ترقی اور خوشحالی
ویسے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر حکمران کا وظیفہ ’’ملکی ترقی‘‘ رہا ہے
KARACHI:
ویسے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر حکمران کا وظیفہ ''ملکی ترقی'' رہا ہے لیکن میاں برادران کی حکومت کا ہر وزیر، ہر مشیر ترقی اور خوشحالی کے جو ترانے عوام کو صبح شام سنا رہا ہے۔
عوام بے چارے حیرت سے اس ترقی کی تلاش میں ہیں جو حکمران طبقے کے ہر فرد کی زبان کا وظیفہ بنے ہوئے ہیں اور ''اقتصادی راہداری کا پروگرام تو ترقی کا ایسا محاورہ بن گیا ہے کہ اس محاورے کی رو سے پاکستان کے 20 کروڑ عوام کی زندگی میں ایسا انقلاب آ جائے گا کہ ان کے ناشتے میں انڈے، مکھن، جام جیلی، شہد اور ڈبل روٹی شامل ہو جائیں گے۔ لنچ میں پیزا، مرغ مسلم کئی قسم کی کولڈ ڈرنک اور کئی سویٹ ڈشیں ہوں گی اور ڈنر میں چکن تکہ، بریانی، چکن روسٹ اور آئسکریم ہوں گے۔ عمران خان کو عوام کی ترقی اور ملک کی خوشحالی کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔
آیئے! ذرا پاکستان کی اقتصادی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے ''اقتصادی راہداری'' پر ایک نظر ڈالیں۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے کا بنیادی مقصد چین کی برآمدات کے لیے راہداری کی سہولتیں حاصل کرنا ہے، چین تیزی سے اقتصادی ترقی کی راہ پر چل رہا ہے آج چین کی مصنوعات سے دنیا بھرکی منڈیاں بھری پڑی ہیں چین یہ ترقی کیسے حاصل کر رہا ہے۔
اس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ چین بہت تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے اور اسے دنیا خصوصاً مشرقی وسطیٰ اور مشرق بعید کے ملکوں تک پہنچنے کے لیے آسان راستوں کی ضرورت ہے اور پاک چین اشتراک سے تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداری چین کے اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا عوامی فائدہ یہ ہو گا کہ بے روزگار عوام کی بھیڑ سے کچھ لوگوں کو مزدوری کے مواقعے حاصل ہوں گے۔
اقتصادی راہداری کے مسافروں کے لیے غریب عوام جگہ جگہ ڈھابے بنائیں گے، پان سگریٹ کی دکانیں کھولی جائیں گی اور ذرا کھاتے پیتے افراد کو ٹرانسپورٹ میں حصہ ملے گا، لیکن بڑے پروجیکٹ بہرحال بڑے لوگوں ہی کو ملیں گے یوں کروڑ پتی، ارب پتی، ارب پتی، کھرب پتی بنتے رہیں گے اس میں عوام کا حصہ کیا ہو گا عوام کی ترقی اور خوشحالی کیسے ہو گی؟
اس سوال کا جواب حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے پاس کوئی نہیں، کچھ نہیں، بس یہ استحصالی طبقات عوام کی ترقی کے پکے راگ اسی طرح بلکہ زیادہ زور و شور سے گاتے رہیں گے، جس طرح وہ 69 سال سے گاتے آ رہے ہیں۔ ہاں اگر اس معاہدے سے کسی طبقے کو ترقی ہو گی تو وہ طبقہ ہے طبقہ اشرافیہ، اربوں روپوں کے بڑے پروجیکٹ یہی طبقہ حاصل کرے گا اور ملکی دولت پر اس کا قبضہ اور مضبوط ہوتا جائے گا اور غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جائے گا۔
آج پانامہ لیکس کے حوالے سے ناجائز دولت سے بنائی ہوئی آف شور کمپنیوں کا جو غلغلہ بلند ہو رہا ہے اور اس کی آگ حکمران طبقے کے دامن تک پہنچ چکی ہے یہ آف شور کمپنیوں کے مالک نہ اس ملک کے غریب عوام ہیں نہ مزدور ہیں نہ کسان ہیں۔ ان کمپنیوں کے مالک وہی گنے چنے افراد ہیں جو عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو آف شور کمپنیوں میں لگا رہے ہیں، سوئس بینکوں میں جمع کر رہے ہیں اور لندن، پیرس، دبئی میں اربوں کی مالیت کے فلیٹس اور جائیدادیں خرید رہے ہیں اور محلات کے مالک بن رہے ہیں۔
