نہ کوئٹہ نہ کوئی اور شہر
کوئٹہ کب تک لہولہان رہے گا؟ 25 اکتوبرکو پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے میں 60 جوان شہید ہو گئے
ISLAMABAD:
کوئٹہ کب تک لہولہان رہے گا؟ 25 اکتوبرکو پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے میں 60 جوان شہید ہو گئے۔ دو ماہ قبل کوئٹہ کے سول اسپتال پر خودکش حملے میں 160 افراد شہید ہوئے تھے۔ کوئٹہ میں ایک بس پر فائرنگ سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی تین خواتین شہید ہوئی تھیں۔ اس سے قبل پولیس لائن پر ایک جنازے کے موقعے پر حملے میں بہت سے سینئر پولیس افسران شہید ہو گئے تھے۔
2008ء سے 2013ء تک کوئٹہ دہشت گردی کے کے حوالے سے بدترین شہر تھا، اب پھر حالات خراب ہونگے یا کوئٹہ کے شہریوں کو امن میسر آئے گا؟ یہ بات ہر اس شخص کے ذہن میں گردش کر رہی ہے جو دہشتگردی اور انسانی اموات پر افسردہ ہے۔ ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس کے خفیہ ذرایع نے کئی دن قبل اسی طرح کے حملے کا خدشہ ظاہر کیا تھا مگر ہمیشہ کی طرح حفاظتی اقدامات نہیں ہوئے۔
شہید نوجوانوں کا تعلق بلوچستان کے پختون اور بلوچ آبادی والے علاقوں سے تھا۔ شہید اور زخمی ہونے والے رنگروٹ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والدین نے ارمانوں کے ساتھ ان لوگوں کو پولیس میں بھرتی کرایا تھا مگر سارے خواب کرچی کرچی ہو گئے۔ بعض ٹی وی چینلز نے پولیس لائن میں ہونے والی تقریب کے فوٹیج بار بار اسکرین پر چلائے، ان فوٹیج میں بلوچستان کے آئی جی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پولیس ٹریننگ سینٹر کی چار دیواری کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
وزیراعلیٰ ثناء اﷲ زہری آئی جی صاحب کے مطالبات منظور کرنے کا اعلان کرتے ہیں مگر وزیر اعلیٰ کا اعلان الیکٹرونک لہروں اور ٹی وی سیٹ تک تو پہنچا مگر صوبائی حکومت نے ٹریننگ سینٹر کی چار دیواری کو مضبوط کرنے اورآہنی باڑ لگانے کے لیے فنڈ جاری نہیں کیے۔ حملہ آور انتہائی آسانی سے عمارت میں داخل ہوئے اور اپنا ہدف پورا کر کے پروازکر گئے۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی اتنی بڑی تعداد کے بعد کسی افسر کو یہ اعلان زیب نہیں دیتا ہے کہ بروقت آپریشن سے کم جانی نقصان ہوا۔
پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے سے دو ماہ قبل بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی اور وکلاء اس خبر کو سن کر سول اسپتال پہنچے تھے تو وہ خودکش حملے کا نشانہ بن گئے تھے۔ سول اسپتال حملے میں وکلاء کی نسل کشی ہوئی۔ ان میں سے بیشتر وکلاء انسانی حقوق کی پاسداری، بلوچوں کے بنیادی حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے متحرک تھے کہ بم دھماکوں نے وکلاء کی ایک پوری نسل کو ختم کر دیا۔ اس حملے کی ذمے داری داعش، لشکرِ جھنگوی اور القاعدہ نے قبول کی۔
وزیر داخلہ گزشتہ کئی برسوں سے اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ ملک میں داعش نے اپنے اڈے قائم کر لیے ہیں۔ داعش نے کوئٹہ کے وکلاء پر حملے کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔ اب بھی داعش کے حملہ آوروں کی تصاویر کے ساتھ ان کے دعوے کی تصدیق کر رہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ افغان وار میں بھی مجاہدین کا مرکز رہا بعد ازاں طالبان کا مرکز بھی یہی شہر رہا۔ طالبان کے امیر ملا عمر کا تعلق قندھار سے ہے جو پاکستان اور افغانستان کا سرحدی شہر ہے۔ جب نائن الیون کے بعد اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان اتحادی افواج کا حصہ بنا تو افغانستان پر سے طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔
حامد کرزئی کا تعلق بھی قندھار سے ہے افغانستان کے صدر بنے تو افغان حکومت اور امریکی فوجی جنرلوں نے یہ الزام لگانا شروع کیا کہ طالبان کی شوریٰ کوئٹہ کے مضافات میں موجود ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بہت سے طالبان رہنماؤں کوکوئٹہ اور دیگر مضافاتی شہروں سے گرفتارکیا تھا۔
کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کی بستیوں پر خودکش حملے ہونے لگے تو سیکیورٹی ذرایع نے یہ الزام لگایا گیا کہ کوئٹہ کے پہاڑی سلسلے میں انتہاپسند مذہبی گروہ اور بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے جنگجوؤں نے اپنی کمین گاہیں قائم کر لی ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ خضدار میں ایک لشکر موجود ہے۔ جب نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹرمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تو انھوں نے بلوچستان میں امن وامان کو خراب کرنے والے عناصرکے خلاف گھیرا تنگ کیا تو خضدارکے مضافاتی علاقے کی زمین میں دفن لاشیں ملیں۔ پتہ چلا کہ اس جگہ پر اس لشکر کا پڑاؤ تھا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک کی کوششوں سے صوبے کے حالات میں تبدیلی آئی اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ شکارپور میں امام بارگاہ پر عیدالاضحیٰ کی نماز کے وقت خودکش حملے کی کوشش ہوئی، ایک خودکش حملہ آور گرفتار ہوا تو اس دہشتگرد نے انکشاف کیا کہ وہ خضدار سے آیا تھا۔ کراچی میں صفورا چورنگی میں فائرنگ کیس میں ملوث افراد کا تعلق بھی خضدار کے اسی لشکر سے نکلا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کی منصوبہ بندی منظم انداز میں کی گئی تھی۔ حملہ آور سینٹر کے نقشے سے بھی آگاہ تھے اور سینٹر میں اسلحہ بھی موجود نہیں تھا۔ ان حملہ آوروں کا بیرونی دنیا سے بھی رابطہ تھا اور کوئی شخص ان حملہ آوروں کو گائڈ کر رہا تھا۔ یوں دہشتگردی کی ان وارداتوں کا تعلق کوئٹہ شہر کے علاوہ بلوچستان اور سرحد پار تک سے جڑ جاتا ہے۔ کوئٹہ میں 2010ء سے اب تک 15 خودکش حملے ہو چکے ہیں مگر بلوچستان کی حکومت بنیادی اقدامات نہیں کر پائی۔
کوئٹہ میں کوئی جدید ٹراما سینٹر نہیں ہے۔ اسپتالوں اور امدادی کام کرنے والے اداروں کے پاس ایمبولینس تک نہیں ہیں۔ پولیس ٹریننگ سینٹر میں شہید ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق پشین، لورالائی، قلعہ سیف اﷲ، خضدار، حب اور تربت وغیرہ سے ہے۔ حکومت مرنے والوں کی میتوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس فراہم نہیں کر سکی۔
انسداد دہشتگردی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر طرزِ حکومت سے دہشتگردی کا تدارک ہو سکتا ہے۔ مختلف تنظیموں کی جانب سے دہشتگردی کے واقعے کی ذمے داری لینے کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حکمت عملی محض تحقیقاتی ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ دہشتگردی کے تدارک کے ماہرین کہتے ہیں کہ صرف دہشتگردوں کے آخری ہدف کو محفوظ بنا کر دہشتگردی کا تدارک ممکن نہیں ہے بلکہ دہشتگردوںکی جڑوں کے خاتمے سے ہی یہ عفریت ختم ہو سکتا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی اس دہشتگردی کی بنیادی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جہادکے لیے اس مذہبی انتہاپسندی کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ مخصوص ذہن تیارکرنے والے مراکز قائم ہوئے۔ یہ مراکز سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی قائم ہوئے اور دینی مدارس میں بھی ان کا قیام عمل میں آیا۔ سرکاری محکموں میں بھی انتہاپسندی کو تقویت دینے کے لیے اقدامات کیے گئے، ناجائز اسلحے کی نقل وحرکت آسان ہوگئی۔ پورے ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو تقویت دی گئی۔ بعد ازاں دہشتگردی کے تدارک کے لیے بہت سی کارروائیاں ہوئیں۔
