’’پش اپس‘‘ پر تکلیف کیوں

’بے وقوف‘ ایسے ہی سمجھ گئے کہ یہ پاکستانی کپتان کی جانب سے41برس کی عمر میں سنچری بنانے کے بعد فٹنس دکھانے کا طریقہ تھا

نجانے کب عوام کو بھی جوش آئے گا اور وہ بھی ان سے پوچھیں گے کہ ’’آپ نے اپنے حلقے میں کیا کام کیا؟۔ فوٹو: فائل

''ارے یہ کیا کر رہا ہے، او مائی گاڈ، ہا ہا ہا''

پریس باکس میں اچانک قہقہے گونجنے لگے،میں بھی اس وقت لارڈز میں ہی موجود تھا، بعض صحافیوں نے خوشی کا اظہار کرنے کیلیے تالیاں بھی بجائیں،وجہ مصباح الحق کا سنچری کی تکمیل پر پش اپس کرنا تھا، نجانے گوروںکو اس میں کوئی سازشی تھیوری کیوں نہ نظر آئی۔

''بے وقوف ''ایسے ہی سمجھ گئے کہ یہ پاکستانی کپتان کی جانب سے41 برس کی عمر میں سنچری بنانے کے بعد فٹنس دکھانے کا طریقہ تھا، شاید اگلے روز کی ہی بات ہے، کمنٹیٹر ڈیوڈ لائیڈ جو اپنی مزاحیہ حرکات کی وجہ سے بھی مشہور ہیں، وہ کھیل شروع ہونے سے قبل پینٹ شرٹ پہنے اور ٹائی لگائے گراؤنڈ میں گئے اور مصباح کے سامنے پش اپس لگانے لگے۔

کپتان بھی دلچسپی سے 69 سالہ سابق کرکٹر کے انداز سے لطف اندوز ہوتے رہے اور مسکراتے ہوئے ان کی پیٹھ بھی تھپتھپائی، پورے میچ میں یہ ویڈیو دکھائی جاتی رہی جسے دیکھ کر سب بیحد لطف اندوز ہوتے، پھر یہ ٹرینڈ بن گیا، میچ جیتنے کے بعد پاکستانی ٹیم کے پش اپس دیکھ کر شائقین کو بیحد اچھا لگا، گورے جو ہربات پر اعتراض جڑ دیتے ہیں انھوں نے بھی اسے پسند کیا، مگر شاید پاکستان میں بیٹھے کچھ سیاسی لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی، وہ اسے دل میں لیے بیٹھے رہے اورموقع ملنے پر اپنی بھڑاس بورڈ آفیشلز کے سامنے نکال دی۔

میں جاوید میانداد اور عامر سہیل سے سو فیصد متفق ہوں کہ کرکٹ کے سیکڑوں سوال کیے جا سکتے تھے مگر قائمہ کمیٹی نے نان ایشو میں وقت ضائع کر دیا، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ میٹنگ کے چند منٹ بعد ہی ٹویٹر پر یہ خبر آ گئی کہ ''قائمہ کمیٹی نے پش اپس پر اعتراض کر دیا ہے'' جس نے اسے اپنے ''چاہنے والوں'' کو بتایا اسے یہ اندازہ نہ تھا کہ خبر بیک فائر ہو جائے گی، بورڈ والوں نے میٹنگ میں کہاکہ پش اپس پر پابندی لگا دی ہے مگر بعد میں نجم سیٹھی کو سوشل میڈیا پر وضاحتیں کرنا پڑ گئیں۔


بات سادہ سی تھی آرمی کے ٹرینرز نے کھلاڑیوں کو مثالی فٹنس کا حامل بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کیلیے پلیئرز نے پش اپس لگائے، مگر ہمارے کچھ لوگ بال کی کھال اتارنے میں ماہر ہیں،مجھے یاد ہے چند برس قبل یونس خان نے سنچری بنانے کے بعد ایک چٹ نکال کر کیمرے کے سامنے لہرائی جس پر لکھا تھا ''آئی لو یو موتی'' اس پر سامنے آنے والے بعض تبصرے پیش خدمت ہیں، ''یہ موتی کیا یونس کی گرل فرینڈ ہے، اس نے کس کو اشارہ دیا ہے''، حالانکہ انھوں نے محتشم رشید کو خراج تحسین ادا کیا تھا جو انھیں ٹریننگ میں مدد فراہم کرتے تھے۔

آپ دنیا میں دیکھیں، کبھی کوئی غیرملکی کرکٹر کراؤڈ میں بیٹھی اپنی دوست یا اہلیہ کی جانب فلائنگ کس نچھاور کرتا ہے، ویسٹ انڈین تو ناچنے گانے لگتے ہیں، چندرپال کی عادت تھی کہ وہ پچ کو چومتے، اسی طرح کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں مگر شاید ہی کسی نے کوئی اعتراض کیا ہو، مگر ہمارے ملک کا معاملہ الگ ہے، یہاں چھوٹی سی بات کو بھی بڑا بنا دیا جاتا ہے اور پھر دشمن مذاق اڑانے لگتے ہیں، کل بھارت کے ہر چینل پر یہی خبر تھی کہ ''پاکستان نے اپنے کھلاڑیوں کے پش اپس پر پابندی لگا دی'' سوشل میڈیا پر بھی مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ ارکان پارلیمنٹ وغیرہ کرکٹ میں کیوں ٹانگ اڑاتے ہیں، ویسے ہی سیاستدانوں نے من پسند افراد کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھا کر کھیلوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے رہی سہی کسر ایسی حرکات سے پوری ہو جائے گی، مجھے تو یہ بار بار میٹنگز کیلیے قائمہ کمیٹیز کا طلب کرنا سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش لگتی ہے، آج ہی میڈیا تہیہ کر لے کہ انھیں کوریج نہیں دینی پھر دیکھتے ہیں کتنی میٹنگز ہوتی ہیں، جمشید دستی جیسے کتنے سیاستدان ملک میں ہوں گے جنھیں کوئی نہیں جانتا، مگر وہ یونس خان کو میٹنگ میں بلا کر رسوا کرنے سے مشہور ہو گئے۔

بیچارے وہ یونس جن کی ایمانداری پر میں کوئی بھی شرط لگانے کو تیار ہوں خوامخواہ ذہنی اذیت کا شکار ہوئے، اگر ان کمیٹی ارکان کو کھیلوں سے اتنی محبت ہے تو سب سے پہلے فٹبال والوں کو بلا کر پوچھیں کہ کیوں کھیل کو مزید تباہ کر رہے ہو، پی سی بی آفیشلز سے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی، بے تحاشا اخراجات، ٹیم کے ہر ٹور میں تمام آفیشلز کی روانگی، غیرضروری اسٹاف، محدود اوورز میں خراب کارکردگی، ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری، پی ایس ایل کے معاملات سمیت کئی ایسے ایشوز پر بات ہو سکتی تھی مگر پوچھا گیا کہ ''پش اپس کیوں لگاتے ہو'' اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کا یہ حال کیوں ہے جب حکمران ایسے ہوں گے تو معاملات میں بگاڑ تو آئے گا۔

ان کمیٹیز کے ارکان کو کرکٹ کی کتنی سمجھ ہے اس کا اندازہ سوالات سے ہی لگایا جا سکتا ہے، اسی لیے بورڈ والے بھی بغیر کسی خوف کے چلے جاتے ہیں، کسی پان والے سے بھی پوچھ لیں تو وہ آپ کو پی سی بی حکام سے پوچھنے کیلیے اچھے سوال بتا دے گا، یا اخبارات ہی پڑھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کیا معاملات چل رہے ہیں، صرف میڈیا میں آنے کیلیے ملک کی جگ ہنسائی کرانے کا کیا فائدہ ؟

نجانے کب عوام کو بھی جوش آئے گا اور وہ بھی ان سے پوچھیں گے کہ ''آپ نے اپنے حلقے میں کیا کام کیا؟ عوام کو روٹی، کپڑا، مکان دینے کیلیے کیا حکمت عملی بنائی؟ پانی اوربجلی مسائل سے نمٹنے کیلیے کیا اقدامات کیے؟ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کریں پھر دوسروں سے کچھ پوچھیں،یقین کریں اگر آپ لوگ ایسا کرنے لگے تو پھر کسی قائمہ کمیٹی کو ''پش اپس'' جیسے نان ایشوز اٹھانے کیلیے وقت نہیں ملے گا، تو پھر تیار ہیں ناں آپ لوگ۔
Load Next Story