20 کروڑ غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھاگتے بھاگتے ساری عمر گزار دیتے ہیں اور یہی غربت بھوک بیماری اپنی آنے والی نسلوں کو وراثت میں دے کر اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کا ناشتہ باسی روٹی اور پیاز، ان کا لنچ چٹنی روٹی، ان کا ڈنر دال روٹی رہا ہے اور یہ ترقی ان کی نسلوں سے جاری و ساری ہے۔ اس ترقی کا ایک عجوبہ ملک کے 50 فی صد عوام کی زندگی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتا ہے ان کی ترقی کا مظہر ان کی خودکشیاں ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 69 سالوں میں اس تیز رفتاری سے کبھی ترقی نہیں ہوئی جس تیز رفتاری سے پچھلے تین ساڑھے تین سالوں میں ہوئی ہے، لیکن اگر یہ ترقی ہوئی ہے تو کہاں ہوئی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے لانڈھی کالونی چلے جائیں، شیرشاہ چلے جائیں، گل بائی چلے جائیں، ملیر اور سعود آباد چلے جائیں پھر ان بستیوں کا موازنہ ڈیفنس سے کریں، کلفٹن سے کریں، پھر آپ کو ترقی کا مطلب بھی سمجھ میں آ جائے گا، ترقی کے نظارے بھی نظر آ جائیںگے۔ پاکستان کا ہر بڑا شہر کراچی ہی کی طرح دو قسم کی آبادیوں میں بٹا ہوا نظر آئے گا اور ہر شہر، ہر گاؤں میں قدم قدم پر ترقی کے یہ شاہکار آپ کو نظر آئیں گے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب اس جمہوریت کا اعجاز ہے جس کی حفاظت کے لیے ساری سیاسی ایلیٹ سر بہ کفن ہے اور کسی قیمت پر اس اشرافیائی جمہوریت پر آنچ آنے نہیں دینا چاہتی ہے جمہوریت کو اکثریت کی نمایندہ اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے کیا اس جمہوریت کے قانون ساز اداروں میں ایک بھی کسان کا نمایندہ موجود ہے؟ کیا اس جمہوریت کے قانون ساز اداروں میں ساڑھے چار کروڑ مزدوروں کا ایک بھی نمایندہ موجود ہے؟
کیا اس جمہوریت کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں ایک بھی کسانوں، مزدوروں اور غریب طبقات کا نمایندہ موجود ہے؟ اس سوال کا جواب ہے ''نہیں'' جن قانون ساز اداروں جن مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں عوام کی حقیقی نمایندے موجود نہیں ہوں گے وہاں کی ترقی آف شور کمپنیوں، سوئس بینکوں، لندن، پیرس اور دبئی کے پوش علاقوں ہی میں نظر آئے گی غریبوں کی بستیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
ویسے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر حکمران کا وظیفہ ''ملکی ترقی'' رہا ہے لیکن میاں برادران کی حکومت کا ہر وزیر، ہر مشیر ترقی اور خوشحالی کے جو ترانے عوام کو صبح شام سنا رہا ہے۔
عوام بے چارے حیرت سے اس ترقی کی تلاش میں ہیں جو حکمران طبقے کے ہر فرد کی زبان کا وظیفہ بنے ہوئے ہیں اور ''اقتصادی راہداری کا پروگرام تو ترقی کا ایسا محاورہ بن گیا ہے کہ اس محاورے کی رو سے پاکستان کے 20 کروڑ عوام کی زندگی میں ایسا انقلاب آ جائے گا کہ ان کے ناشتے میں انڈے، مکھن، جام جیلی، شہد اور ڈبل روٹی شامل ہو جائیں گے۔ لنچ میں پیزا، مرغ مسلم کئی قسم کی کولڈ ڈرنک اور کئی سویٹ ڈشیں ہوں گی اور ڈنر میں چکن تکہ، بریانی، چکن روسٹ اور آئسکریم ہوں گے۔ عمران خان کو عوام کی ترقی اور ملک کی خوشحالی کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔
آیئے! ذرا پاکستان کی اقتصادی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے ''اقتصادی راہداری'' پر ایک نظر ڈالیں۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے کا بنیادی مقصد چین کی برآمدات کے لیے راہداری کی سہولتیں حاصل کرنا ہے، چین تیزی سے اقتصادی ترقی کی راہ پر چل رہا ہے آج چین کی مصنوعات سے دنیا بھرکی منڈیاں بھری پڑی ہیں چین یہ ترقی کیسے حاصل کر رہا ہے۔
اس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ چین بہت تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے اور اسے دنیا خصوصاً مشرقی وسطیٰ اور مشرق بعید کے ملکوں تک پہنچنے کے لیے آسان راستوں کی ضرورت ہے اور پاک چین اشتراک سے تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداری چین کے اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا عوامی فائدہ یہ ہو گا کہ بے روزگار عوام کی بھیڑ سے کچھ لوگوں کو مزدوری کے مواقعے حاصل ہوں گے۔
