ایک کُھلا خط وزیراعظم کے نام

وزیراعظم صاحب میری بیوی تو رات کے تین بجے ہی سب کو اٹھا کر ناشتہ کروا دیتی ہے کہ صبح سات بجے نہ گیس ہوگی اور نہ بجلی۔


شہباز علی خان October 30, 2016
دیکھیں ناں کہ اگر بندے مرتے رہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے شناختی کارڈ بھی ختم اور اگر شناختی کارڈ ختم تو اس کا مطلب کہ وہ ووٹ بھی نہیں ڈال سکیں گے۔ فوٹو:فائل

KARACHI: اسلام و علیکم وزیراعظم صاحب،

میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں، بالکل ویسے ہی جیسے آپ ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے میں ایک ٹرک ڈرائیور ہوں اور اپنے ٹرک پر سارا پاکستان گھومتا ہوں، ویسے خیر گھومتے تو آپ بھی بہت ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ہوائی جہازوں میں گھومتے ہیں اور میں ٹوٹی پھوٹی اور کھڈوں سے بھرپور سڑکوں پر۔

آپ سے مخاطب ہونے مقصد یہ ہے کہ آج جب میں ٹرک لوڈ کروا رہا تھا تو ایک ڈرائیور کہنے لگا کہ آج کل ہمارے وزیراعظم بہت پریشان ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ خوبصورتی بھی ہے، پیسہ بھی ہے، شہرت بھی ہے، عزت بھی ہے، بادشاہت بھی ہے، طاقت بھی ہے، پھر آخر کیوں؟ میں تو اُس وقت پریشان ہوتا ہوں جب اپنا ٹرک لے کر سڑک پر آتا ہوں اور ایک ایک کھڈے کو محسوس کرتا ہوں، پھر ٹریفک پولیس والے بھی تنگ کرتے ہیں مگر آپ سے تو سب پولیس والے ڈرتے ہیں۔ پھر رہنے کے لئے آپ جناب کے گھر بھی کئی ہیں اور وہ بھی بیس بیس کمروں کے ہونگے جبکہ میں تو دو کمروں کے مکان میں دس افراد کے ساتھ رہتا ہوں۔ جو پانی ہم پیتے ہیں اس سے کئی گنا صاف، شفاف اور صحتمند پانی سے تو آپ جناب کی گاڑیاں دھلتی ہیں۔ آپ جناب نے تو کبھی خوابوں میں بھی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا اپنے گھر میں تصور نہیں کیا ہوگا۔ میرے ہاں تو میری بیوی رات کے تین بجے ہی سب کو اٹھا کر ناشتہ کروا دیتی ہے کہ صبح سات بجے نہ گیس ہوگی اور نہ بجلی۔ وہ بھلی مانس رات کے اس پہر ہی سب کو ناشتہ اور بچوں کو یونیفارم پہنا دیتی ہے۔

میری شادی سوئی کے پاس کے ایک علاقے میں اپنے چاچے کے ہاں ہوئی ہے۔ تب میرے چاچے سسر نے یہی شرط رکھی تھی کہ اُن کی بیٹی نے اپنے علاقے میں صرف گیس نکلتی ہی دیکھی ہے کبھی اپنے چولہے میں جلتی نہیں دیکھی تو اب چونکہ وہ شادی کے بعد شہر جا رہی ہے تو خبردار! اگر تم نے گیس جلتی نہ دکھائی اور اگر میری بیٹی سے لکڑیوں یا پھر بھینس کے گوبر سے آگ جلوائی تو پھر اپنا حال دیکھنا۔

