بند سیاست
پاکستان پر قرضے کا بوجھ اسقدر بڑھ گیا ہے کہ اس کا صرف سود ہی ملک کے تمام ترقیاتی بجٹ سے تجاوز کر گیا ہے
PESHAWAR:
پاکستان پر قرضے کا بوجھ اسقدر بڑھ گیا ہے کہ اس کا صرف سود ہی ملک کے تمام ترقیاتی بجٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواہ پانامہ لیکس ہوں یا بہاما لیکس' سچ کو ہر حال میں پذیرائی ملنی چاہیے۔ ہمارے حکمران غیر قانونی سودے کرتے رہے ہیں اور ٹیکس کی ادائیگی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔
مس لیگارڈ کا کہنا تھا کرپشن کے سدباب کے لیے شفافیت اور احتساب دو کلیدی عناصر ہیں۔ مس لیگارڈ کے دورہ پاکستان کے ایک روز بعد ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر ٹاکی ہیگو ناکاؤ بھی پاکستان کے دورے پر آئے اور انھوں نے بھی مس لیگارڈ کے موقف کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کرپشن' ٹیکس نادہندگی اور منی لانڈرنگ سے مسلسل نمٹنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر سپریم کورٹ کو بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
جہاں تک پانامہ لیکس کے سکینڈل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ابھی تک تحقیق کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے حتیٰ کہ قومی احتساب بیورو اپنے صوابدیدی اختیار کے استعمال میں ناکام رہا ہے جو کہ اسے پانامہ پیپرز کے ذمے داروں کا نام تلاش کرنے کے سلسلے میں حاصل تھے۔ سپریم کورٹ کی تعریف کی جانی چاہیے کہ اس نے چیئرمین نیب کو خورد برد کی رقم رضا کارانہ طور پر واپس کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
شروع میں تو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے بدعنوانی کے احتساب کا اجتماعی طور پر مطالبہ کیا گیا لیکن رفتہ رفتہ اس جدوجہد میں صرف پی ٹی آئی اکیلی پارٹی رہ گئی۔ اب پی اے ٹی کے اس کے ساتھ شامل ہونے سے اس کو تقویت حاصل ہو گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے دو نومبر کو ہونے والے اسلام آباد دھرنے میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے تاہم پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے احتساب کے عمل کی حمایت کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز وزیراعظم اور ان کی فیملی سے ہونا چاہیے۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اس نے اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کر لیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 25000 اہلکاروں کے لیے 680 ملین (68 کروڑ) روپے جاری کیے گئے ہیں اور ان کو 'اے جے کے' سمیت دیگر صوبوں سے طلب کر لیا گیا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد کی پولیس میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے اور فسادات کو روکنے والے دستوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزراء نے اشارہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا جائے گا جب کہ ایسا کرنے سے سڑکوں پر خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیا ان کارروائیوں کے نتیجے میں سیاسی شہیدوں کو پیداکرنے کا انتظام تو نہیں کیا جا رہا یا قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟ عمران خان اور جہانگیر ترین کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نوٹس موصول ہو گئے ہیں کہ وہ دو نومبر کو کمیشن کے روبرو پیش ہوں جہاں ان کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نااہلی کے ریفرنس جمع کروا دیے ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات قطعاً حیران کن نہیں کہ انھوں نے وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کو طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ اس کارروائی کے ٹائمنگ کو دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے منصوبوں کو پھندا ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ عمران نے بعدازاں تسلیم کر لیا تھا کہ ان کے اور ان کی فیملی کی چند آف شور کمپنیوں میں حصص موجود ہیں تاہم ان کا اصرار ہے کہ یہ رقوم غیر قانونی طور پر منتقل نہیں کی گئیں تو پھر انھیں کسی انکوائری کا آخر کیا ڈر ہے؟
کیا سپریم کورٹ بلا تخصیص ان سب لوگوں کو سزا نہیں سنا سکتی جن کے آف شور کمپنیوں میں حصے ہیں اور وہ کسی انکوائری کی مزاحمت کر رہے ہیں، حکومتی حلقوں میں شامل افراد کیوں انکوائری سے خود کو بچا رہے ہیں؟ پانامہ لیکس نے اخلاقی بنیادوں پر وزیراعظم کو ہلا کر رکھ دیا ہے جب کہ حکومت داخلی سیکیورٹی کو قابو میں رکھنے اور خارجہ پالیسی کے معاملات کے حوالے سے الجھن کا شکار محسوس ہوتی ہے۔