اقتصادی راہداری کے مسافروں کے لیے غریب عوام جگہ جگہ ڈھابے بنائیں گے، پان سگریٹ کی دکانیں کھولی جائیں گی اور ذرا کھاتے پیتے افراد کو ٹرانسپورٹ میں حصہ ملے گا، لیکن بڑے پروجیکٹ بہرحال بڑے لوگوں ہی کو ملیں گے یوں کروڑ پتی، ارب پتی، ارب پتی، کھرب پتی بنتے رہیں گے اس میں عوام کا حصہ کیا ہو گا عوام کی ترقی اور خوشحالی کیسے ہو گی؟
اس سوال کا جواب حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے پاس کوئی نہیں، کچھ نہیں، بس یہ استحصالی طبقات عوام کی ترقی کے پکے راگ اسی طرح بلکہ زیادہ زور و شور سے گاتے رہیں گے، جس طرح وہ 69 سال سے گاتے آ رہے ہیں۔ ہاں اگر اس معاہدے سے کسی طبقے کو ترقی ہو گی تو وہ طبقہ ہے طبقہ اشرافیہ، اربوں روپوں کے بڑے پروجیکٹ یہی طبقہ حاصل کرے گا اور ملکی دولت پر اس کا قبضہ اور مضبوط ہوتا جائے گا اور غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جائے گا۔
آج پانامہ لیکس کے حوالے سے ناجائز دولت سے بنائی ہوئی آف شور کمپنیوں کا جو غلغلہ بلند ہو رہا ہے اور اس کی آگ حکمران طبقے کے دامن تک پہنچ چکی ہے یہ آف شور کمپنیوں کے مالک نہ اس ملک کے غریب عوام ہیں نہ مزدور ہیں نہ کسان ہیں۔ ان کمپنیوں کے مالک وہی گنے چنے افراد ہیں جو عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو آف شور کمپنیوں میں لگا رہے ہیں، سوئس بینکوں میں جمع کر رہے ہیں اور لندن، پیرس، دبئی میں اربوں کی مالیت کے فلیٹس اور جائیدادیں خرید رہے ہیں اور محلات کے مالک بن رہے ہیں۔
20 کروڑ غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھاگتے بھاگتے ساری عمر گزار دیتے ہیں اور یہی غربت بھوک بیماری اپنی آنے والی نسلوں کو وراثت میں دے کر اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کا ناشتہ باسی روٹی اور پیاز، ان کا لنچ چٹنی روٹی، ان کا ڈنر دال روٹی رہا ہے اور یہ ترقی ان کی نسلوں سے جاری و ساری ہے۔ اس ترقی کا ایک عجوبہ ملک کے 50 فی صد عوام کی زندگی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتا ہے ان کی ترقی کا مظہر ان کی خودکشیاں ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 69 سالوں میں اس تیز رفتاری سے کبھی ترقی نہیں ہوئی جس تیز رفتاری سے پچھلے تین ساڑھے تین سالوں میں ہوئی ہے، لیکن اگر یہ ترقی ہوئی ہے تو کہاں ہوئی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے لانڈھی کالونی چلے جائیں، شیرشاہ چلے جائیں، گل بائی چلے جائیں، ملیر اور سعود آباد چلے جائیں پھر ان بستیوں کا موازنہ ڈیفنس سے کریں، کلفٹن سے کریں، پھر آپ کو ترقی کا مطلب بھی سمجھ میں آ جائے گا، ترقی کے نظارے بھی نظر آ جائیںگے۔ پاکستان کا ہر بڑا شہر کراچی ہی کی طرح دو قسم کی آبادیوں میں بٹا ہوا نظر آئے گا اور ہر شہر، ہر گاؤں میں قدم قدم پر ترقی کے یہ شاہکار آپ کو نظر آئیں گے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب اس جمہوریت کا اعجاز ہے جس کی حفاظت کے لیے ساری سیاسی ایلیٹ سر بہ کفن ہے اور کسی قیمت پر اس اشرافیائی جمہوریت پر آنچ آنے نہیں دینا چاہتی ہے جمہوریت کو اکثریت کی نمایندہ اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے کیا اس جمہوریت کے قانون ساز اداروں میں ایک بھی کسان کا نمایندہ موجود ہے؟ کیا اس جمہوریت کے قانون ساز اداروں میں ساڑھے چار کروڑ مزدوروں کا ایک بھی نمایندہ موجود ہے؟
کیا اس جمہوریت کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں ایک بھی کسانوں، مزدوروں اور غریب طبقات کا نمایندہ موجود ہے؟ اس سوال کا جواب ہے ''نہیں'' جن قانون ساز اداروں جن مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں عوام کی حقیقی نمایندے موجود نہیں ہوں گے وہاں کی ترقی آف شور کمپنیوں، سوئس بینکوں، لندن، پیرس اور دبئی کے پوش علاقوں ہی میں نظر آئے گی غریبوں کی بستیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