سردیوں کے ہی موسم میں شادی ہوئی تھی جب میری بیوی گھر آئی تو آتے ہی سب سے پہلے ٹونٹی کا پانی چیک کیا اور کچن میں جا کر چولہے کو کھولا، مگر ہر طرف مایوسی ہی ملی۔ وہ تو میں نے اعلیٰ سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تاویل دی کہ سردی کا موسم ہے تو گیس پائپ لائنوں میں جم جاتی ہے، تم یہ سیلنڈر استعمال کرلینا اور باقی رہی پانی کی بات تو ابھی بجلی آجائے گی تو موٹر چلا کر ڈرم بھرلیں گے۔ مگر جب گرمیوں میں بھی یہی لوڈ شیڈنگ ملی تو میں نے پھر یہ کہہ کر جان بچائی کہ وہ گرمیوں میں گیس پائپ لائنوں سے لیک ہوجاتی ہے۔

بس جناب ہماری زندگی تو انہی مسائل کی نظر ہوگئی ہے اور چکر بازیوں سے ہی گھر چلا رہے ہیں، مگر حضور آپ کو اس معاملے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ جیسے ہی میں نے اپنی شریک حیات کو تکنیکی منطقیں دے دے کر سیٹ کرلیا ہے، ساری عوام نے اسی شعار کو اپنا نصیب بھر کر اب ٹھنڈی آہیں لینا بھی چھوڑ دیا ہے بلکہ اگر بجلی اور گیس بیک وقت زیادہ دیر تک موجود رہیں تو پریشانی ہونے لگتی ہے کہ کہیں حکومت چلے تو نہیں گئی۔

گیس کی آواز سے زیادہ سریلی اس سیٹی کی آواز لگتی ہے جو چولہے سے اس وقت برآمد ہورہی ہوتی ہے جب گیس سرے سے نہ آ رہی ہو مگر سیٹی کی آواز اور بل پابندی سے زیادہ آرہا ہو۔ بجلی اور گیس کے بل دیکھ دیکھ کر ہی یہ یقین پختہ رہتا ہے کہ ہمارے گھر گیس بھی ہے اور بجلی بھی، کیونکہ بھاری بھر کم بلز سے زیادہ اور کون سا ثبوت ہوگا۔

لیکن جناب وزیراعظم صاحب آپ کی اتنی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ ایک شکوہ بھی کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ رحیم یار خان سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سہجہ کے مقام پر ایک ٹریفک حادثہ ہوا تھا، آپ جناب نے رحیم یار خان میں ہیلتھ کارڈ کا کوئی پروگرام شروگرام بھی کیا تھا، جناب کوئی ایک آدھا وزیر مشیر جائے حادثہ پر ہی بھیج دیتے۔ میں بالکل یہ بات سمجھتا ہوں کہ بطور وزیراعظم آپ بہت مصروف رہتے ہیں لیکن آپ کی جگہ کوئی اور تو آسکتا تھا تاکہ زخمیوں کی عیادت بھی کرلے اور سڑک کی حالت زار بھی دیکھ لے۔ اگر آپ کے لئے وہ سڑک کے خطرناک موڑ سیدھا کروانا مشکل ہو تو کوئی بات نہین، مگر مہربانی فرما کر اگلی بار جب حادثہ ہو تو کسی بڑے نہ سہی مگر کسی تھکے محکمے کے ہی کسی وزیر یا مشیر کو جائے حادثہ پر ضرور بھیجئے گا۔ دیکھیں ناں کہ اگر بندے مرتے رہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے شناختی کارڈ بھی ختم اور اگر شناختی کارڈ ختم تو اس کا مطلب کہ وہ ووٹ بھی نہیں ڈال سکیں گے۔

باقی جو لوگ لاپرواہی کی وجہ سے مارے جاتے ہیں اُن کا معاملہ تو خدا کے سپرد، لیکن جو زخمی ہوجاتے ہیں ان کے لئے ہمدردی کے بول تو ہونے چاہیے نا۔ اصل بات تو درمیان ہی میں رہی گئی کہ کیا واقعی آپ پریشان ہیں یا میری پریشانیاں سن کر اب پریشان ہوگئے ہیں؟

چلیں جی، خط طویل ہوگیا ہے، اب اجازت ہوں، میری طرف سے سب گھر والوں کو سلام،

آپ کا خیر اندیش،
شہباز علی خان، ٹرک ڈرائیور، ایم اے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں