جمہوریت کو بچا لیجیے

ایک عام فرد بھی اس امر سے آگاہ ہے کہ پاناما لیکس میں تقریباً 300 سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے


[email protected]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف 2 نومبرکو اسلام آباد شہر بند کرنے اور ایک بار پھر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اپنے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے کا راشن بھی ساتھ لائیں۔

ایک ایسی سیاسی جماعت جسے عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے اقتدار تک پہنچایا اور مئی 2013 کے انتخابات میں جس نے پارلیمنٹ کی کثیر تعداد میں نشستیں حاصل کیں اور اسی عوامی طاقت سے وزیر اعظم نوازشریف نے حکومت بنائی۔ اسے چند درجن اسمبلی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پی ٹی آئی بار بار للکار رہی ہے۔ وہ اب تک مسلم لیگ ن کی کامیابی کو ہضم نہیں کرسکی اور یہی وہ بدہضمی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے پیٹ میں بار بار مروڑ اٹھتا ہے۔

ایک عام فرد بھی اس امر سے آگاہ ہے کہ پاناما لیکس میں تقریباً 300 سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے مگر نوازشریف کا کہیں ذکر ہی نہیں تھا، لیکن عمران خان نے اس نکتے کو سمجھنے کی بجائے اسے ناگوار محسوس کیا ہے۔ بقول شاعر

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

البتہ ان کے صاحبزادوں کے نام ضرور تھے جس پر انھوں نے کھلے دل کے ساتھ پانامالیکس کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور اس ضمن میں اپوزیشن کے متعدد مطالبات بھی تسلیم کرلیے لیکن پھر عمران خان نے یوٹرن لیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ سب سے پہلے نوازشریف کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے جب کہ حکومت سب کے خلاف تحقیقات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

عمران خان ملکی اداروں کو بھی گالیاں دے رہے ہیں اور سب پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ عمران خان کو جب حکومت سے اپنی مرضی کے جوابات نہیں ملے تو انھوں نے اسلام آباد بندکرنے کا اعلان کردیا، تاہم اس عرصے میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی، شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا اور ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ان کی درخواستوں کو منظورکرتے ہوئے 20 اکتوبر کو ان کی سماعت کی۔ اور وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے اہل خانہ سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کیے اور مقدمے کی مزید سماعت کے لیے یکم نومبرکی تاریخ مقررکردی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظارکیا جائے اور اپوزیشن کی دیگر تمام جماعتوں نے بھی تقریباً یہی موقف اختیار کیا ہے، مگر عمران خان میں نہ مانو والا رویہ اختیارکرکے اسلام آباد بند کرنے پر مصر ہیں ۔کیا ہی بہتر ہو کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے۔ میں حالیہ کشیدگی کے حوالے سے اس کے پس منظر پر بھی کچھ روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ عمران خان نے کبھی اپنی شکست کو قبول نہیں کیا۔

عام انتخابات میں ناکامی کے بعد وہ حکومت پر دھاندلی کے الزمات عائد کرتے رہے جس میں انھیںکچھ نہیں ملا اور بعدازاں آزاد کشمیر کے انتخابات اور پاکستان میں ہونیوالے بلدیاتی اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں بھی انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

126 دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا جس کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے اس دھرنے سے چین کی قیادت جو پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والی تھی اسے اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ رائے ونڈ مارچ ایک ایسے وقت میں کیا جب پاک بھارت جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے اور دونوں ملکوں کی فوجیں سرحدوں پر الرٹ کھڑی تھیں۔ دوسری جانب کشمیر میں جدوجہد آزادی عروج پر تھی۔

بھارت مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا تھا، لیکن انھوں نے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر رائے ونڈ میں احتجاج کرنا ضروری سمجھا، لیکن اس سے بھی وہ کوئی قابلِ ذکر نتائج حاصل نہیں کرسکے۔ دراصل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان سے نواز دور میں ہونے والی ملکی ترقی، سی پیک کا عظیم منصوبہ کشمیر کی جدوجہد آزادی اور پاک فوج کی قیام امن کے لیے قربانیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہیں۔ وہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد مسلسل مسائل پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اپوزیشن کا کام حکومت وقت کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھنا ہوتا ہے وہ حکومت پر تنقید بھی کرتی ہے لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہی ہے کہ ایسی تنقید مثبت، تعمیری اورحقائق پر مبنی ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اپوزیشن اپنی یہ ذمے داریاں حقیقی معنوں میں ادا کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر حکومت پر جو تنقید کی جاتی ہے وہ دلائل سے عاری ہوتی ہے۔ اس میں کوئی منطق دکھائی نہیں دیتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ وہ اخلاقی حدود کو بھی نظر اندازکردیتے ہیں جو زبان وہ سیاسی قائدین کے خلاف استعمال کررہے ہیں وہ نہایت قابل اعتراض ہے، غیر اخلاقی اور غیر مہذب زبان کا استعمال انھیں بالکل زیب نہیں دیتا۔ انھیں دلیل اور ثبوت سے بات کرنی چاہیے کہ احتجاج ان کا حق ہے مگر اس کے لیے انھیں اخلاقیات، مذاکرات اور امن کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انھوں نے پاکستان میں جس غیر مہذب کلچر کو فروغ دیا ہے وہ قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔

وہ 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرانے کے فیصلے پر قائم ہیں۔ اگر انھوں نے ملک کا دارالحکومت زبردستی بند کرایا گیا تو یہ ایک قسم کی بغاوت ہوگی، جب کہ ان کے دھرنے اور شہر بند کرانے سے اسلام آباد کے شہریوں کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا، انھیں اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ ان کی وجہ سے تاجروں کوکاروبار کرنے سے روک دیا جائے۔

شہریوں کو اپنے گھروں اور دفاتر تک آنے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بچے اسکول اور کالج جانے سے محروم ہوجائیں گے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اگر تشدد کا راستہ اختیار کیا تو اسلام آباد میں خونریز تصادم کے خدشات بڑھ جائیں گے اور ان حالات میں تیسری قوت بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے اگر بدقسمتی سے ایسا ہوا تو ان حالات کی تمام تر ذمے داری عمران خان اینڈ کمپنی پر عائد ہوگی۔

مریم نواز کی سیاسی شخصیت کا سحر رفتہ رفتہ ملک بھر میں پھیل رہا ہے وہ مستقبل کی بہترین لیڈر ثابت ہوسکتی ہیں اسی لیے عمران خان پر مریم نواز کا بھوت سوار ہوگیا ہے وہ چاہتے ہیں اس سے پہلے ہی خونریز تصادم ہو تاکہ پھر وہ لاشوں کی سیاست کرسکیں۔ اسی لیے وہ ملک کے حالات خراب کرنے کے درپے ہیں۔ ان کی اس غیر دانشمندانہ سیاست اور حکومت کے خلاف بے سروپا الزامات کی پالیسی سے دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق نہیں کیا بلکہ پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین عمران خان پر سخت نکتہ چینی کررہے ہیں۔ انھیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں لیکن وہ ایک منتخب وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے فیصلے پر قائم ہیں۔

حالانکہ اس دوران پاکستان نے ترقی اور خوشحالی کی منزل کی جانب اپنا سفر شروع کردیا ہے ۔ موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں سے کئی درجے بہتر ہے جس کا اعتراف لاہور میں ایک تقریب کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن ہے۔ پاکستان پہلے سے زیادہ مستحکم ہے۔ ضرب عضب سے خطے میں استحکام آیا۔ بے رحم دشمن کو شکست دیدی۔

میرے خیال میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے یہ الفاظ موجودہ حکومت کی کارکردگی پر تصدیقی مہر ثبت کردیتے ہیں۔ جب میں کالم کی اختتامی سطور لکھا رہا تھا، اسلام آبادہائیکورٹ نے تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کو اسلام آباد بندکرنے سے روکتے ہوئے عمران خان کو31 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیے چیف کمشنر یقین دہانی کرائے2 نومبر کو شہر میں کوئی اسکول، کالج اور اسپتال بند نہیں کیا جائے گا، امتحانات کا شیڈول تبدیل نہیں ہوگا اور حکومت کنٹینر لگاکر سڑکیں بند نہیں کرے گی۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ سب پر واضح ہوناچاہیے ایمپائر صرف پاکستان کی عدالتیں ہیں،آن گراؤنڈ،آف گراؤنڈ اور ریزرو ایمپائر بھی پاکستان کی عدالتیں ہی ہیں، بادی النظر میں دھرنے کا پروگرام احتجاج نہیں بلکہ حکومتی مشینری کو کام کرنے سے روکنے کا منصوبہ ہے۔لیکن اس کے باوجود عمران خان اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ میری گزارش ہے خدارا ذاتیات سے ہٹ کر ملک کا سوچیں، جمہوریت کو ڈی ریل نہ کریں بلکہ کسی بھی قیمت پر جمہوریت کو بچالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں