پردہ پوشی کی فضیلت
آپؐ کی زبان مبارک سے تمام مسلمانوں کو آپس میں ’’اخوت‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
''جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چُھپائے گا، اسے ذلّت و رسوائی سے بچائے گا تو اﷲ کریم روزِ قیامت اس کے گناہوں کو چُھپا لیں گے''
آج اہل اسلام تعداد میں کم ہیں نہ ہی دولت، اقتدار، اسباب اورسائل میں کسی قوم سے پیچھے ہیں لیکن بہ حیثیت قوم عزت و وقار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ باہمی عداوت، نفرت، بغض و عناد اور حسد و جلن جیسی دیمک نے اس کے مضبوط اور بااثر وجود کو چاٹنا شروع کردیا ہے، نتیجتاً مسلمان اخلاقی اور روحانی اعتبار سے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ جب کہ رسول اکرمؐ نے انہیں ایسی معاشرت سپرد کی تھی، جس میں باہمی محبت، انس و مودت، اخوت و بھائی چارہ، خیر خواہی و ہم دردی، شفقت و احترام، عزت و توقیر اور عظمت و مرتبت موجود تھی، اس حوالے سے آپؐ کی زبان مبارک سے تمام مسلمانوں کو آپس میں ''اخوت'' کے اعزاز سے نوازا گیا۔
روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان خواہ کسی بھی رنگ، نسل، قبیلے، برادری یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ان کا آپس میں بھائیوں والا تعلق ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کی خوشی سے دوسرے کو بھی خوشی حاصل ہونی چاہیے اور اگر کسی ایک کو کوئی دکھ، رنج، الم یا پریشانی پیش آتی ہے تو اس کی تکلیف بھی تمام مسلمانوں کو محسوس ہونی چاہیے۔
اجتماعی زندگی گزارتے وقت کئی طرح کے امور پیش آتے ہیں، مختلف المزاج انسانوں کے جمگھٹے میں بعض ناگوار اور غیر مناسب باتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے مواقع پر اسلام ہمیں غیر مناسب باتوں کو اچھالنے کی بجائے چْھپانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پردہ دری کے ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں جب کہ ہمیں ہمارے رسولؐ نے پردہ پوشی والا مقدس ماحول بنانے کا حکم دیا تھا۔
متعدد احادیث اس بارے میں کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ آپؐ کا فرمان نقل کرتے ہیں: '' جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپائے گا، اسے ذلت و رسوائی سے بچائے گا تو اﷲ کریم روز قیامت اس کے گناہوں کو چُھپا لیں گے۔'' یہ بات خوش گوار اجتماعی زندگی کا روشن مینارہ ہے۔ آپس میں رہتے ہوئے اگر کسی کا کوئی عیب گناہ یا غیر اخلاقی کام دیکھ لیں تو اسے اچھالنے سے گریز کریں، بل کہ اسے چھپا لیں۔
ایک اور حدیث میں اس بات کا سبق بھی دیا گیا ہے کہ آپس میں ہم دردی اور خیر خواہی کے جذبے کو موج زن رکھا جائے، اگر کوئی مسلمان پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کی پریشانی اور تکلیف کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ جو شخص کسی کی دنیاوی پریشانی دور کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کے لیے کسی معاملے میں آسانی پیدا کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائیں گے۔ جب تک آدمی اپنے بھائی کی ہر ممکن مدد کرنے میں لگا رہتا ہے اس وقت تک اﷲ تعالیٰ اس کی امداد فرماتے رہتے ہیں۔
امام طبرانیؒ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص اپنے مومن بھائی کے عیوب کو دیکھ کر چھپا لیتا ہے تو اﷲ اسے بدلے میں جنت عطا فرمائیں گے۔''
امام طبرانیؒ نے عقبہ بن عامرؓ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ یہ مسلمہ بن مخلدؓ کے پاس ملنے کے لیے تشریف لے گئے تو مسلمہ بن مخلدؓ کے دربان نے آپ کو اندر جانے سے روک دیا اور آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے۔ اندر سے مسلمہ بن مخلدؓ نے یہ صورت حال دیکھی تو اپنے چوکی دار سے کہا کہ انہیں اندر آنے دیں۔ جب حضرت عقبہ بن عامرؓ تشریف لائے تو مسلمہ بن مخلدؓ سے فرمانے لگے میں محض آپ کی زیارت کے لیے نہیں آیا، بل کہ مجھے آپ سے ایک کام بھی ہے۔
کیا آپ کو وہ دن یاد ہے جب رسول اﷲ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ''جسے اپنے بھائی کی برائی یا غیر اخلاقی کام کے بارے میں معلوم ہوجائے اور وہ اسے چھپا لے یعنی اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے تو اﷲ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ '' مسلمہ بن مخلدؓ نے فرمایا کہ ہاں مجھے آپؐ کا یہ فرمان یاد ہے۔ چناں چہ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرمانے لگے کہ میں محض اسی لیے آپ کے پاس حاضر ہوا تھا کہ آپ سے اس کی تصدیق حاصل کرلوں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اپنا مزاج ایسا بنانا چاہیے کہ ہم دوسروں کے عیوب کو جگہ جگہ نہ بتاتے پھریں۔ ہمیں عیب گوئی سے بھی شریعت منع کرتی ہے اور عیب جوئی سے بھی۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نبی کریمؐ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: '' جو کسی دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپا لیں گے اور جو شخص لوگوں کی پردہ دری کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کردیتا ہے۔ ''
اس حوالے سے آج ہم سب کو اپنی حالت دیکھ لینی چاہیے، کیا ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ہمارے عیوب اور گناہوں کو چھپا لیں گے یا پھر ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے انسان اپنے گھر بیٹھے رسوا ہوجاتا ہے۔ یہ بات ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے، ہماری اخلاقی حالت قابل رحم ہے۔
آج اہل اسلام تعداد میں کم ہیں نہ ہی دولت، اقتدار، اسباب اورسائل میں کسی قوم سے پیچھے ہیں لیکن بہ حیثیت قوم عزت و وقار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ باہمی عداوت، نفرت، بغض و عناد اور حسد و جلن جیسی دیمک نے اس کے مضبوط اور بااثر وجود کو چاٹنا شروع کردیا ہے، نتیجتاً مسلمان اخلاقی اور روحانی اعتبار سے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ جب کہ رسول اکرمؐ نے انہیں ایسی معاشرت سپرد کی تھی، جس میں باہمی محبت، انس و مودت، اخوت و بھائی چارہ، خیر خواہی و ہم دردی، شفقت و احترام، عزت و توقیر اور عظمت و مرتبت موجود تھی، اس حوالے سے آپؐ کی زبان مبارک سے تمام مسلمانوں کو آپس میں ''اخوت'' کے اعزاز سے نوازا گیا۔
روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان خواہ کسی بھی رنگ، نسل، قبیلے، برادری یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ان کا آپس میں بھائیوں والا تعلق ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کی خوشی سے دوسرے کو بھی خوشی حاصل ہونی چاہیے اور اگر کسی ایک کو کوئی دکھ، رنج، الم یا پریشانی پیش آتی ہے تو اس کی تکلیف بھی تمام مسلمانوں کو محسوس ہونی چاہیے۔
اجتماعی زندگی گزارتے وقت کئی طرح کے امور پیش آتے ہیں، مختلف المزاج انسانوں کے جمگھٹے میں بعض ناگوار اور غیر مناسب باتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے مواقع پر اسلام ہمیں غیر مناسب باتوں کو اچھالنے کی بجائے چْھپانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پردہ دری کے ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں جب کہ ہمیں ہمارے رسولؐ نے پردہ پوشی والا مقدس ماحول بنانے کا حکم دیا تھا۔
متعدد احادیث اس بارے میں کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ آپؐ کا فرمان نقل کرتے ہیں: '' جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپائے گا، اسے ذلت و رسوائی سے بچائے گا تو اﷲ کریم روز قیامت اس کے گناہوں کو چُھپا لیں گے۔'' یہ بات خوش گوار اجتماعی زندگی کا روشن مینارہ ہے۔ آپس میں رہتے ہوئے اگر کسی کا کوئی عیب گناہ یا غیر اخلاقی کام دیکھ لیں تو اسے اچھالنے سے گریز کریں، بل کہ اسے چھپا لیں۔
ایک اور حدیث میں اس بات کا سبق بھی دیا گیا ہے کہ آپس میں ہم دردی اور خیر خواہی کے جذبے کو موج زن رکھا جائے، اگر کوئی مسلمان پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کی پریشانی اور تکلیف کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ جو شخص کسی کی دنیاوی پریشانی دور کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کے لیے کسی معاملے میں آسانی پیدا کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائیں گے۔ جب تک آدمی اپنے بھائی کی ہر ممکن مدد کرنے میں لگا رہتا ہے اس وقت تک اﷲ تعالیٰ اس کی امداد فرماتے رہتے ہیں۔
امام طبرانیؒ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص اپنے مومن بھائی کے عیوب کو دیکھ کر چھپا لیتا ہے تو اﷲ اسے بدلے میں جنت عطا فرمائیں گے۔''
امام طبرانیؒ نے عقبہ بن عامرؓ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ یہ مسلمہ بن مخلدؓ کے پاس ملنے کے لیے تشریف لے گئے تو مسلمہ بن مخلدؓ کے دربان نے آپ کو اندر جانے سے روک دیا اور آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے۔ اندر سے مسلمہ بن مخلدؓ نے یہ صورت حال دیکھی تو اپنے چوکی دار سے کہا کہ انہیں اندر آنے دیں۔ جب حضرت عقبہ بن عامرؓ تشریف لائے تو مسلمہ بن مخلدؓ سے فرمانے لگے میں محض آپ کی زیارت کے لیے نہیں آیا، بل کہ مجھے آپ سے ایک کام بھی ہے۔
کیا آپ کو وہ دن یاد ہے جب رسول اﷲ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ''جسے اپنے بھائی کی برائی یا غیر اخلاقی کام کے بارے میں معلوم ہوجائے اور وہ اسے چھپا لے یعنی اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے تو اﷲ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ '' مسلمہ بن مخلدؓ نے فرمایا کہ ہاں مجھے آپؐ کا یہ فرمان یاد ہے۔ چناں چہ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرمانے لگے کہ میں محض اسی لیے آپ کے پاس حاضر ہوا تھا کہ آپ سے اس کی تصدیق حاصل کرلوں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اپنا مزاج ایسا بنانا چاہیے کہ ہم دوسروں کے عیوب کو جگہ جگہ نہ بتاتے پھریں۔ ہمیں عیب گوئی سے بھی شریعت منع کرتی ہے اور عیب جوئی سے بھی۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نبی کریمؐ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: '' جو کسی دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپا لیں گے اور جو شخص لوگوں کی پردہ دری کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کردیتا ہے۔ ''
اس حوالے سے آج ہم سب کو اپنی حالت دیکھ لینی چاہیے، کیا ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ہمارے عیوب اور گناہوں کو چھپا لیں گے یا پھر ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے انسان اپنے گھر بیٹھے رسوا ہوجاتا ہے۔ یہ بات ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے، ہماری اخلاقی حالت قابل رحم ہے۔