کوئٹہ کی پولیس اکیڈمی میں دہشتگردوں کا حملہ اور کنٹرول لائن کے ساتھ ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی طرف سے مسلسل فائرنگ اور گولہ باری یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن کی کارروائیاں حکومت کے لیے سود مند ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے کرپشن سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس حوالے سے جنرل راحیل شریف پہلے ہی اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ کرپشن کو کسی حالت میں برداشت نہیں کیا جائے گا اور احتساب بلا استثنیٰ ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے جاری ہونے والی میڈیا کی ایک مشکوک رپورٹ جس کے پیچھے وفاقی کابینہ کے کسی رکن کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ دراصل بھارتی وزیراعظم مودی کے اس پراپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کی کوشش تھی جو وہ پاکستان پر الزام تراشی کے ذریعے کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف' ان کی بیٹی' بیٹے اور داماد و دیگر کو نوٹس جاری کیے ہیں جن کے لیے یکم نومبر کو حاضری کی تاریخ دی گئی ہے۔ جس روز پانامہ لیکس کے بارے میں درخواستوں کی سماعت کی جائے گی' سپریم کورٹ نے ضمانت دی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ ان کی حفاظت کے لیے عدالت باقاعدہ مداخلت کرے گی۔ پانامہ لیکس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے حکومت کے طرز عمل سے غیر سنجیدگی عیاں ہوتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے خود احتسابی کی ایک بہت اہم مثال ہے جب سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے بعض افسروں کی تعیناتی میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ پیش کر دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جتنے لوگ ہیں وہ پہلے مشرف کے وفا دار تھے اور اب وہ نواز شریف کی بے گناہی ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں جب کہ عمران خان کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے اس پر حملے کر رہے ہیں اور اس طرح وزیراعظم کی پردہ پوشی کی کوشش کر رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ چونکہ نواز شریف نے آرمی کو بہت زیادہ تنہائی کا شکار بنا دیا ہے اب تیسری طاقت کی طرف سے ملک میں مداخلت ہو سکتی ہے جس کی ذمے داری وزیراعظم پر ہو گی مگر حکومت اور آرمی کے درمیان خلیج کا ذکر کرنا بہت نادانی کی بات ہے۔
اگر وزیراعظم کو بالفرض ہٹا بھی دیا جائے تو عمران خان ہر گز ان کی جگہ پُر نہیں کریں گے اور جہاں تک فوج کی مداخلت کا تعلق ہے تو وہ آخری حربہ ہو سکتی ہے کیونکہ مارشل لا فی الحقیقت کوئی حل نہیں۔ حکومت عمران کے خلاف جو کارروائیاں کر رہی ہے اس سے الٹا عمران کی کامیابی میں مدد ملے گی اور وہ دارالحکومت کو بند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پاکستان پر قرضے کا بوجھ اسقدر بڑھ گیا ہے کہ اس کا صرف سود ہی ملک کے تمام ترقیاتی بجٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواہ پانامہ لیکس ہوں یا بہاما لیکس' سچ کو ہر حال میں پذیرائی ملنی چاہیے۔ ہمارے حکمران غیر قانونی سودے کرتے رہے ہیں اور ٹیکس کی ادائیگی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔
مس لیگارڈ کا کہنا تھا کرپشن کے سدباب کے لیے شفافیت اور احتساب دو کلیدی عناصر ہیں۔ مس لیگارڈ کے دورہ پاکستان کے ایک روز بعد ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر ٹاکی ہیگو ناکاؤ بھی پاکستان کے دورے پر آئے اور انھوں نے بھی مس لیگارڈ کے موقف کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کرپشن' ٹیکس نادہندگی اور منی لانڈرنگ سے مسلسل نمٹنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر سپریم کورٹ کو بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
جہاں تک پانامہ لیکس کے سکینڈل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ابھی تک تحقیق کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے حتیٰ کہ قومی احتساب بیورو اپنے صوابدیدی اختیار کے استعمال میں ناکام رہا ہے جو کہ اسے پانامہ پیپرز کے ذمے داروں کا نام تلاش کرنے کے سلسلے میں حاصل تھے۔ سپریم کورٹ کی تعریف کی جانی چاہیے کہ اس نے چیئرمین نیب کو خورد برد کی رقم رضا کارانہ طور پر واپس کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
شروع میں تو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے بدعنوانی کے احتساب کا اجتماعی طور پر مطالبہ کیا گیا لیکن رفتہ رفتہ اس جدوجہد میں صرف پی ٹی آئی اکیلی پارٹی رہ گئی۔ اب پی اے ٹی کے اس کے ساتھ شامل ہونے سے اس کو تقویت حاصل ہو گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے دو نومبر کو ہونے والے اسلام آباد دھرنے میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے تاہم پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے احتساب کے عمل کی حمایت کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز وزیراعظم اور ان کی فیملی سے ہونا چاہیے۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اس نے اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کر لیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 25000 اہلکاروں کے لیے 680 ملین (68 کروڑ) روپے جاری کیے گئے ہیں اور ان کو 'اے جے کے' سمیت دیگر صوبوں سے طلب کر لیا گیا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد کی پولیس میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے اور فسادات کو روکنے والے دستوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزراء نے اشارہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا جائے گا جب کہ ایسا کرنے سے سڑکوں پر خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیا ان کارروائیوں کے نتیجے میں سیاسی شہیدوں کو پیداکرنے کا انتظام تو نہیں کیا جا رہا یا قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟ عمران خان اور جہانگیر ترین کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نوٹس موصول ہو گئے ہیں کہ وہ دو نومبر کو کمیشن کے روبرو پیش ہوں جہاں ان کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نااہلی کے ریفرنس جمع کروا دیے ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات قطعاً حیران کن نہیں کہ انھوں نے وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کو طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ اس کارروائی کے ٹائمنگ کو دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے منصوبوں کو پھندا ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ عمران نے بعدازاں تسلیم کر لیا تھا کہ ان کے اور ان کی فیملی کی چند آف شور کمپنیوں میں حصص موجود ہیں تاہم ان کا اصرار ہے کہ یہ رقوم غیر قانونی طور پر منتقل نہیں کی گئیں تو پھر انھیں کسی انکوائری کا آخر کیا ڈر ہے؟
کیا سپریم کورٹ بلا تخصیص ان سب لوگوں کو سزا نہیں سنا سکتی جن کے آف شور کمپنیوں میں حصے ہیں اور وہ کسی انکوائری کی مزاحمت کر رہے ہیں، حکومتی حلقوں میں شامل افراد کیوں انکوائری سے خود کو بچا رہے ہیں؟ پانامہ لیکس نے اخلاقی بنیادوں پر وزیراعظم کو ہلا کر رکھ دیا ہے جب کہ حکومت داخلی سیکیورٹی کو قابو میں رکھنے اور خارجہ پالیسی کے معاملات کے حوالے سے الجھن کا شکار محسوس ہوتی ہے۔
کوئٹہ کی پولیس اکیڈمی میں دہشتگردوں کا حملہ اور کنٹرول لائن کے ساتھ ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی طرف سے مسلسل فائرنگ اور گولہ باری یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن کی کارروائیاں حکومت کے لیے سود مند ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے کرپشن سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس حوالے سے جنرل راحیل شریف پہلے ہی اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ کرپشن کو کسی حالت میں برداشت نہیں کیا جائے گا اور احتساب بلا استثنیٰ ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے جاری ہونے والی میڈیا کی ایک مشکوک رپورٹ جس کے پیچھے وفاقی کابینہ کے کسی رکن کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ دراصل بھارتی وزیراعظم مودی کے اس پراپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کی کوشش تھی جو وہ پاکستان پر الزام تراشی کے ذریعے کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف' ان کی بیٹی' بیٹے اور داماد و دیگر کو نوٹس جاری کیے ہیں جن کے لیے یکم نومبر کو حاضری کی تاریخ دی گئی ہے۔ جس روز پانامہ لیکس کے بارے میں درخواستوں کی سماعت کی جائے گی' سپریم کورٹ نے ضمانت دی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ ان کی حفاظت کے لیے عدالت باقاعدہ مداخلت کرے گی۔ پانامہ لیکس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے حکومت کے طرز عمل سے غیر سنجیدگی عیاں ہوتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے خود احتسابی کی ایک بہت اہم مثال ہے جب سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے بعض افسروں کی تعیناتی میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ پیش کر دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جتنے لوگ ہیں وہ پہلے مشرف کے وفا دار تھے اور اب وہ نواز شریف کی بے گناہی ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں جب کہ عمران خان کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے اس پر حملے کر رہے ہیں اور اس طرح وزیراعظم کی پردہ پوشی کی کوشش کر رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ چونکہ نواز شریف نے آرمی کو بہت زیادہ تنہائی کا شکار بنا دیا ہے اب تیسری طاقت کی طرف سے ملک میں مداخلت ہو سکتی ہے جس کی ذمے داری وزیراعظم پر ہو گی مگر حکومت اور آرمی کے درمیان خلیج کا ذکر کرنا بہت نادانی کی بات ہے۔
اگر وزیراعظم کو بالفرض ہٹا بھی دیا جائے تو عمران خان ہر گز ان کی جگہ پُر نہیں کریں گے اور جہاں تک فوج کی مداخلت کا تعلق ہے تو وہ آخری حربہ ہو سکتی ہے کیونکہ مارشل لا فی الحقیقت کوئی حل نہیں۔ حکومت عمران کے خلاف جو کارروائیاں کر رہی ہے اس سے الٹا عمران کی کامیابی میں مدد ملے گی اور وہ دارالحکومت کو بند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