محصور پاکستانیوں کی کہانی
ہندوستان کے مختلف صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان ہجرت کی۔
ساری دنیا پر یہ حقائق روزِ روشن کی طرح اجاگر ہیں کہ ہندوستان کے لاکھوں مسلمان، اقلیتی صوبے کے مسلمان خصوصی طور پر بہار کے مسلمانوں نے 1947میں قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نعرے لگائے ''لڑ کے لیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان ، بن کے رہے گا پاکستان'' اور اس کے جرم میں اکثریتی ہندوئوں نے اقلیتی مسلمانوں سے ایسا خونیں بدلہ لیا کہ شہر در شہر، گائوں کے گائوں، قصبوں کے قصبے ویران کردیے گئے۔
خون کی ہولیاں کھیلی گئیں، ہزاروں دخترانِ اسلام کی عزت و آبروکی دھجیاں اڑائی گئیں، لاکھوں مسلمانوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑا تب جاکر پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ قائد اعظم نے فرمایا ''بہار نے اپنا حق ادا کردیا اور پاکستان بن گیا۔'' پھر اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا، سارے جہاں کے مسلمانوں کا گھر ہوگا اور ہدایت جاری کی گئی کہ جہاں جہاں جس کی ضرورت ہے وہاں وہاں ہجرت کریں اور اپنی ذمے داریاں پوری کریں تاکہ پاکستان ایک مضبوط مملکت بن سکے۔
ہندوستان کے مختلف صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان ہجرت کی۔ اپنے آبائو و اجداد کی میراث کو، قبروں کو، لال قلعہ، تاج محل، قطب مینار اور علی گڑھ کو چھوڑ کر چلے آئے جو آج ہندوئوں کی جاگیر ہے، قائداعظم کی آواز پر سب کچھ چھوڑ کر وطن عزیز کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے چلے آئے۔
وائے قسمت 1971 میں جب مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں نے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک شروع کی تو ہجرت کر کے آنے والوں سے کہا گیا کہ پاکستان خطرے میں ہے تمہاری قربانیوں کی ایک بار پھر ضرورت ہے۔ ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
بقائے پاکستان کے لیے ہر محاذ پر پاک افواج کا شانہ بشانہ ساتھ دیا اور وفاق کا ساتھ دینے کے جرم میں ایک بار پھر ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو نئے طور سے ظلم و تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ معاشرت، تجارت اور زندگی کے تمام حقوق چھین لیے گئے، گھروں سے نکال کر بنگلہ دیش کے 14 اضلاع کے 70 کیمپوں میں مقید کردیا گیا، جس کو اب 41 سال ہوگئے ہیں۔
1972 میں انٹرنیشنل ریڈ کراس سوسائٹی (I.C.R.C) نے محصورین کے تبادلے کی ذمے داری حکومت پاکستان و بنگلہ دیش کی مرضی کے مطابق اپنے کاندھوں پر لے لی۔ دہلی معاہدے کے تحت شہید ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت نے تقریباً ایک لاکھ 27 ہزار محصورین کا پاکستان تبادلہ کیا اور انھیں پنجاب سمیت پاکستان بھر میں آباد کیا مگر بدقسمتی سے 1974 میں تبادلے کا عمل رک گیا۔ محصورین انتہائی پریشان اور بھوک سے سسک بلک رہے تھے، ان کی جان و مال کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، ہر طرف ایک قیامت خیز عالم برپا تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے متوالے پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں ان کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔
ایسے کربناک حالات میں محصورین کے درمیان ایس پی جی آر سی کا وجود عمل میں آیا۔ ایس پی جی آر سی کی باگ ڈور الحاج محمد نسیم خان نے سنبھالی۔ پوری قوم نے ان کی قیادت کو لبیک کہا۔ کنچن ندی سے کرنافلی تک عدم تشدد کی تحریک شروع ہوئی۔ سچے اور پکے محب وطن پاکستانیوں کے سربراہ اقوام متحدہ U.N.H.C.R آئی ایل اور آئی سی، اس کے علاوہ دنیا کے تمام سربراہ مملکت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انھیں اپنے دکھ درد اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ ہر طرح سے ان کے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟ آخرکار 14 اگست 1979 کو 50 ہزار محصورین کو ساتھ لے کر لانگ مارچ کے لیے بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب جمع ہوئے مگر 12 اگست 1979 ہی کو بنگلہ دیش کی مسلح افواج نے نسیم خان مرحوم سمیت سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا، گولیاں چلائی گئیں، لاٹھیاں برسائی گئیں، درجنوں نہتے محصورین شہید کردیے گئے۔
