سانحہ کوئٹہ اور بھارت کے مذموم عزائم
اتنے سانحات ہمارا مقدر نہیں تھے جتنے ہم نے برداشت کیے
اتنے سانحات ہمارا مقدر نہیں تھے جتنے ہم نے برداشت کیے، دہشتگردی ہمارا مقدر نہ تھی یہ ہماری بے بصیرتی کا ثمر اور وقتی مصلحتوں کا تحفہ ہے، یہ مسئلہ آسان نہیں بلکہ خاصا الجھا ہوا ہے اور محض ایک آدھ حکمران کو پنیری لگانے کا الزام دے کر ہم دوسرے حکمرانوں کو معصوم قرار نہیں دے سکتے۔ دہشتگردی کی کہانی کسی مسلسل جاری ڈرامہ سیریل کی مانند ہم دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں وطن عزیز پر ایک بار پھر آسمان ٹوٹ پڑا۔ کوئٹہ میں وکلاء کی پوری ایک نسل کو ملیا میٹ کرنے کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ کوئٹہ ایک بار پھر لہو میں نہاگیا، جانوروں سے بدتر انسانی خدوخال رکھنے والی خون آشام بلاؤں نے ایک بار پھر اپنے لہوکی پیاس بجھانے کے لیے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا، جس میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت زیر تربیت 61اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، سانحہ کوئٹہ پر دل خون کے آنسو رورہا ہے، پوری قوم سوگ وصدمے کی کیفیت سے دوچار ہے، اس سے پہلے بھی ہم جنونی دہشتگردوں کے پرامن شہریوں پر حملے دیکھ چکے ہیں۔
ان سب کی مجموعی تصویر ایک دہشت ناک، لہو میں ڈوبے ہوئے شیطانی کھیل کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، جب بھی دہشتگردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو یادداشت کا حصہ بن کر ذہن سے چپک جاتا ہے، اس کی وجہ جاں بحق ہونیوالے معصوم شہریوں کی تعداد نہیں بلکہ خوف و دہشت کے سیاہ ہیولے ہیں جو زہریلے ناگوں کی طرح سوچ کے بہاؤ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
بم دھماکوں، خود کش حملوں، ٹارگٹ کلنگ کے سنگین واقعات میں مسلسل کمی سے بلوچستان میں معمول کی سماجی، تجارتی اورمعاشرتی سرگرمیاں بحال ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور تخریب کاری کی مجنونانہ کارروائیوں سے بچتے بچاتے اب رفتہ رفتہ امن وسکون کے راستے پر چل نکلا ہے، لیکن کوئٹہ میں پے درپے دہشتگردی کے واقعات اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان سے بچ نکلنے والے عناصر بدستور قومی سلامتی کے درپے ہیں اور موقع ملتے ہی کونے کھدروں سے نکل کر آتش وآہن کا کھیل شروع کردیتے ہیں۔
ہر واردات یا دہشتگردی کے واقعے کے بعد سیکورٹی اداروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں، لیڈران کی جانب سے مذمتی بیانات بھی جاری ہوتے ہیں لیکن چند روز بعد پرانی روٹین بحال ہوجاتی ہے، جو کہ پریشان کن صورتحال ہے۔
اس حقیقت میں بھی اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ بھارت سمیت بعض ممالک پاکستان کو معاشی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف جو تخریب کاری ہورہی ہے اس کی مالی وفنی امداد بھارت کررہا ہے، بھارت پاکستان کو دہشتگردی کے ذریعے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
وطن عزیز کو آج انتہائی سنگین داخلی و خارجی چیلنجزکا سامنا ہے، سی پیک دوست ملک چین کا عظیم تحفہ ہے لیکن جہاں یہ منصوبہ بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے وہاں سی پیک کی وجہ سے ہمارے امریکا سے طویل تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں، بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، کل بھوشن یادیو سمیت دیگر دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی دخل اندازی کے واضح ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔
اس سے پہلے ہونے والی دہشتگردی کی کارروائی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بلوچستان کا نام لے کر تذکرہ کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت واقعی بلوچستان میں دخل اندازی کررہا ہے۔امریکا بھی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستانی فوج کو اندرون ملک مصروف رکھا جائے اس لیے وہ بھارت کو روکنے کے بجائے اس کے مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔
افغانستان پر جوگروہ اقتدار میں ہے اسے پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں،اس کا خیال ہے کہ پاکستان نے ہی افغانستان کو مقتل بنایا، اس لیے وہ اب ان کا پشت بان بن گیا ہے جو پاکستان کو مقتل بنانا چاہتے ہیں، بھارت اب افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں بھرپورمداخلت کررہا ہے، اسے یہاں افراد نہیں بلکہ صرف روپے خرچ کرنا ہوتے ہیں کیونکہ ہم سے منسوب نان اسٹیٹ ایکٹرز اب ہمارے دشمنوں کا ہتھیار بن گئے ہیں۔
