بصرہ بُصریٰ اور بسرا
پروگرام کا نام ہے ’’حضرات‘‘ اور اُن سیاسی رہنما کا نام ہے شوکت بسرا جسے بصرہ کردیا گیا۔
گزشتہ دنوں ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر ایک مزاحیہ پروگرام میں ایک سیاسی رہنما کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا اور سنا......بس کیا بتائیں کہ کیا کچھ دیکھا، سنا۔ اصل بات یہ ہے کہ موصوف کا نام کمپوزر کی تاریخی غلطی سے تبدیل ہوگیا۔
پروگرام کا نام ہے ''حضرات'' اور اُن سیاسی رہنما کا نام ہے شوکت بسرا جسے بصرہ کردیا گیا۔ محدود معلومات کے حامل کمپوزر سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔اُسے کیا پتہ کہ بسرا پنجاب کی ایک برادری کا نام ہے، جب کہ بصرہ ، عراق کا مشہور شہرہے۔ (ویسے آفرین ہے پروگرام کے پروڈیوسر سمیت تمام متعلق افراد پر)۔
اس شہر کے متعلق اسلامی تاریخ میں کافی مواد موجودہے جب کہ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس سے ملتا جُلتا ایک اور نام بھی ہماری تاریخ میں مذکور ہے ، بُصریٰ (بے پر پیش)، جسے لاعلمی کے سبب، بہت لوگ بَصرا پڑھتے ہیں....یہ شہر] [Busra or Bosra ملک شام میں واقع ہے۔(موضوع سے ہٹے بغیر بات کرنا لازم نہ ہوتا تو اس بارے میں کچھ مزید بیان کرتا۔اہل ذوق ، تاریخ اور سیرت کی کتب میں ملاحظہ فرمائیں)۔بات کی بات ہے کہ بصرہ کی کھجور کا شمار اس پھل کی عمدہ اقسام میں کیا جاتا ہے ۔
بسرا کے متعلق ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ جاٹ (یا جٹ) قبیلے کی ایک شاخ ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ وِکی پیڈیا میں بھی اس نام کے اردو ہجے ، سہواً، بصرہ ہی درج ہیں۔جاٹ قوم کے لوگ اسلام، ہندومَت اور سکھ مَت کے ماننے والے ہیں اور برصغیر پاک وہند کے طول و عرض میں ان کی اچھی خاصی تعداد سکونت پذیر ہے۔جٹوں کی تاریخ بھی ایک مفصل موضوع ہے، جسے مصلحتاً ترک کرتے ہوئے بندہ یہ عرض کرے کہ اردو لغات میں ایک مشہور کہاو ت مو جود ہے: جاٹ رے جاٹ ، تیرے سر پر کھاٹ۔
جب اردوزبان کی پیدائش سے ارتقاء تک صدیوں پر محیط تاریخ یک جا ، منضبط کی جائے گی تو اس کے ابتدائی خادموں میں جاٹ یا جٹ بھی شامل ہوںگے کیوں کہ یہ اس خطے کے قدیم باسیوں میں شامل ہیں اور اس منفرد زبان کا ابتدائی ذخیرۂ الفاظ بھی ہمارے انٹرنیٹ فرینڈ، سنسکرت اور ہندی کے عالم، ڈاکٹر اَجے مالوی (جامعہ الہ آباد، ہندوستان) کی تحقیق کے مطابق، سنسکرت سے بھی قبل (ہندومذہب کی قدیم، مقدس کتب) ویدوں کے عہد (ماقبل عہدحضرت عیسیٰ علیہ السلام) کی بولی سے ماخوذہے۔
لفظ اردو بذاتہ، ترکی زبان میں بہت بعد میں پہنچا، یہ اصل میں ویدک بولی کی عطا ہے اور اس کے معانی کا خلاصہ ہے: معرفت کی زبان، دل کی زبان۔(بحوالہ تصنیف ِموصوف: ''ویدک ادب اور اُردو''۔پہلی باراشاعت: جنوری ۲۰۰۹ء۔پانچ مرتبہ شائع ہوچکی ہے)۔ترکی اور دیگر زبانوں میںلشکر اور چھاؤنی کے معنوں میں مستعمل ، لفظ اردو کا استعمال، قدیم سندھی زبان میں، ڈھیر یا ڈھیری کے معنوں میں ہوتا تھا اور آج بھی اہل ِ زبان اس منفرد معنی سے واقف ہیں۔
