سائنس فکشن فلم ’’شانی‘‘ اور سعید رضوی

یہ وہ دور تھا جب فلموں کے گیت اور موسیقی ہی فلم بینوں کو اپنی طرف بلایا کرتے تھے


یونس ہمدم October 29, 2016
[email protected]

یہ وہ دور تھا جب فلموں کے گیت اور موسیقی ہی فلم بینوں کو اپنی طرف بلایا کرتے تھے اور وہ دلکش گیت زبان زد خاص وعام ہوا کرتے تھے۔گلی ،گلی اورگھروں گھروں میں فلموں کے مشہورگیت گائے جاتے تھے پھرآہستہ آہستہ کچھ کور ذہن اورصرف تجارت پسند فلم سازوں نے مقصدی فلموں کے مقابلے پر ماردھاڑ کی فلموں کو رواج دینا شروع کیا اور فلم بینوں کو سستی تفریح کے نام پر ایکشن فلموں کی طرف لگادیا۔

کچھ یوں بھی ہوا کہ بعض فلم سازوں نے پنجابی کے ساتھ اردو میں بھی ڈاکوؤں، بدمعاشوں اور بدنام شخصیات پر فلمیں بنانی شروع کردیں اور فلموں کا ماحول بدلنا شروع ہوگیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے فلموں کی موسیقی اور شاعری میں بھی بدلاؤ آنے لگا، پھر ایکشن فلموں کے ساتھ مغرب سے ہارر فلمیں بھی آنے لگیں اور ہالی ووڈ سے بالی ووڈ اور لالی ووڈ تک مار دھاڑ اور فحاشی فلموں کا موضوع ہوگیا۔

ایسے میں چند سائنس فکشن پر مبنی فلمیں بھی آئیں جن کی وجہ سے بے تکی ایکشن اور فحش فلموں سے نجات ملنی شروع ہوئی، سائنس فکشن کی لہر پاکستان میں بھی آئی اور سائنس فکشن پر مبنی فلم کا سہرا کیمرہ مین فلمساز و ہدایت کار سعید رضوی کے سرجاتا ہے۔ سعید رضوی نے پہلی سائنس فکشن فلم ''شانی'' بنائی، اس فلم کو بڑی شاندارکامیابی ملی۔

سعید رضوی کے حوصلوں کو توانائی ملی تو اس نے ایک تھرل اور ہارر فلم ''سرکٹا انسان'' کے نام سے پروڈیوس کی یہ بھی پاکستان فلم انڈسٹری کی پہلی فلم تھی، جو اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد اور انوکھی فلم تھی۔ فلم بینوں نے ''سر کٹا انسان'' کو بھی پسند کیا اور پھر اس طرح پاکستان میں سائنس فکشن، تھرل اورہارر فلموں نے بھی اپنی بنیاد قائم کرلی جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس قسم کی فلموں کی ڈیمانڈ اب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

میں جب بھی کراچی گیا تو چند پرانے فلمی صحافیوں کے علاوہ سعید رضوی سے میری ضرور ملاقات رہتی تھی، سعید رضوی کا میرا بڑا پرانا رشتہ ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا فلمی صحافت میں آیا تھا اور ''نگار ویکلی'' کے لیے اسٹوڈیوزکے شب و روز پر مبنی فلم ڈائری ہر ہفتے لکھا کرتا تھا اور سعید رضوی ان دنوں ماڈرن فلم اسٹوڈیو میں چیف کیمرہ مین مدد علی مدن کا چیف اسسٹنٹ تھا۔

مجھے ان دنوں کراچی میں بحیثیت اسکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار پہلی بار ایک فلم لکھنے کے لیے ملی جس کا نام تھا ''تم سا نہیں دیکھا'' جس کے فلمساز تھے شاہد خان اور سعود حسنی۔ سعود حسنی میرا دوست تھا اور ہم اکثر کافی ہاؤس میں بیٹھ کر فلمیں بنانے کے پلان بناتے تھے اور کئی بار تو یوں بھی ہوتا تھا کہ ایک چائے کی پیالی ختم ہوتے ہی فلم خیالوں ہی خیالوں میں بن جایا کرتی تھی جس کا میں رائٹر ہوتا تھا اور سعود حسنی ڈائریکٹر۔ ہمارے ذہنوں میں نئے نئے فلمی موضوعات اور نئی نئی کہانیاں آتی رہتی تھیں، اور ہم دونوں کو ہی فلمی دنیا میں جانے اورکچھ کر دکھانے کا جنون تھا۔ اور پھر ایک دن یہ جنون رنگ لایا۔

اور ہم دونوں کی مشترکہ کاوشوں سے فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' ایسٹرن اسٹوڈیو میں سیٹ کی زینت بن گئی۔ فلمساز اداکار، ہدایت کار رحمن کی فلم ''کنگن'' کے بعد ''تم سا نہیں دیکھا'' سنگیتا کی مغربی پاکستان کی پہلی فلم تھی، جس کا ہیرو ناظم تھا اور معین اختر جو ہماری آوارگی کا دوست تھا، اس فلم میں مزاحیہ کردار میں پہلی بار کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس فلم کے لیے میں نے ہی پہلی بار سعید رضوی کو فل فلیش کیمرہ مین کی آفر کی تھی جسے سعید رضوی نے بخوشی قبول کرلیا تھا اور اس طرح ''تم سا نہیں دیکھا'' بحیثیت کیمرہ مین سعید رضوی کی بھی پہلی فلم تھی۔