بھارت کی حکمت عملی میں اب کوئی ابہام نہیں رہا، اب وہ افغانستان کو ہمارے خلاف اپنی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانا چاہتا ہے، جیسے امریکا نے سوویت یونین کے خلاف ہمیں بنایا تھا، بھارت نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے اپنے مفادات کی آبیاری کررہا ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ افغانستان میں بھی امن قائم نہیں ہونے دے رہا ہے، جیسے جیسے افغانستان میں طالبان کے حملے بڑھتے ہیں ویسے ویسے بھارت کے لیے پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینا آسان ہوجاتا ہے، اسی نفرت کو بھارت ایک ہتھیار بنا رہا ہے۔
اس صورتحال میں پاک فوج چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے، اگرچہ دہشتگردی پرکاری ضرب لگائی جاچکی اور اسے فی الحال پچھلے قدموں پر جانے پر مجبورکردیا گیا لیکن یہ خوش فہمی کسے ہے کہ یہ جنگ ختم ہوچکی؟ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہونا ابھی باقی ہے، ایسا راتوں رات نہیں ہوجائیگا، پرانا کینسر ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے، یقینا اس بیماری کو ضرب عضب نامی معالج کے ہاتھوں کافی شاک تھراپی ملی ہے لیکن کینسر کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
فوجی آپریشن کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں، انھیں جڑ سے اکھاڑنے کے لیے صرف گہری جراحت ہی نہیں بلکہ متواتر جراحت کی بھی ضرورت ہے، فوج جنگ کرسکتی ہے، یہ کررہی ہے، اس کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی قیادت اس انتہائی اہم محاذ پر کچھ بھی نہیں کررہی ہے، نہ ہی کچھ کرنا سیاسی قیادت کی ترجیح نظر آتا ہے، اس وقت سیاسی قیادت کہاں ہے؟ اس کی طرف سے کیا سنجیدگی دکھائی جارہی ہے؟
ہم بے کار تعمیراتی منصوبے بناتے نہیں تھکتے لیکن جب دہشتگردی کی بات ہوتی ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ ملک اس وقت دہشتگردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور ہمارے سیاستدان اقتدار کے مسند نشین ہونے کے لیے بے تاب ہوئے جارہے ہیں، ملک کا سیاسی منظر نامہ بتارہا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی ترجیحات میں دہشتگردوں کا خاتمہ اولین ترجیح نہیں ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ چند دنوں کی بات نہیں بلکہ یہ ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ ہے، اگر ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں دہشتگردوں کے خلاف واضح نظریات اوریکسو ذہن کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑے گا کیونکہ کنفیوزڈ پالیسی مسلسل ہمیں نقصان پہنچارہی ہے، ہمارے معاشرے میں انتہا پسندوں کو جہاں سے مالی اور نظریاتی غذا مل رہی ہے، اس کا سب کو پتہ ہے۔
معاشرے میں انتہا پسندی کو پروموٹ کرنیوالی قوتوں کے ساتھ بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی غفلت یا لاپرواہی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دہشتگردی کے خلاف عسکری جنگ تو ہم جیت رہے ہیں مگر نظریاتی محاذ پر کوئی کام نہیں کیا جا رہا ہے، ہمارے حکمران نظریاتی محاذ پر جنگ لڑنے کے اسرارو رموز سے واقف نہیں ہے، جو جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔
اس کی صلاحیت تو ہمارے پاس ہے اور فوج کی فوقیت اس کا اظہار ہے لیکن وہ جنگ جو خیالات سے لڑی جاتی ہے اور جس میں ہارو جیت کے پیمانے بہت مختلف ہیں، اسے لڑنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ ایک آپریشن دہشتگردوں کے خلاف ہورہا ہے تو دوسرا آپریشن نصاب تعلیم کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے، ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم انقلابی تبدیلیوں کا متقاضی ہے، انتہا پسندی پر مبنی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
وقت کی پکار ہے کہ اپنی صفوں کو دشمن کے ایجنٹوں سے پاک کیا جائے، بھارت سے محبت کے گیت گانے والوں کے چہروں کو بے نقاب کرکے حساب لیا جائے، اپنی صفوں میں سے دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بھی تلاش کرکے کڑی سزا دی جائے۔ دہشتگرد اب بھی قوم کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے جس سے حتمی طور پر عہدہ بر آ ہونے کے لیے جاری حکومت عملی کا پوری حقیقت پسندی کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لے کر تمام خامیوں اور تضادات کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں، عسکری و سیاسی قیادت مکمل اتفاق رائے سے دہشتگردی کے خلاف حکمت عملی کو مزید بہتر بنائیں تاکہ دہشتگرد دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔
گزشتہ دنوں وطن عزیز پر ایک بار پھر آسمان ٹوٹ پڑا۔ کوئٹہ میں وکلاء کی پوری ایک نسل کو ملیا میٹ کرنے کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ کوئٹہ ایک بار پھر لہو میں نہاگیا، جانوروں سے بدتر انسانی خدوخال رکھنے والی خون آشام بلاؤں نے ایک بار پھر اپنے لہوکی پیاس بجھانے کے لیے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا، جس میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت زیر تربیت 61اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، سانحہ کوئٹہ پر دل خون کے آنسو رورہا ہے، پوری قوم سوگ وصدمے کی کیفیت سے دوچار ہے، اس سے پہلے بھی ہم جنونی دہشتگردوں کے پرامن شہریوں پر حملے دیکھ چکے ہیں۔
ان سب کی مجموعی تصویر ایک دہشت ناک، لہو میں ڈوبے ہوئے شیطانی کھیل کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، جب بھی دہشتگردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو یادداشت کا حصہ بن کر ذہن سے چپک جاتا ہے، اس کی وجہ جاں بحق ہونیوالے معصوم شہریوں کی تعداد نہیں بلکہ خوف و دہشت کے سیاہ ہیولے ہیں جو زہریلے ناگوں کی طرح سوچ کے بہاؤ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
بم دھماکوں، خود کش حملوں، ٹارگٹ کلنگ کے سنگین واقعات میں مسلسل کمی سے بلوچستان میں معمول کی سماجی، تجارتی اورمعاشرتی سرگرمیاں بحال ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور تخریب کاری کی مجنونانہ کارروائیوں سے بچتے بچاتے اب رفتہ رفتہ امن وسکون کے راستے پر چل نکلا ہے، لیکن کوئٹہ میں پے درپے دہشتگردی کے واقعات اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان سے بچ نکلنے والے عناصر بدستور قومی سلامتی کے درپے ہیں اور موقع ملتے ہی کونے کھدروں سے نکل کر آتش وآہن کا کھیل شروع کردیتے ہیں۔
ہر واردات یا دہشتگردی کے واقعے کے بعد سیکورٹی اداروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں، لیڈران کی جانب سے مذمتی بیانات بھی جاری ہوتے ہیں لیکن چند روز بعد پرانی روٹین بحال ہوجاتی ہے، جو کہ پریشان کن صورتحال ہے۔
اس حقیقت میں بھی اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ بھارت سمیت بعض ممالک پاکستان کو معاشی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف جو تخریب کاری ہورہی ہے اس کی مالی وفنی امداد بھارت کررہا ہے، بھارت پاکستان کو دہشتگردی کے ذریعے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
وطن عزیز کو آج انتہائی سنگین داخلی و خارجی چیلنجزکا سامنا ہے، سی پیک دوست ملک چین کا عظیم تحفہ ہے لیکن جہاں یہ منصوبہ بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے وہاں سی پیک کی وجہ سے ہمارے امریکا سے طویل تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں، بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، کل بھوشن یادیو سمیت دیگر دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی دخل اندازی کے واضح ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔
اس سے پہلے ہونے والی دہشتگردی کی کارروائی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بلوچستان کا نام لے کر تذکرہ کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت واقعی بلوچستان میں دخل اندازی کررہا ہے۔امریکا بھی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستانی فوج کو اندرون ملک مصروف رکھا جائے اس لیے وہ بھارت کو روکنے کے بجائے اس کے مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔
افغانستان پر جوگروہ اقتدار میں ہے اسے پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں،اس کا خیال ہے کہ پاکستان نے ہی افغانستان کو مقتل بنایا، اس لیے وہ اب ان کا پشت بان بن گیا ہے جو پاکستان کو مقتل بنانا چاہتے ہیں، بھارت اب افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں بھرپورمداخلت کررہا ہے، اسے یہاں افراد نہیں بلکہ صرف روپے خرچ کرنا ہوتے ہیں کیونکہ ہم سے منسوب نان اسٹیٹ ایکٹرز اب ہمارے دشمنوں کا ہتھیار بن گئے ہیں۔
