی حمام میں نہا رہا ہے۔ ملک اتنے بڑے صدمے سے گزرا ہے پھر بھی آپ باتیں سنیں۔ لگتا ہے کہ ان کے مقاصد ملک سے متصادم ہیں۔ ایسے موقع پر کیچڑ اچھالنا جس سے ملک کی شبیہہ مسخ ہو رہی ہے۔
پرائم منسٹر پر بہتان تراشی کا یہ وقت نہ تھا، مگر کسی کو ملک کے وقار کو مجروح کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ کسی کو یہ خیال نہیں ہے کہ وزیراعظم اگر کرپٹ ہے تو پورا ملک اس کو برداشت کیوں کیے ہوئے ہے اور ہر قسم کی ڈیل وہ ملک کے نام پر کر رہا ہے اور خاص طور سے ایسے ملک میں جہاں فوج بھی انتظامی امور میں اس کی ساتھی ہے۔ مگر پاکستان میں ٹی وی کی نشریات نے واضح کر دیا ہے کہ دونوں الگ الگ صفحات پر ہیں۔
یہ ہمارے ہی مقدر میں تھا کہ پاکستان میں الگ الگ حصے ہیں، جہاں مختلف قوتوں کی حکومت ہے اور جب دونوں صفحات دور ہوتے جائیں گے، انتظامی دوری اتنی ہی زیادہ ہوتی جائے گی اور سیاسی چپقلش میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہٰذا حکمران قوتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی دوری اور مقاصد کا برملا اظہار نہ کریں۔ ورنہ پاکستان کے سیاسی حمام میں برہنگی اور بڑھ جائے گی اور پاکستانی چینل ایسا لگے گا کہ یہ کسی مخالف ملک کے چینل ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف گفتگو کر رہے ہیں۔ ایک ملک کے یہ دو رخ نئی نسل کو ملک سے دوری کی دعوت دے رہے ہیں اور آنے والے وقت میں سیاسی حمام اور عریاں ہو جائے گا اور اس کا خمیازہ ہمارے ہی ملک کے عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