گزشتہ دنوں جب میں کراچی گیا تو سعید رضوی نے فون کرکے مجھے سابقہ خیام سینما کے پیچھے واقع اپنے فلم اسٹوڈیو میں یہ کہہ کر بلایا یونس ہمدم! نیو جرسی جانے سے پہلے ایک ملاقات ضروری ہے۔ دو تین دنوں سے کراچی کا موسم ابر آلود چلا رہا ہے بس یوں سمجھو موسم ہے عاشقانہ آج شام چھ بجے میرے اسٹوڈیو میں تم آرہے ہو شام کی چائے گرم گرم جلیبیوں اور سموسوں کے ساتھ تمہارا انتظار کرے گی۔ سعید رضوی کو یہ پتا تھا کہ گرم گرم جلیبیاں میری کمزوری ہیں۔ ابھی شام کے سائے گہرے نہیں ہوئے تھے کہ میں سعید رضوی کے اسٹوڈیو میں موجود تھا۔

یہ وہی اسٹوڈیو تھا جو آج سے بیس سال پہلے میری توجہ کا مرکز بھی تھا،کیونکہ اس اسٹوڈیو میں کمرشل جنگلزامہ کمرشل فلمیں بھی بنائی جاتی تھیں، پھر مجھے سعید رضوی کی ایک منفرد فلم ''طلسمی جزیرہ'' بھی یاد آگئی۔ جسے سعید رضوی نے پروڈیوس کیا تھا اس فلم کے گیت لکھنے کے لیے مجھے اور موسیقار کمال احمد کو لاہور سے بلایا گیا تھا۔

فلم میں پاکستان اور رشیا کے فنکاروں نے کام کیا تھا۔ اس فلم کی کاسٹ میں ریما، رنگیلا کے ساتھ روسی اداکاراؤں لارا اور اولگا نے بھی مرکزی کرداروں میں کام کیا تھا۔ فلم کی ہیروئن روسی اداکارہ فلم کی کہانی کے مطابق جنگلی ماحول میں پلی بڑھی تھی، اس کی زندگی میں کوئی آشنا انسان نہیں تھا۔ جنگل، صحرا، درخت، پھول، چشمے، جھرنے بادل، بجلی اور بارش کے لوازمات اس کی زندگی میں شامل تھے۔

اس جنگلی لڑکی کی زندگی میں ایک نوجوان آتا ہے اور پھر فلمی سچویشن کی مناسبت سے ان دونوں پر ایک گیت بھی فلم بند کیا جاتا ہے پھر وہ گیت مجھ سے لکھوایا جاتا ہے جب میں وہ گیت لکھ کر پروڈیوسر اور موسیقار کمال احمد کو سناتا ہوں تو پہلی نشست ہی میں وہ گیت سب کو پسند آتا ہے اور لبھاتا ہے پھر اس گیت کوگلوکارہ مہ ناز کی دلکش آواز میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس گیت کا مکھڑا کچھ یوں تھا، اس کے بول نذر قارئین ہیں:

پھولوں کا خوشبو سے صحرا کا جگنو سے
رشتہ ہو جیسے تیرا میرا بھی رشتہ ایسے

بادل کا بجلی سے برکھا کا بدلی سے
رشتہ ہو جیسے تیرا میرا بھی رشتہ ایسے

میں سعید رضوی کے فلم اسٹوڈیو میں ماضی کی کھڑکی کھولے ہوئے مہ ناز کی سریلی آواز میں گم تھا کہ سعید رضوی نے میرا کندھا ہلاتے ہوئے کہا۔ یار یونس ہمدم! کہاں کھو گئے ہو، ارے بھئی! ماضی کی گلیوں سے واپس آجاؤ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ میں نے فوراً اپنے ذہن کو جھٹکا دیا اور پھر ہم دونوں ہنستے ہوئے چائے اور جلیبیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سعید رضوی میری پہلی فلم کا کیمرہ مین تھا اور سعود حسنی پہلا ہدایت کار آدھی فلم کے بعد وہ لندن چلا گیا باقی فلم پھر یوسف نصر نے مکمل کی تھی۔

سعید رضوی کے والد باپو رفیق رضوی جو بمبئی کی فلم انڈسٹری کے سینئر ہدایتکاروں میں شمار کیے جاتے تھے، بمبئی میں رفیق رضوی کو سب احترام سے باپو کہہ کر پکارتے تھے۔ جب وہ پاکستان آئے تو کراچی میں رہائش اختیار کی۔ کراچی میں ان کی قابل ذکر ابتدائی فلم ''بیداری'' تھی جس میں سنتوش کمار کے ساتھ رتن کمار نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ''بیداری'' حب الوطنی کے موضوع پر ایک بڑی شاندار اور تاریخی فلم تھی جس میں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی جدوجہد کو فلم کا موضوع بنایا گیا تھا۔

باپو نے کراچی میں کئی کامیاب فلمیں دیں ان میں فلم ساز وحید مراد کی فلم ''سمندر''، فلمساز رفیق چوہدری کی فلم ''پھر صبح ہوگی'' اور ''میرے بچے میری آنکھیں'' تھیں، باپو رفیق رضوی نے فلمی شعبے کے ساتھ اپنے بچوں پر بھی بڑی توجہ دی ان کی بہتر پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کا بھی خیال رکھا۔ یہ باپو رفیق رضوی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ان کا ایک بیٹا کیمرہ مین سے ایک کامیاب فلمسازوہدایت کار بنا دوسرا بیٹا مسعود رضوی ایک کامیاب کمرشل پروڈیوسر بن کر منظر عام پر آیا پھر ان کا ایک بیٹا رشید رضوی مشہور قانون دان بنا اور چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچا، میری باپو رفیق رضوی کے ان تینوں باصلاحیت صاحبزادوں سے بڑی اچھی دوستی رہی ہے۔

آج باپو رفیق رضوی اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے تینوں بیٹوں نے اپنے والد کا پاکستان میں بڑا نام روشن کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