ان کارروائیوں کے نتیجے میں کئی ہزار دہشتگرد مارے گئے، فوج، رینجرز، پولیس اور خفیہ عسکری اور سول ایجنسیوں کے افسروں اور جوانوں نے قربانیاں دیں۔ انتہاپسندی کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافی، وکلاء، اساتذہ، خواتین اور سماجی کارکن بھی اس ملک میں شہید ہوئے مگر انتہاپسند ذہن تیار کرنے والے کارخانے بند نہ ہوسکے۔
حکومتوں نے جب بھی جدید تعلیمی اداروں کے نصاب سے انتہاپسندی پر مبنی مواد کو نکالنے کی کوشش کی تو ملک میں ایک شور مچ گیا۔ جب بھی مدارس کے لیے اصلاحات تجویزہوئیں تو مذہبی تنظیموں نے حکومت کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ جب بھی کالعدم مذہبی تنظیموں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا، اس شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیے گئے تو انتہاپسند تنظیموں نے عمران خان کے دھرنے میں شریک ہونے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے دہشتگرد افراد کی تنظیموں کے خلاف کارروائی پر زور دیا گیا تو ذرایع ابلاغ کو رجعت پسندی کے لیے استعمال کرنے والے دانشوروں نے جھنجھلانا شروع کیا، نیشنل ایکشن پلان کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ افغانستان میں مقیم امریکی فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر نگرانی کا مؤثر نظام نہیں ہے، یہ دہشتگرد افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ان دہشتگردوں کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے امریکا، افغانستان اور پاکستان کے درمیان اتفاقِ رائے ضروری ہے مگر جب تک جمہوری حکومت کو ریاست کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل کرنے کا حق نہیں ملے گا اور ریاست کے تمام ادارے مذہبی انتہاپسند ی کے خاتمے کے لیے یکجا نہیں ہونگے تو نہ کوئٹہ نہ پشاور اور نہ کوئی اورشہر محفوظ بن سکے گا۔
کوئٹہ کب تک لہولہان رہے گا؟ 25 اکتوبرکو پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے میں 60 جوان شہید ہو گئے۔ دو ماہ قبل کوئٹہ کے سول اسپتال پر خودکش حملے میں 160 افراد شہید ہوئے تھے۔ کوئٹہ میں ایک بس پر فائرنگ سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی تین خواتین شہید ہوئی تھیں۔ اس سے قبل پولیس لائن پر ایک جنازے کے موقعے پر حملے میں بہت سے سینئر پولیس افسران شہید ہو گئے تھے۔
2008ء سے 2013ء تک کوئٹہ دہشت گردی کے کے حوالے سے بدترین شہر تھا، اب پھر حالات خراب ہونگے یا کوئٹہ کے شہریوں کو امن میسر آئے گا؟ یہ بات ہر اس شخص کے ذہن میں گردش کر رہی ہے جو دہشتگردی اور انسانی اموات پر افسردہ ہے۔ ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس کے خفیہ ذرایع نے کئی دن قبل اسی طرح کے حملے کا خدشہ ظاہر کیا تھا مگر ہمیشہ کی طرح حفاظتی اقدامات نہیں ہوئے۔
شہید نوجوانوں کا تعلق بلوچستان کے پختون اور بلوچ آبادی والے علاقوں سے تھا۔ شہید اور زخمی ہونے والے رنگروٹ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والدین نے ارمانوں کے ساتھ ان لوگوں کو پولیس میں بھرتی کرایا تھا مگر سارے خواب کرچی کرچی ہو گئے۔ بعض ٹی وی چینلز نے پولیس لائن میں ہونے والی تقریب کے فوٹیج بار بار اسکرین پر چلائے، ان فوٹیج میں بلوچستان کے آئی جی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پولیس ٹریننگ سینٹر کی چار دیواری کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
