سقوط ڈھاکا قومی تاریخ کا سیاہ باب

وفاق کی کامیابی کے لیے تمام اکائیوں کا انتظامی معاملات میں شرکت کا احساس ضروری ہے


Saeeduz Zaman Siddiqui December 15, 2012
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں لیا۔ فوٹو: فائل

سقوطِ ڈھاکا ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ تاریخ اپنے اندر بے شمار سبق رکھتی ہے مگر ان کے لیے جو تاریخ پڑھتے ہیں اور اس سے سبق بھی لیتے ہیں۔ اگر آپ تاریخ سے سبق حاصل نہیں کریں گے تو وہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ تو کیا تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرانے والی ہے؟

سقوط ڈھاکا کے اسباب اور اس کے عوامل کے صحیح ادراک کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا ایک مختصر ساجائزہ لیں۔ پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کسی بھی لحاظ سے قابل فخر یا قابل رشک نہیں ہے۔ پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی قیادت کے بحران سے دوچار ہوگیا۔ 11 دسمبر 1948 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات نے پاکستان کو ایک اعلیٰ درجے کے قومی اور سیاسی رہنما سے محروم کردیا۔

قائد کی وفات نوزائیدہ ریاست پاکستان کے لیے ایک قومی سانحے سے کم نہ تھی مگر قائد کے معتمد خاص لیاقت علی خان جن کے کاندھوں پر قائد کی وفات کے بعد قیادت کا بوجھ آن پڑا تھا انھوں نے خوش اسلوبی، ذمے داری اور دیانت سے اس فرض منصبی کو نبھایا مگر پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے جو قیام پاکستان کے بعد ہی سے ملک کی سیاسی قیادت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھی، ایک سازش کے تحت 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام کے دوران قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کروادیا اور اس طرح پاکستان قومی سطح پر ایک قابل اعتبار سیاسی قیادت سے محروم ہوگیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک جس سیاسی افراتفری کا شکار ہوا وہ آج تک جاری ہے۔

قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا کو ملک کا گورنر جنرل مقرر کیا گیاتھا، لیکن لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کو ملک کا وزیراعظم اور غلام محمد کو جن کا تعلق سول بیورو کریسی سے تھا گورنر جنرل مقرر کردیا گیا۔ اس وقت تک ملک کا انتظام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت چل رہا تھا جس کو ملکی دستور کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ 1947 میں قائم کی گئی دستور ساز اسمبلی اس وقت تک ملک کے لیے ایک نیا دستور بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی تھی۔

غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپریل 1953 میں خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے اس وقت بر طرف کردیا جب ان کو اسمبلی میں ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی اور ان کی جگہ ایک بیوروکریٹ محمد علی بوگرہ کو بحیثیت وزیراعظم نامزد کردیا۔ اس طرح ملک میں پہلی بار دستور سے انحراف کی راہ ہموار ہوئی کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت گورنر جنرل وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند تھا، وہ اس کو برطرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اس سانحے نے قومی سیاست میں دستور سے انحراف کے ساتھ نفاق کا بیج بھی بودیا جو آخر کار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا۔

01

خواجہ ناظم الدین کی غیر آئینی برطرفی پر قومی سطح پر کسی خاص ردعمل کا مظاہرہ نہ ہونے کے باعث غلام محمد کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی دستور ساز اسمبلی کو جس کی سربراہی ایک اور مشرقی پاکستانی مولوی تمیز الدین خان کر رہے تھے، 24 اکتوبر 1954 کو برطرف کردیا۔ حکومتی سطح پر گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف عدالتی چارہ جوئی سے باز رکھنے کے لیے کیے گئے اقدام کے باوجود مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اقدام کو ایک رٹ پٹیشن کے ذریعے سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا مگر سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو اس وقت کی فیڈرل کورٹ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد منیر کر رہے تھے اس بنا پر کالعدم کردیا کہ جس قانون کے تحت سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے خلاف رٹ جاری کی تھی اس قانون کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی۔

فیڈرل کورٹ کے فیصلے نے ایک اور نئے دستوری بحران کو جنم دیا کیونکہ پاکستان بننے کے بعد اور تمیز الدین کیس کے فیصلے کی تاریخ کے مابین ملک میں اسمبلی کے ذریعے جتنی بھی قانون سازی ہوئی تھی اس کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی۔ اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے گورنر جنرل نے ایک نئے قانون کا اجراء کیا جس کی رو سے ایسے تمام قوانین جن کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی ان کو گورنر جنرل کی منظوری کا حامل قرار دے دیا گیا مگر فیڈرل کورٹ نے یوسف پٹیل کیس میں اپنے فیصلے کے ذریعے اس قانون کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دے دیا کہ گورنر جنرل کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت اس قسم کی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ایک ریفرنس دائر کیا جس میں فیڈرل کورٹ نے پہلی بارنظریہ ضرورت (necessity State) کا سہارا لے کر یہ فیصلہ دیا کہ ایسے تمام قوانین جن کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی اس وقت تک ملک میں نافذالعمل رہیں گے جب تک ملک میں ایک نئی دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اور اسمبلی ان قوانین کا جائزہ لے کر انھیں منظور یا رد نہیں کردیتی۔ فیڈرل کورٹ نے فوری طور پر نئی دستور ساز اسمبلی کے قیام کی سفارش بھی کی۔ فیڈرل کورٹ کے حکم کے نتیجے میں بننے والی نئی دستور ساز اسمبلی نے 1956 کا متفقہ دستور قوم کے سامنے پیش کیا جسے 23 مارچ 1956 کو ملک میں نافذ کردیا گیا۔