اردو سے زیادتی کرنے والے متعصبین میں خود اہل زبان کے علاوہ ، بعض دیگر زبانیں بولنے والے بھی شامل ہیں، جو للہی بغض یا اللہ واسطے کا بیَر دکھاتے ہوئے انتہائی زہر ناک (زہر آلود ) الفاظ میں اس کی برائی کرتے ہیں۔ خاکسار کے گزشتہ سے پیوستہ کالم بعنوان 'اردو، اقوام متحدہ کی زبان' پر رائے زنی کرتے ہوئے ایسے ہی ایک شخص نے ای میل کے ذریعے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان نہیں کیوں کہ یہ کسی قوم کی زبان نہیں اور پاکستان کی (قومی) زبان تو پنجابی ہے۔ بقول کسے:
بک رہا ہوں جنو ں میں کیا کیا کچھ
کچھ نا سمجھے خدا کرے کوئی
اس بیہودہ طنز اور اعتراض کا جواب بارہا دیا جاچکا ہے اور جواب دینے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل ہے، لہٰذا فی الحال سکوت لازم ہے۔ پاکستان کی ہی نہیں، پوری دنیا کی سب سے منفرد و ممتاز زبان اردو کا یہ اعزاز ہے کہ ایشیا سے لے کر افریقا اور دیگر براعظموں تک بولی جانے والی کوئی بڑی، درمیانی اور چھوٹی (مگر اہم) زبان ایسی نہیں جس کے ذخیرۂ الفاظ میں اردو سے اشتراک ، سرے سے نا ملتا ہو۔ ہماری'' فادری'' زبان انگریزی میں تو آج بھی بہت سے اردو الفاظ اپنی اصل شکل میں مستعمل ہیں اور بعض مبدل شکل میں۔ مثالیں دیکھنے کے لیے کوئی بھی مستند انگریزی (خواہ برطانوی ہو یا امریکی) لغات ملاحظہ فرمائیں۔
اس سے قبل اسی سلسلے کے ایک کالم میں یہ ذکر ہوچکا ہے۔دیگرمثالوں کے علاوہ نہایت دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ انگریزی لفظ 'شوگر [Sugar] درحقیقت اپنے ماخذ کے لحاظ سے'' شکر'' کا بھائی ہے، اسی طرح کیریکٹر [Character] بھی تفصیلی جائزے کے مطابق، سنسکرت لفظ چرتر کی ترقی یافتہ شکل ہے، جو اردو میں چلتر کے طور پر رائج ہے۔
پروگرام کا نام ہے ''حضرات'' اور اُن سیاسی رہنما کا نام ہے شوکت بسرا جسے بصرہ کردیا گیا۔ محدود معلومات کے حامل کمپوزر سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔اُسے کیا پتہ کہ بسرا پنجاب کی ایک برادری کا نام ہے، جب کہ بصرہ ، عراق کا مشہور شہرہے۔ (ویسے آفرین ہے پروگرام کے پروڈیوسر سمیت تمام متعلق افراد پر)۔
اس شہر کے متعلق اسلامی تاریخ میں کافی مواد موجودہے جب کہ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس سے ملتا جُلتا ایک اور نام بھی ہماری تاریخ میں مذکور ہے ، بُصریٰ (بے پر پیش)، جسے لاعلمی کے سبب، بہت لوگ بَصرا پڑھتے ہیں....یہ شہر] [Busra or Bosra ملک شام میں واقع ہے۔(موضوع سے ہٹے بغیر بات کرنا لازم نہ ہوتا تو اس بارے میں کچھ مزید بیان کرتا۔اہل ذوق ، تاریخ اور سیرت کی کتب میں ملاحظہ فرمائیں)۔بات کی بات ہے کہ بصرہ کی کھجور کا شمار اس پھل کی عمدہ اقسام میں کیا جاتا ہے ۔
بسرا کے متعلق ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ جاٹ (یا جٹ) قبیلے کی ایک شاخ ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ وِکی پیڈیا میں بھی اس نام کے اردو ہجے ، سہواً، بصرہ ہی درج ہیں۔جاٹ قوم کے لوگ اسلام، ہندومَت اور سکھ مَت کے ماننے والے ہیں اور برصغیر پاک وہند کے طول و عرض میں ان کی اچھی خاصی تعداد سکونت پذیر ہے۔جٹوں کی تاریخ بھی ایک مفصل موضوع ہے، جسے مصلحتاً ترک کرتے ہوئے بندہ یہ عرض کرے کہ اردو لغات میں ایک مشہور کہاو ت مو جود ہے: جاٹ رے جاٹ ، تیرے سر پر کھاٹ۔
جب اردوزبان کی پیدائش سے ارتقاء تک صدیوں پر محیط تاریخ یک جا ، منضبط کی جائے گی تو اس کے ابتدائی خادموں میں جاٹ یا جٹ بھی شامل ہوںگے کیوں کہ یہ اس خطے کے قدیم باسیوں میں شامل ہیں اور اس منفرد زبان کا ابتدائی ذخیرۂ الفاظ بھی ہمارے انٹرنیٹ فرینڈ، سنسکرت اور ہندی کے عالم، ڈاکٹر اَجے مالوی (جامعہ الہ آباد، ہندوستان) کی تحقیق کے مطابق، سنسکرت سے بھی قبل (ہندومذہب کی قدیم، مقدس کتب) ویدوں کے عہد (ماقبل عہدحضرت عیسیٰ علیہ السلام) کی بولی سے ماخوذہے۔
لفظ اردو بذاتہ، ترکی زبان میں بہت بعد میں پہنچا، یہ اصل میں ویدک بولی کی عطا ہے اور اس کے معانی کا خلاصہ ہے: معرفت کی زبان، دل کی زبان۔(بحوالہ تصنیف ِموصوف: ''ویدک ادب اور اُردو''۔پہلی باراشاعت: جنوری ۲۰۰۹ء۔پانچ مرتبہ شائع ہوچکی ہے)۔ترکی اور دیگر زبانوں میںلشکر اور چھاؤنی کے معنوں میں مستعمل ، لفظ اردو کا استعمال، قدیم سندھی زبان میں، ڈھیر یا ڈھیری کے معنوں میں ہوتا تھا اور آج بھی اہل ِ زبان اس منفرد معنی سے واقف ہیں۔
اردو سے زیادتی کرنے والے متعصبین میں خود اہل زبان کے علاوہ ، بعض دیگر زبانیں بولنے والے بھی شامل ہیں، جو للہی بغض یا اللہ واسطے کا بیَر دکھاتے ہوئے انتہائی زہر ناک (زہر آلود ) الفاظ میں اس کی برائی کرتے ہیں۔ خاکسار کے گزشتہ سے پیوستہ کالم بعنوان 'اردو، اقوام متحدہ کی زبان' پر رائے زنی کرتے ہوئے ایسے ہی ایک شخص نے ای میل کے ذریعے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان نہیں کیوں کہ یہ کسی قوم کی زبان نہیں اور پاکستان کی (قومی) زبان تو پنجابی ہے۔ بقول کسے:
بک رہا ہوں جنو ں میں کیا کیا کچھ
کچھ نا سمجھے خدا کرے کوئی
اس بیہودہ طنز اور اعتراض کا جواب بارہا دیا جاچکا ہے اور جواب دینے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل ہے، لہٰذا فی الحال سکوت لازم ہے۔ پاکستان کی ہی نہیں، پوری دنیا کی سب سے منفرد و ممتاز زبان اردو کا یہ اعزاز ہے کہ ایشیا سے لے کر افریقا اور دیگر براعظموں تک بولی جانے والی کوئی بڑی، درمیانی اور چھوٹی (مگر اہم) زبان ایسی نہیں جس کے ذخیرۂ الفاظ میں اردو سے اشتراک ، سرے سے نا ملتا ہو۔ ہماری'' فادری'' زبان انگریزی میں تو آج بھی بہت سے اردو الفاظ اپنی اصل شکل میں مستعمل ہیں اور بعض مبدل شکل میں۔ مثالیں دیکھنے کے لیے کوئی بھی مستند انگریزی (خواہ برطانوی ہو یا امریکی) لغات ملاحظہ فرمائیں۔
اس سے قبل اسی سلسلے کے ایک کالم میں یہ ذکر ہوچکا ہے۔دیگرمثالوں کے علاوہ نہایت دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ انگریزی لفظ 'شوگر [Sugar] درحقیقت اپنے ماخذ کے لحاظ سے'' شکر'' کا بھائی ہے، اسی طرح کیریکٹر [Character] بھی تفصیلی جائزے کے مطابق، سنسکرت لفظ چرتر کی ترقی یافتہ شکل ہے، جو اردو میں چلتر کے طور پر رائج ہے۔