جلسہ جلوس، سیمینار، بھوک ہڑتال و دیگر احتجاجی پروگرام بتدریج اب بھی جاری ہیں۔ 1985 میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے محصور پاکستانیوں کے رہنما الحاج محمد نسیم خان سے ملاقات کی۔ اصولی طور پر انھوں نے محصورین کو پاکستانی شہری تسلیم کرلیا جس کے نتیجے میں 9 جولائی 1988 کو اسلام آباد میں رابطہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا مگر صدر پاکستان ضیاء الحق ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور مسئلہ ایک بار پھر سردخانے میں چلا گیا۔ میاں محمد نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے انھوں نے ڈھائی لاکھ محصورین کے لیے اپنے ذاتی فنڈ سے شلوار قمیص اور بہت سارے کپڑے بھجوائے اور محمد نسیم خان کے نام ایک خط لکھا جس پر ان کے اپنے دستخط تھے۔
لکھا کہ پنجاب محصور پاکستانیوں کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو محصورین کا مکمل سروے کروایا۔ اس سروے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاک سفارتخانہ اور رابطہ (مکہ)کی جانب سے رابطہ (ڈھاکہ) اور محصورین کی جانب سے تنظیم ایس پی جی آر سی نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ٹیلیویژن کے ذریعے محصورین کے کیمپوں کی فلم بنوائی جس کا نام ''منزل پاکستان'' رکھا گیا اور اسے پی ٹی وی سے بار بار دکھایا گیا۔ 12 اگست 1999 کو محمد نسیم خان کو اسلام آباد بلوا کر یقین دلایا گیا کہ پاکستان تبادلے کا کام شروع کردیا جائے گا۔ مغر ب کا وقت ہوچکا تھا، وزیر اعظم ہائوس میں محصورین کے قائد نے نماز مغرب ادا کی، وزیر اعظم بھی شریک نماز تھے۔
وعدے کے مطابق پنجاب کے شہر میاں چنوں میں محصورین کے لیے ایک ہزار یونٹ مکان تعمیر کیے گئے۔ 12 اگست 1992 کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء جب پاکستان کے دورے پر گئیں تو وزیراعظم نواز شریف کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت اسی سال دسمبر میں 3 ہزار خاندانوں کا تبادلہ پاکستان ہونا تھا مگر بدقسمتی سے 10 جنوری 1993 کو صرف 56 خاندانوں کے 325 افراد پاکستان پہنچ سکے۔ وائے قسمت نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہوگئی اور محصورین کا مسئلہ ایک بار پھر التوا میں پڑگیا۔
30 اگست 2002 کو جب جنرل پرویز مشرف بنگلہ دیش تشریف لائے تو محمد نسیم خان سے ملاقات کی۔ جنرل مشرف نے ان سے کہا کہ یہ مسئلہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ ہزاروں خطوط اور یاد دہانی کے باوجود انھوں نے کچھ نہیں کیا اور اب وہ صدر پاکستان ہی نہ رہے۔
خون کی ہولیاں کھیلی گئیں، ہزاروں دخترانِ اسلام کی عزت و آبروکی دھجیاں اڑائی گئیں، لاکھوں مسلمانوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑا تب جاکر پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ قائد اعظم نے فرمایا ''بہار نے اپنا حق ادا کردیا اور پاکستان بن گیا۔'' پھر اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا، سارے جہاں کے مسلمانوں کا گھر ہوگا اور ہدایت جاری کی گئی کہ جہاں جہاں جس کی ضرورت ہے وہاں وہاں ہجرت کریں اور اپنی ذمے داریاں پوری کریں تاکہ پاکستان ایک مضبوط مملکت بن سکے۔
ہندوستان کے مختلف صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان ہجرت کی۔ اپنے آبائو و اجداد کی میراث کو، قبروں کو، لال قلعہ، تاج محل، قطب مینار اور علی گڑھ کو چھوڑ کر چلے آئے جو آج ہندوئوں کی جاگیر ہے، قائداعظم کی آواز پر سب کچھ چھوڑ کر وطن عزیز کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے چلے آئے۔
وائے قسمت 1971 میں جب مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں نے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک شروع کی تو ہجرت کر کے آنے والوں سے کہا گیا کہ پاکستان خطرے میں ہے تمہاری قربانیوں کی ایک بار پھر ضرورت ہے۔ ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
بقائے پاکستان کے لیے ہر محاذ پر پاک افواج کا شانہ بشانہ ساتھ دیا اور وفاق کا ساتھ دینے کے جرم میں ایک بار پھر ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو نئے طور سے ظلم و تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ معاشرت، تجارت اور زندگی کے تمام حقوق چھین لیے گئے، گھروں سے نکال کر بنگلہ دیش کے 14 اضلاع کے 70 کیمپوں میں مقید کردیا گیا، جس کو اب 41 سال ہوگئے ہیں۔
1972 میں انٹرنیشنل ریڈ کراس سوسائٹی (I.C.R.C) نے محصورین کے تبادلے کی ذمے داری حکومت پاکستان و بنگلہ دیش کی مرضی کے مطابق اپنے کاندھوں پر لے لی۔ دہلی معاہدے کے تحت شہید ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت نے تقریباً ایک لاکھ 27 ہزار محصورین کا پاکستان تبادلہ کیا اور انھیں پنجاب سمیت پاکستان بھر میں آباد کیا مگر بدقسمتی سے 1974 میں تبادلے کا عمل رک گیا۔ محصورین انتہائی پریشان اور بھوک سے سسک بلک رہے تھے، ان کی جان و مال کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، ہر طرف ایک قیامت خیز عالم برپا تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے متوالے پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں ان کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔
ایسے کربناک حالات میں محصورین کے درمیان ایس پی جی آر سی کا وجود عمل میں آیا۔ ایس پی جی آر سی کی باگ ڈور الحاج محمد نسیم خان نے سنبھالی۔ پوری قوم نے ان کی قیادت کو لبیک کہا۔ کنچن ندی سے کرنافلی تک عدم تشدد کی تحریک شروع ہوئی۔ سچے اور پکے محب وطن پاکستانیوں کے سربراہ اقوام متحدہ U.N.H.C.R آئی ایل اور آئی سی، اس کے علاوہ دنیا کے تمام سربراہ مملکت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انھیں اپنے دکھ درد اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ ہر طرح سے ان کے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟ آخرکار 14 اگست 1979 کو 50 ہزار محصورین کو ساتھ لے کر لانگ مارچ کے لیے بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب جمع ہوئے مگر 12 اگست 1979 ہی کو بنگلہ دیش کی مسلح افواج نے نسیم خان مرحوم سمیت سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا، گولیاں چلائی گئیں، لاٹھیاں برسائی گئیں، درجنوں نہتے محصورین شہید کردیے گئے۔
جلسہ جلوس، سیمینار، بھوک ہڑتال و دیگر احتجاجی پروگرام بتدریج اب بھی جاری ہیں۔ 1985 میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے محصور پاکستانیوں کے رہنما الحاج محمد نسیم خان سے ملاقات کی۔ اصولی طور پر انھوں نے محصورین کو پاکستانی شہری تسلیم کرلیا جس کے نتیجے میں 9 جولائی 1988 کو اسلام آباد میں رابطہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا مگر صدر پاکستان ضیاء الحق ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور مسئلہ ایک بار پھر سردخانے میں چلا گیا۔ میاں محمد نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے انھوں نے ڈھائی لاکھ محصورین کے لیے اپنے ذاتی فنڈ سے شلوار قمیص اور بہت سارے کپڑے بھجوائے اور محمد نسیم خان کے نام ایک خط لکھا جس پر ان کے اپنے دستخط تھے۔
لکھا کہ پنجاب محصور پاکستانیوں کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو محصورین کا مکمل سروے کروایا۔ اس سروے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاک سفارتخانہ اور رابطہ (مکہ)کی جانب سے رابطہ (ڈھاکہ) اور محصورین کی جانب سے تنظیم ایس پی جی آر سی نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ٹیلیویژن کے ذریعے محصورین کے کیمپوں کی فلم بنوائی جس کا نام ''منزل پاکستان'' رکھا گیا اور اسے پی ٹی وی سے بار بار دکھایا گیا۔ 12 اگست 1999 کو محمد نسیم خان کو اسلام آباد بلوا کر یقین دلایا گیا کہ پاکستان تبادلے کا کام شروع کردیا جائے گا۔ مغر ب کا وقت ہوچکا تھا، وزیر اعظم ہائوس میں محصورین کے قائد نے نماز مغرب ادا کی، وزیر اعظم بھی شریک نماز تھے۔
وعدے کے مطابق پنجاب کے شہر میاں چنوں میں محصورین کے لیے ایک ہزار یونٹ مکان تعمیر کیے گئے۔ 12 اگست 1992 کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء جب پاکستان کے دورے پر گئیں تو وزیراعظم نواز شریف کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت اسی سال دسمبر میں 3 ہزار خاندانوں کا تبادلہ پاکستان ہونا تھا مگر بدقسمتی سے 10 جنوری 1993 کو صرف 56 خاندانوں کے 325 افراد پاکستان پہنچ سکے۔ وائے قسمت نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہوگئی اور محصورین کا مسئلہ ایک بار پھر التوا میں پڑگیا۔
30 اگست 2002 کو جب جنرل پرویز مشرف بنگلہ دیش تشریف لائے تو محمد نسیم خان سے ملاقات کی۔ جنرل مشرف نے ان سے کہا کہ یہ مسئلہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ ہزاروں خطوط اور یاد دہانی کے باوجود انھوں نے کچھ نہیں کیا اور اب وہ صدر پاکستان ہی نہ رہے۔