وزیراعلیٰ ثناء اﷲ زہری آئی جی صاحب کے مطالبات منظور کرنے کا اعلان کرتے ہیں مگر وزیر اعلیٰ کا اعلان الیکٹرونک لہروں اور ٹی وی سیٹ تک تو پہنچا مگر صوبائی حکومت نے ٹریننگ سینٹر کی چار دیواری کو مضبوط کرنے اورآہنی باڑ لگانے کے لیے فنڈ جاری نہیں کیے۔ حملہ آور انتہائی آسانی سے عمارت میں داخل ہوئے اور اپنا ہدف پورا کر کے پروازکر گئے۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی اتنی بڑی تعداد کے بعد کسی افسر کو یہ اعلان زیب نہیں دیتا ہے کہ بروقت آپریشن سے کم جانی نقصان ہوا۔
پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے سے دو ماہ قبل بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی اور وکلاء اس خبر کو سن کر سول اسپتال پہنچے تھے تو وہ خودکش حملے کا نشانہ بن گئے تھے۔ سول اسپتال حملے میں وکلاء کی نسل کشی ہوئی۔ ان میں سے بیشتر وکلاء انسانی حقوق کی پاسداری، بلوچوں کے بنیادی حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے متحرک تھے کہ بم دھماکوں نے وکلاء کی ایک پوری نسل کو ختم کر دیا۔ اس حملے کی ذمے داری داعش، لشکرِ جھنگوی اور القاعدہ نے قبول کی۔
وزیر داخلہ گزشتہ کئی برسوں سے اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ ملک میں داعش نے اپنے اڈے قائم کر لیے ہیں۔ داعش نے کوئٹہ کے وکلاء پر حملے کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔ اب بھی داعش کے حملہ آوروں کی تصاویر کے ساتھ ان کے دعوے کی تصدیق کر رہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ افغان وار میں بھی مجاہدین کا مرکز رہا بعد ازاں طالبان کا مرکز بھی یہی شہر رہا۔ طالبان کے امیر ملا عمر کا تعلق قندھار سے ہے جو پاکستان اور افغانستان کا سرحدی شہر ہے۔ جب نائن الیون کے بعد اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان اتحادی افواج کا حصہ بنا تو افغانستان پر سے طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔
حامد کرزئی کا تعلق بھی قندھار سے ہے افغانستان کے صدر بنے تو افغان حکومت اور امریکی فوجی جنرلوں نے یہ الزام لگانا شروع کیا کہ طالبان کی شوریٰ کوئٹہ کے مضافات میں موجود ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بہت سے طالبان رہنماؤں کوکوئٹہ اور دیگر مضافاتی شہروں سے گرفتارکیا تھا۔
کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کی بستیوں پر خودکش حملے ہونے لگے تو سیکیورٹی ذرایع نے یہ الزام لگایا گیا کہ کوئٹہ کے پہاڑی سلسلے میں انتہاپسند مذہبی گروہ اور بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے جنگجوؤں نے اپنی کمین گاہیں قائم کر لی ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ خضدار میں ایک لشکر موجود ہے۔ جب نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹرمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تو انھوں نے بلوچستان میں امن وامان کو خراب کرنے والے عناصرکے خلاف گھیرا تنگ کیا تو خضدارکے مضافاتی علاقے کی زمین میں دفن لاشیں ملیں۔ پتہ چلا کہ اس جگہ پر اس لشکر کا پڑاؤ تھا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک کی کوششوں سے صوبے کے حالات میں تبدیلی آئی اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ شکارپور میں امام بارگاہ پر عیدالاضحیٰ کی نماز کے وقت خودکش حملے کی کوشش ہوئی، ایک خودکش حملہ آور گرفتار ہوا تو اس دہشتگرد نے انکشاف کیا کہ وہ خضدار سے آیا تھا۔ کراچی میں صفورا چورنگی میں فائرنگ کیس میں ملوث افراد کا تعلق بھی خضدار کے اسی لشکر سے نکلا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کی منصوبہ بندی منظم انداز میں کی گئی تھی۔ حملہ آور سینٹر کے نقشے سے بھی آگاہ تھے اور سینٹر میں اسلحہ بھی موجود نہیں تھا۔ ان حملہ آوروں کا بیرونی دنیا سے بھی رابطہ تھا اور کوئی شخص ان حملہ آوروں کو گائڈ کر رہا تھا۔ یوں دہشتگردی کی ان وارداتوں کا تعلق کوئٹہ شہر کے علاوہ بلوچستان اور سرحد پار تک سے جڑ جاتا ہے۔ کوئٹہ میں 2010ء سے اب تک 15 خودکش حملے ہو چکے ہیں مگر بلوچستان کی حکومت بنیادی اقدامات نہیں کر پائی۔
کوئٹہ میں کوئی جدید ٹراما سینٹر نہیں ہے۔ اسپتالوں اور امدادی کام کرنے والے اداروں کے پاس ایمبولینس تک نہیں ہیں۔ پولیس ٹریننگ سینٹر میں شہید ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق پشین، لورالائی، قلعہ سیف اﷲ، خضدار، حب اور تربت وغیرہ سے ہے۔ حکومت مرنے والوں کی میتوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس فراہم نہیں کر سکی۔
انسداد دہشتگردی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر طرزِ حکومت سے دہشتگردی کا تدارک ہو سکتا ہے۔ مختلف تنظیموں کی جانب سے دہشتگردی کے واقعے کی ذمے داری لینے کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حکمت عملی محض تحقیقاتی ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ دہشتگردی کے تدارک کے ماہرین کہتے ہیں کہ صرف دہشتگردوں کے آخری ہدف کو محفوظ بنا کر دہشتگردی کا تدارک ممکن نہیں ہے بلکہ دہشتگردوںکی جڑوں کے خاتمے سے ہی یہ عفریت ختم ہو سکتا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی اس دہشتگردی کی بنیادی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جہادکے لیے اس مذہبی انتہاپسندی کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ مخصوص ذہن تیارکرنے والے مراکز قائم ہوئے۔ یہ مراکز سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی قائم ہوئے اور دینی مدارس میں بھی ان کا قیام عمل میں آیا۔ سرکاری محکموں میں بھی انتہاپسندی کو تقویت دینے کے لیے اقدامات کیے گئے، ناجائز اسلحے کی نقل وحرکت آسان ہوگئی۔ پورے ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو تقویت دی گئی۔ بعد ازاں دہشتگردی کے تدارک کے لیے بہت سی کارروائیاں ہوئیں۔
ان کارروائیوں کے نتیجے میں کئی ہزار دہشتگرد مارے گئے، فوج، رینجرز، پولیس اور خفیہ عسکری اور سول ایجنسیوں کے افسروں اور جوانوں نے قربانیاں دیں۔ انتہاپسندی کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافی، وکلاء، اساتذہ، خواتین اور سماجی کارکن بھی اس ملک میں شہید ہوئے مگر انتہاپسند ذہن تیار کرنے والے کارخانے بند نہ ہوسکے۔
حکومتوں نے جب بھی جدید تعلیمی اداروں کے نصاب سے انتہاپسندی پر مبنی مواد کو نکالنے کی کوشش کی تو ملک میں ایک شور مچ گیا۔ جب بھی مدارس کے لیے اصلاحات تجویزہوئیں تو مذہبی تنظیموں نے حکومت کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ جب بھی کالعدم مذہبی تنظیموں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا، اس شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیے گئے تو انتہاپسند تنظیموں نے عمران خان کے دھرنے میں شریک ہونے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے دہشتگرد افراد کی تنظیموں کے خلاف کارروائی پر زور دیا گیا تو ذرایع ابلاغ کو رجعت پسندی کے لیے استعمال کرنے والے دانشوروں نے جھنجھلانا شروع کیا، نیشنل ایکشن پلان کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ افغانستان میں مقیم امریکی فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر نگرانی کا مؤثر نظام نہیں ہے، یہ دہشتگرد افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ان دہشتگردوں کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے امریکا، افغانستان اور پاکستان کے درمیان اتفاقِ رائے ضروری ہے مگر جب تک جمہوری حکومت کو ریاست کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل کرنے کا حق نہیں ملے گا اور ریاست کے تمام ادارے مذہبی انتہاپسند ی کے خاتمے کے لیے یکجا نہیں ہونگے تو نہ کوئٹہ نہ پشاور اور نہ کوئی اورشہر محفوظ بن سکے گا۔