بھارت کی حکمت عملی میں اب کوئی ابہام نہیں رہا، اب وہ افغانستان کو ہمارے خلاف اپنی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانا چاہتا ہے، جیسے امریکا نے سوویت یونین کے خلاف ہمیں بنایا تھا، بھارت نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے اپنے مفادات کی آبیاری کررہا ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ افغانستان میں بھی امن قائم نہیں ہونے دے رہا ہے، جیسے جیسے افغانستان میں طالبان کے حملے بڑھتے ہیں ویسے ویسے بھارت کے لیے پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینا آسان ہوجاتا ہے، اسی نفرت کو بھارت ایک ہتھیار بنا رہا ہے۔
اس صورتحال میں پاک فوج چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے، اگرچہ دہشتگردی پرکاری ضرب لگائی جاچکی اور اسے فی الحال پچھلے قدموں پر جانے پر مجبورکردیا گیا لیکن یہ خوش فہمی کسے ہے کہ یہ جنگ ختم ہوچکی؟ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہونا ابھی باقی ہے، ایسا راتوں رات نہیں ہوجائیگا، پرانا کینسر ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے، یقینا اس بیماری کو ضرب عضب نامی معالج کے ہاتھوں کافی شاک تھراپی ملی ہے لیکن کینسر کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
فوجی آپریشن کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں، انھیں جڑ سے اکھاڑنے کے لیے صرف گہری جراحت ہی نہیں بلکہ متواتر جراحت کی بھی ضرورت ہے، فوج جنگ کرسکتی ہے، یہ کررہی ہے، اس کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی قیادت اس انتہائی اہم محاذ پر کچھ بھی نہیں کررہی ہے، نہ ہی کچھ کرنا سیاسی قیادت کی ترجیح نظر آتا ہے، اس وقت سیاسی قیادت کہاں ہے؟ اس کی طرف سے کیا سنجیدگی دکھائی جارہی ہے؟
ہم بے کار تعمیراتی منصوبے بناتے نہیں تھکتے لیکن جب دہشتگردی کی بات ہوتی ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ ملک اس وقت دہشتگردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور ہمارے سیاستدان اقتدار کے مسند نشین ہونے کے لیے بے تاب ہوئے جارہے ہیں، ملک کا سیاسی منظر نامہ بتارہا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی ترجیحات میں دہشتگردوں کا خاتمہ اولین ترجیح نہیں ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ چند دنوں کی بات نہیں بلکہ یہ ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ ہے، اگر ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں دہشتگردوں کے خلاف واضح نظریات اوریکسو ذہن کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑے گا کیونکہ کنفیوزڈ پالیسی مسلسل ہمیں نقصان پہنچارہی ہے، ہمارے معاشرے میں انتہا پسندوں کو جہاں سے مالی اور نظریاتی غذا مل رہی ہے، اس کا سب کو پتہ ہے۔
معاشرے میں انتہا پسندی کو پروموٹ کرنیوالی قوتوں کے ساتھ بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی غفلت یا لاپرواہی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دہشتگردی کے خلاف عسکری جنگ تو ہم جیت رہے ہیں مگر نظریاتی محاذ پر کوئی کام نہیں کیا جا رہا ہے، ہمارے حکمران نظریاتی محاذ پر جنگ لڑنے کے اسرارو رموز سے واقف نہیں ہے، جو جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔
اس کی صلاحیت تو ہمارے پاس ہے اور فوج کی فوقیت اس کا اظہار ہے لیکن وہ جنگ جو خیالات سے لڑی جاتی ہے اور جس میں ہارو جیت کے پیمانے بہت مختلف ہیں، اسے لڑنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ ایک آپریشن دہشتگردوں کے خلاف ہورہا ہے تو دوسرا آپریشن نصاب تعلیم کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے، ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم انقلابی تبدیلیوں کا متقاضی ہے، انتہا پسندی پر مبنی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
وقت کی پکار ہے کہ اپنی صفوں کو دشمن کے ایجنٹوں سے پاک کیا جائے، بھارت سے محبت کے گیت گانے والوں کے چہروں کو بے نقاب کرکے حساب لیا جائے، اپنی صفوں میں سے دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بھی تلاش کرکے کڑی سزا دی جائے۔ دہشتگرد اب بھی قوم کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے جس سے حتمی طور پر عہدہ بر آ ہونے کے لیے جاری حکومت عملی کا پوری حقیقت پسندی کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لے کر تمام خامیوں اور تضادات کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں، عسکری و سیاسی قیادت مکمل اتفاق رائے سے دہشتگردی کے خلاف حکمت عملی کو مزید بہتر بنائیں تاکہ دہشتگرد دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