1956 کا دستور مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان مساوی حقوق (parity) کی بنیاد پر بنا تھا جبکہ اس وقت مشرقی پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے مغربی پاکستان پر سبقت حاصل تھی۔ بدقسمتی سے 1956 کا متفقہ دستور نافذ ہوجانے کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکا اور 2 سال کے قلیل عرصے میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ اس غیر مستحکم سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے صدر نے 7 اکتوبر 1958 کو 1956 کے دستور کو ختم کرکے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کردیا اور ملکی انتظام فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کے حوالے کردیا۔

اس طرح ملک میں ایک غیر آئینی حکومت کا قیام عمل میں آیا جسے سپریم کورٹ نے ڈوسو کیس میں ایک کامیاب فوجی انقلاب کا نام دے کر جائز قرار دے دیا اور اس طرح ملک میں فوجی انقلاب کے ذریعے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے اور فوجی حکومتوں کے قیام کی قانونی راہ ہموار ہوگئی۔ تمیزالدین خان اور ڈوسو کیس کے فیصلے عوام اور قانون دانوں کی انجمنوں میں پذیرائی حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے اور عرصہ دراز تک سخت تنقید کا نشانہ بنے رہے۔ بالآخر سپریم کورٹ نے 1972 میں اسماء جیلانی کیس میں ان دونوں فیصلوں کو غلط قرار دے دیا۔

02

1956 کا متفقہ دستور پارلیمانی جمہوریت کی اساس پر بنا تھا، 1958 کے فوجی انقلاب نے اس دستورکو ختم کرکے ملک میں ایک فرد واحد کا بنایا ہوا صدارتی نظام پر مبنی 1962 کا دستور رائج کردیا جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پیریٹی کے اصول کو قائم رکھا گیا۔ 1962 کا صدارتی طرز کا دستور فیلڈ مارشل ایوب خان کے 1969 میں رخصت ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا اور آنے والے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اس کی جگہ (LFO) Legal Framework Order نافذ کرکے ملکی انتظام سنبھال لیا اور مغربی پاکستان میں قائم ون یونٹ ختم کرکے روایتی صوبوں پنجاب، سندھ، فرنٹیر اور بلوچستان کو بحال کرکے ملک میں 1970 میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کردیا۔

1970 میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے منعقد کیے گئے تھے مگر اس وقت کے فوجی حکمرانوں نے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا غیر منطقی فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا اور ملک کے مشرقی بازو میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی جمہوری حکومت وجود میں آئی اور وہاں موجود پاکستان کے نوے ہزار فوجیوں کو ہندوستان کی جارح افواج کے سامنے ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈالنے پڑے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں چھوٹے صوبوں میں شدید احساس محرومی، مغربی پاکستان کے اکثر یتی صوبے کے لوگوں کا مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک، ملک میں جمہوری اداروں کا فقدان اور ملک کے سیاسی نظام میں بار بار کی فوجی مداخلت جس نے وفاق کی سطح پر مشرقی پاکستانیوں میں مساوی حقوق کی پامالی کے احساس کو شدید تر بنا دیا تھا۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ایک وفاق کی صورت میں جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا، اس لیے اس کی بقا بھی جمہوری روایت پر کاربند ہو کر ہی ممکن ہے۔ وفاق کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وفاق میں شامل تمام اکائیوں میں یہ احساس ہمیشہ زندہ رہے کہ وفاق کے انتظامی معاملات میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کے عوام میں ان احساسات کی عدم موجودگی نے بڑا کردار ادا کیا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں لیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم نے مغربی پاکستان کے باقی چار صوبوں کو پاکستان کا نام تو دے دیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ایک متفقہ دستور بھی بنا لیا مگر اس دستور پر عمل پیرا ہونے میںہم بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ملک میں فروری 2008 کے انتخاب کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت تو قائم ہوگئی ہے مگر ماضی کی طرح آج بھی جمہوری ادارے اپنا روایتی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات اپنے عروج پر ہیں، حکومت سیاسی اور اختلافی معاملات کو گفت و شنید کے بجائے طاقت کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دے رہی ہے جس کے نتائج ملک کی بقا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ محصورین مشرقی پاکستان جن مسائل سے آج تک دوچار ہیں اس کی ذمے داری ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی بے حسی، بے اصول سیاست اور پاکستانی باشندوں کے حقوق کے بارے میں غیر منصفانہ موقف نے اس انسانی مسئلے کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔ اگر ہم نے ملکی معاملات کو سدھارنے کے لیے فوری اقدام نہیں کیے تو وقت ہمارا انتظار نہیں کرے گا اور شاید تاریخ بھی ہمیں معاف نہ کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں